کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
ایک خواب ، ایک تمنا اور ایک آرزو کا شیرازہ بکھر رہا ہے- اتحاد و اتفاق کی تاکید کرتے مذہب کے ماننے والوں نے اس رسی کو چھوڑ دیا ہے جسے مضبوطی سے تھامنے کی تاکید تھی - مرکز سے ہی وہ ہوائیں چلیں ہیں کہ جنہوں نے شاید ہمیں خزاں کے پتوں کی طرح بکھیرنے کی ٹھان لی ہے – سب کو معلوم ہے کہ ان پتوں کی نہ کوئی منزل ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی رستہ ، بس پاؤں کے نیچے بے جان پڑے اپنی اکڑ قائم رکھے کڑکڑا کےٹوٹنا ہی ان کی قسمت ہوتی ہے لیکن کیوں ہم ان عوامل کو سمجھنے کی صلاحیت کھو رہے ہیں جن میں حرم کی پاسبانی کے لئے ایک ہونا ہی شائد بقا کا واحد رستہ ہے - اسلحہ کے بیوپاریوں نے وہ شاطرانہ کھیل کھیلا ہے کہ دنیا کی لگی شطرنج کی بازی ہمیں مات دے رہی ہے – دوسروں کے ہاتھوں میں ہم کھیلتے پیادے ایک ظالم شاہ کی حفاظت میں اپنی قربانی آنکھیں بند کئے دینے کو تیار آپس میں دست و گریباں ہیں- صاحب بہادر اسلحہ کی فروخت کے بعد ملنے والے تحائف لئے اپنی کرسئ اقتدار پہ خنداں و شاداں براجمان ہیں - اس اندھیر نگری میں ان کا اگلا شکار بھی کافی پیسے والا ہے اور رب العزت کی دولت سے مالا مال قافلے سے بچھڑا اکیلا ہی نظر آ رہا ہے –
قطر کی زمینوں میں چالیس سال سے زیادہ کا تیل اور سو سال سے زیادہ کی گیس موجود ہے جس کی چمک ہی اس کے پردہء بصارت کو خیرہ کر رہی ہے- رچی اس کہانی کے کرداروں کو اس نے برسوں کی سعیء بسیار کے بعد اس نہج پہ پہنچایا ہے کہ اب حالاتِ زمانہ اسے کامیابی کی نوید سنا رہے ہیں - ایسے میں ہمارے آپس کے نفاق کو دیکھ کر اسلامی دنیا پہ زندگی تنگ کر دینے کی سازشوں میں خوب تیزی آ رہی ہے – ہم جو مل بیٹھ کے اپنے معاملات آپس کی بحث و تمحیص سے نہ حل کر سکے تو ہمارے اتحا د کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ رہی ہے- اتفاق میں برکت کے عنوانات عقل و دانش سے بالاتر ہیں یا شاید اب اسلامی راہنما ؤں کی دور بینی ہی کوتاہ بینی میں بدل رہی ہے-
مشرقِ وسطٰی کی خوشحالی کو تو نظر ہی لگ گئی ہے- یہ داستان اس وقت کی ہے جب یہ ڈرامہ ابھی نیا تھا اور کردار مختلف تھے- لیکن سوچا سمجھا انجام یہی تھا جس کو یہ تمثیل اس وقت پہنچ رہی ہے- عراق کا کویت پہ حملہ ، ہے تو سالوں پہلے کا واقعہ لیکن نقطہء آغاز وہی ہے- پھر اس میں شدت سعودی عرب اور یمن کے درمیان ہونے والی جھڑپوں سے آئی ہے- سعودی عرب اور ایران اس چپقلش میں ایک دوسرے کے سامنے آ چکے ہیں – سعودی عرب نے شاید اسی سلسلے میں فوجی اتحاد تشکیل دیا تھا - پھر اس رام لیلا میں جناب ٹرمپ صاحب کا ظہور ارض ِعربیہ پہ ہوتا ہے - ایک بحران پیدا ہوتا ہے -قطر پہ القاعدہ ، اخوان المسلمین اور داعش جیسی تنظیموں کی حمایت کی فردِ جرم عائد ہوتی ہے اور قطر پہ سفارتی ، ہوائی ، بری و بحری راستے بند کر دیے جاتے ہیں – اسلامی فوجی اتحاد کے چھ ممالک متحدہ عرب امارات ، مصر ، بحرین ، یمن ، لیبیا اور سعودی عرب قطر کو اس اتحاد سے نکال باہر کرتے ہیں- قطر کے اس حصار پر ادویات اور غذائی قلت کا خدشہ پیدا ہوتا ہے – روس ، ایران اور ترکی قظر کی صفوں میں آ کھڑے ہوتے ہیں – اب مسلم دنیا دو بلاکس میں منقسم ہوچکی ہے – سنا ہے ایسے میں روس بھی کچھ مال بنانے کی فکر میں ہے اور قطر کو جدید امریکی میزائیل شکن نظام فروخت کرنے کو ہے- اگرچہ ترک صدر اور امیر کویت دونوں مسلم ممالک میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں لیکن صورتحال مزید پیچیدہ ہوتی جاتی ہے-
آج پاکستان جس دوراہے پہ کھڑا ہے یہ اس کا امتحان ہے- قطر سے تجارتی معاہدے اور سعودی عرب سے دیرینہ دوستی اب داؤ پہ ہے- ایران پاکستان کا ہمسایہ ہے اور ترکی سے بھائی بندی - نہ پائے رفتن اور نہ جائے ماندن جیسی کیفیت ہے- اس گھمبیر صورت حال میں ایک کا ساتھ دوسرے سے ناراضگی مول لینے کے مترادف ہے- ایران اور مشرقِ وسطٰی کے ممالک کے درمیان پاکستان کا کردار نہایت اہم ہے اور تنازعات کی شدت اور نوعیت کم کرنے کی پالیسی ہی ان کو قریب لا سکتی ہے جو پاکستان اور اقوامِ اسلام کے بہترین مفاد میں ہے- پاکستان کی قومی اسمبلی میں اس کشیدگی کے حوالے سے قراداد کا پیش کیا جانا ایک مثبت قدم ہے اور اس راستے کی طرف اشارہ ہے کہ پاکستان سفارتی سطح پہ ان معاملات کو حل کرنے کی بھر پور کوشش کرے گا- اسی اثنا میں ایران کی پارلیمنٹ پہ ہونے والے دہشت گردی کے حملے خطے کی صورتحال کو مزید الجھا رہے ہیں – یہ باہمی اختلافات عالمِ اسلام کے اتحاد کو در پیش وہ چیلنجز ہیں کہ جن کی طرف توجہ اور اور ان کا حل ہی وقت کی ضرورت ہے- اگر ہم نے آنے والے خطرات کو نہ پہچانا اور باہمی اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کی تو کف ِ افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا- پاکستان نے نہایت سمجھ داری اور دانائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قطر سے سفارتی تعلقات ختم نہ کرنے کا جو عندیہ دیا ہے وہ قابل ِ ستائش ہے- پاکستان کا مسلم امہ کے اتحاد پہ زور ہی وہ نقطہ ہے جو مسلمانوں کو حرم کی پاسبانی کے لئے ایک بار پھر یکجا کر ے گا- امریکہ اور یورپ کے اپنے مفادات ہیں لیکن ہمارا فائدہ تو اس رسی کو مضبوطی سے پکڑنے میں ہی ہے جس کا حکم ہمارے پیارے نبی پاک ﷺ نے دیا ہے- پاکستان ، ترکی اور دیگر اسلامی ممالک کو آگے بڑھ کے باہمی مفادات کو انفرادی ترجیحات پہ قربان کرنے کی اس منفی سوچ کو آڑے ہاتھوں لینا چاہئے اور ایک مصالحانہ سوچ کو لے کر ہی آگے بڑھانا چاہیئے کیونکہ اگر آج ٹوٹے تو بکھری ہوئی کرچیاں سب کو پور پور ایسے زخمی کریں گی کہ سب کے کردار پر ہی انگلیاں اٹھیں گی اور تاریخ کسی کو کب معاف کرتی ہے-
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔