ووٹرز کچرے میں سے ہیرے کیسے تلاش کریں؟

ووٹرز کچرے میں سے ہیرے کیسے تلاش کریں؟
ووٹرز کچرے میں سے ہیرے کیسے تلاش کریں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جب امیدواروں کی حتمی فہرستیں لگیں گی تو عقدہ کھلے گا کہ سوائے پرویز مشرف کے سبھی کے کاغذات منظور ہو چکے ہیں، بس یہی وہ بات ہے، جو عوام میں مایوسی پھیلانے کا باعث بن رہی ہے۔

اگر بیان حلفی میں روا رکھے جانے والے فراڈ اور مقدمات میں ملوث ہونے کے باوجود کسی کو انتخابات میں حصہ لینے سے نہیں روکنا تھا تو پھر اتنا کھلواڑ کیا ہی کیوں گیا،پھر تو سادہ کاغذ پر نامزدگی قبول کر کے سب کو میدان میں اتار دیا جانا چاہئے تھا۔

خبریں آ رہی ہیں کہ ریٹرننگ افسروں کو اپنے اختیارات کا ہی پتہ نہیں تھا، یہ بات بھی کھل چکی ہے کہ بیانِ حلفی میں جائیدادوں کی موجودہ حالت کا خانہ ہی کسی امیدوار نے پُر نہیں کیا، حالانکہ اس کے بغیر بیان حلفی مکمل ہی نہیں ہوتا، مگر کسی ریٹرننگ افسر نے اس پر توجہ نہیں دی۔

یہ ایک کھلا مذاق ہے جو نامزدگی فارم کے حوالے سے پوری قوم دیکھ رہی ہے،پرانے چہروں کے پھر سامنے آنے کی وجہ ہی سے شاید یہ مہم بھی زور پکڑ رہی ہے کہ ووٹ کی پرچی میں استرداد کا خانہ رکھنے کی مہم بھی چل رہی ہے، جس پر مہر لگا کر ووٹر اپنی یہ رائے دے سکتا ہے کہ پرچی میں جتنے بھی امیدواروں کے نام لکھے گئے ہیں اُن میں سے کوئی بھی اُس کے ووٹ کا حق دار نہیں اس سلسلے میں سندھ ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں رٹ درخواستیں بھی زیر سماعت ہیں اور درخواست گزاروں کو یقین ہے کہ بیلٹ پیپروں کی اشاعت سے پہلے ان پر فیصلہ آ جائے گا۔

یہ خانہ بھارت اور بنگلہ دیش میں پہلے ہی موجود ہے اور اس کے بہتر نتائج برآمد ہوئے ہیں۔اگر50 فیصد سے زیادہ لوگ امیدواروں کو مسترد کر دیتے ہیں تو اس حلقے میں انتخابات دوبارہ کرائے جاتے ہیں، اس سے اور کچھ نہیں تو یہ فائدہ ضرور ہو گا کہ پاکستان میں ووٹنگ کی شرح بڑھ جائے گی،وہ لوگ جو امیدواروں کی وجہ سے ووٹ ڈالنے نہیں آتے کم از کم انہیں مسترد کرنے تو آئیں گے۔
پاکستان میں یہ روایت رہی ہے کہ ہر انتخاب سے پہلے عوام یہ توقع باندھ لیتے ہیں کہ پہلے لٹیروں کا احتساب کیا جائے گا، پھر انتخابات ہوں۔ پہلے احتساب پھر انتخاب کا نعرہ بہت پرانا ہے، مگر کیا کِیا جائے کہ یہ نعرہ بہت پٹ چکا ہے۔ احتساب کے نام پر انتقام کا سلسلہ کچھ ایسا دراز ہوتا رہا کہ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ پسند و نا پسند کی بنیاد پر جو کھیل کھیلا جاتا ہے،کیا اُس سے کوئی بہتری آ سکتی ہے۔اس بار عوام کو بڑی توقع تھی کہ چوروں، لٹیروں، منشیات فروشوں، غنڈوں اور بھتہ خوروں کے خلاف پہلے ایک بڑا آپریشن ہو گا، اس کے بعد انتخابات کرائے جائیں گے۔احتساب بیورو کی مستعدی، سپریم کورٹ کی عقابی نظر اور کیئر ٹیکر حکومت کی شفافیت سے لوگوں نے یہ توقع باندھ لی تھی کہ اب مافیاؤں سے تعلق رکھنے والے آگے نہیں آ سکیں گے،انہیں احتساب اور قانون کا شکنجہ کس کر پیچھے ہی روک دیا جائے گا،لیکن یہ امید پوری ہوتی نہیں دکھائی دے رہی، جس شہر میں دیکھیں وہی لوگ پھر عوام کا ووٹ لینے کے لئے کھڑے ہیں، جنہوں نے اُن کے لئے کچھ بھی نہیں کیا،اُلٹا اُن کے نام پر ملنے والے فنڈز لوٹے اور پولیس کے جھوٹے مقدمات کے ذریعے اپنے ہی حلقے کے عوام کی زبانیں بند کرائیں،رہی سہی کسر تحریک انصاف نے پوری کر دی۔

وہ سب لوگ جو ہمیشہ سے عوام کی نمائندگی چراتے رہے ہیں، اس میں شامل ہو گئے۔ اب لوگوں کے لئے یہ مشکل پیدا ہو گئی کہ وہ تحریک انصاف کو کیسے چھوڑیں، جس سے تبدیلی کی امیدیں باندھ رکھی ہیں،مگر ساتھ ہی اُنہیں ووٹ کیسے دیں، جنہیں کئی بار دے چکے ہیں۔ عمران خان کی محبت میں کئی تو دِل پر پتھر رکھ کر یہ مان چکے ہیں کہ حکومت میں آنے کے لئے الیکٹیبلز کا ہونا ضروری ہے، لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں،جو اِس تھیوری کو سمجھ نہیں سکے ہیں وہ اِس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک غلط آدمی پی ٹی آئی میں آکر صحیح کیسے ہو جائے گا۔ اُنہیں اپنے لیڈر کا یہ جملہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ الیکشن لڑنا ایک سائنس ہے۔

اگر یہ سائنس ہے تو اِس میں عوام کیا مہروں کا کردار ادا کرتے ہیں۔ 

ایک بات تو مجھے سمجھ آتی ہے کہ حکومت بنائے بغیر عمران خان کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ صرف حکومت میں آ کر ہی کوئی سیاست دان اپنے خوابوں اور منصوبوں کو عملی شکل دے سکتا ہے۔

عمران خان نے 22 سال میں اتنا تو سیکھ لیا ہے کہ الیکشن جیتنا ایک سائنس ہے۔ آپ بہت زیادہ مقبول ہوں یا پھر آپ کے پاس بے پناہ وسائل ہوں،اس کے باوجود انتخابات میں کامیابی کے لئے ان دونوں کا فائدہ صرف اِس صورت میں ہے جب آپ کو الیکشن لڑنے کی رمزیں سمجھ آئی ہوں۔

مجھے یاد ہے جب عمران خان نے تحریک انصاف کو پہلی مرتبہ انتخابات میں اُتارا تھا تو اُنہیں یہ خوش فہمی تھی کہ لوگ ان کے نام پر جوق در جوق ووٹ دینے آئیں گے، مگر الیکشن کی شام بیلٹ بکس سے نکلنے والے ووٹ ان کا منہ چڑا رہے تھے۔ اُنہیں یہ بات سمجھنے میں بہت دیر لگی کہ آخر نامی گرامی بدمعاش اور قبضہ مافیا کے لوگ انتخاب کیسے جیت جاتے ہیں اس کے پیچھے اُن کی الیکشن لڑنے کی وہ صلاحیت ہوتی ہے، جو پولنگ والے دن زیر کو زبر کر دیتی ہے۔

پولنگ ڈے پر لوگوں کو گھروں سے نکال کر پولنگ اسٹیشن تک لانا ایک بہت بڑا ٹاسک ہے۔ اس پر سرمایہ بھی خرچ ہوتا ہے اور برادری ازم نیز دیگر دباؤ بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں سو انہوں نے امیدواروں کے شخصی اوصاف کو ایک طرف رکھ کر اس نکتے پر انہیں ساتھ ملانا شروع کیا کہ وہ مروجہ انتخابی نظام کے تحت الیکشن جیتنے کی مہارت رکھتے ہیں یا نہیں ان کے لئے وہ امیدوار اہم تھے،جو ایک سے زائد بار انتخابات میں حصہ لے چکے ہوں اور اس نظام کے سارے سرد و گرم کو جانتے ہوں اب اس سے تبدیلی کی خواہش رکھنے والوں میں مایوسی تو پھیلی تاہم عمران خان کی شکل میں اب بھی ان کی امید برقرار ہے میرا ذاتی خیال ہے کہ عمران خان کی وجہ سے انتخابات میں عوام کا جوش و ولولہ موجود ہے یہ مَیں اس بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ لوگ اگر تبدیلی چاہتے ہیں تو اُنہیں سوائے عمران خان کے اور کوئی تبدیلی کا علمبردار نظر نہیں آتا۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو ایک سے زائد بار آزما چکے ہیں۔ پیپلزپارٹی کا تو یہ حال ہے کہ وہ پنجاب کے کئی علاقوں سے ناپید ہو چکی ہے اور انتخابات میں اسے امیدوار نہیں ملے۔

پاکستانی عوام بھی عجیب مٹی کے بنے ہوئے ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ کوئی آئے اور مُلک پر مسلط بدعنوانیوں کو جھاڑو پھیر کر صاف کر دے وہ انتخابات سے پہلے احتساب چاہتے ہیں۔

یہ بھول جاتے ہیں کہ اصل احتساب تو ووٹ کی پرچی سے کیا جاتا ہے،جب یہ اشرافیہ ووٹ کی پرچی سے محروم ہو جائے گی تو اِس کے سارے کس بل نکل جائیں گے، پھر یہ ظلم ڈھائے گی اور نہ کرپشن کرے گی۔ جب یہی عوام اس اشرافیہ کو اپنا ووٹ دے کر اسمبلی میں پہنچا دیتے ہیں تو پھر ان کا احتساب کیسے ہو سکتا ہے۔

پھر تو وہ اسمبلی میں قانون کے رکھوالے بن کر بیٹھے ہوتے ہیں البتہ ان کی یہ بات جائز ہے کہ چور لٹیروں کو امیدوار بننے کی اجازت ہی کیوں دی جاتی ہے،کیوں ان کا نام ووٹ کی پرچی پر ہوتا ہے، نام ہو تو عوام پر دباؤ ڈالنے کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔

آخر قانون اپنا کام کیوں نہیں کرتا،کیوں سارا کام ووٹر کے کندھوں پر ڈال کر اصلاح کی توقع کی جاتی ہے۔ آئین بنانے والوں نے62-63 کی جو شقیں شامل کی تھیں اُن کا مقصد یہی تھا کہ عوام کے سامنے صرف انہیں امیدوار بن کر آنے کی اجازت دی جائے جو اپنے اعلیٰ کردار کے حوالے سے اس منصب کے اہل ہوں، لیکن ہم نے اسے پہلی کی بجائے آخر کی سرگرمی بنا دیا۔

پہلے ایسے تمام افراد کو الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی اور بعدازاں عدالتوں میں اس کے صادق و امین ہونے کے کیس چلتے رہے۔اس بار توقع تھی کہ اب ایسی نوبت نہیںآئے گی اور صرف وہی لوگ الیکشن میں حصہ لے سکیں گے جو صادق وامین کی تعریف پر پورا اُترتے ہوں،لیکن بیانِ حلفی نے ساری امیدوں پر پانی پھیر کر رکھ دیا ہے۔ان گوشواروں نے یہ راز فاش کر دیا ہے کہ مُلک میں کوئی بھی صادق وامین نہیں۔وہ بات بھی سچ ثابت ہو رہی ہے کہ اگر صادق و امین کی شرط کو اسمبلی پر نافذ کر دیا جائے تو ساری اسمبلی خالی ہو جائے،کوئی ایک بھی صادق و امین نہ ملے۔
2018ء کے انتخابات میں ایک بار پھر سارا بوجھ ووٹرز کے کاندھوں پر آ پڑا ہے۔ سارے پرانے چہرے میدان میں اُتار کے ہم پھر بھی یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ عوام اچھے نمائندوں کا انتخاب کریں گے۔

نئی قیادت سامنے آئے گی اور عوام کے دیرینہ مسائل حل ہوں گے، مُلک کے حالات بھی بہتر ہو جائیں گے۔پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) تو ایک بار پھر اقتدار ملنے پر عوام کی حالت بدلنے کے دعوے کر رہی ہیں، اُن پر ہنسی آتی ہے۔

تاہم تحریک انصاف کا پہلی بار یہ چانس بن رہا ہے کہ وہ اقتدار میں آ جائے۔لوگ پوچھتے ہیں کہ جو لوگ ٹکٹ نہ ملنے پر کپتان کی ناک میں دم کئے ہوئے ہیں وہ منتخب ہونے کے بعد کیا کپتان کو بلیک میل نہیں کریں گے، کیا کپتان اُن کی فطرت کو بدل سکیں گے، کیا وہ نامی گرامی سیاست دانوں جو دوسری جماعتیں چھوڑ کر تحریک انصاف میں آئے ہیں اور ٹکٹیں بھی حاصل کر چکے ہیں، کیا عمران خان کے ڈر سے سیدھے ہو جائیں گے؟ان سوالوں کا فی الوقت تو جواب دینا مشکل ہے،لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اگر یہ لوگ نہ بدلے اور انہوں نے عمران خان کو اپنے رنگ میں رنگ لیا تو یہ عمران خان کی سیاست کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دینے کے مترادف ہو گا۔

مزید :

رائے -کالم -