میں نے لاہو رکے ایک بڑے دینی مدرسہ جامعہ اشرفیہ میں حضرت مولانا عبید اللہ مدظلہ سے دین کی تعلیم حاصل کی تھی ۔دوران تعلیم میں نے کئی لوگوں سے یہ سن رکھا تھا کہ جنات بھی ہمارے استاد محترم کے شاگرد ہیں۔میں اس بات کا یقین تو رکھتا تھا کہ جنات کا ذکر قرآن میں موجود ہے اور یہ مخلوق بھی انسانوں کی طرح کھاتی پیتی اور عبادت کرتی اور انکی بھی معاشرتی اور عائلی زندگی ہے۔میری بھی جنات کو دیکھنیکی تمنا تھی ۔کئی دوستوں سے اسکا ذکر بھی کیا ۔لیکن ہر کوئی اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کا کرنے کا مشورہ دیتا تھا ۔
ایک روز ایک ہمارے ایک استاد جو ہم پر بہت شفقت فرماتے تھے ،انہوں نے میرا ذوق دیکھ کر مجھے کہا’’ میاں اشرف بات ایسی ہے کہ جب سے استاد محترم نے حکم فرمایا ہے ،اب جنات طالب علم ظاہر ہوکر کلاس میں نہیں بیٹھتے اور اگر کوئی انسانوں کی طرح ہم میں موجود ہوتا ہے تو اسے اپنی جناتی جبلت کو ہر صورت میں قابو رکھنے کی ہدایت کی جاتی ہے‘‘
انہوں نے وہ بات بھی بتا دی جس کے بعد جنات کو ظاہری طور پر طالب علموں کے ساتھ بیٹھ کر پڑھنے منع کردیا گیا تھا ۔انہوں نے بتایا کہ ایک روز ہم اپنے استاد محترم کے پاس موجود تھے ۔اس وقت دس بارہ طالب علم موجود تھے ۔دراصل اس روز انکی طبیعت خراب تھی۔وہ آرام فرمارہے تھے ۔موسم گرمی کا تھا لیکن اس روز بارش کی وجہ سے گرمی کا زور کم ہوگیا تھا ۔اچانک استاد محترم قبلہ حضرت مفتی عبیداللہ مد ظلہ نے ایک طالب علم سے کہا کہ وہ پنکھا بند کردے ۔
طالب علم نے آپ کا حکم سنتے ہی کہا ’’جی حضور ‘‘ اور پھر اس نے بیٹھے بیٹھے ہی اپنا ہاتھ سوئچ بورڈ کی جانب بڑھایا جو اس سے دس فٹ دور دیوار پرچار فٹ اونچا تھا ۔
طالب علم کی یہ حرکت دیکھ کر سبھی ساتھی دم بخود رہ گئے اور خوف سے انکے دیدے پھٹ گئے کیونکہ نہ جانے وہ طالب علم اس دن کس خیال میں تھا کہ اس کا بازو سوئچ بورڈ تک لمبا ہوگیااور اس نے سوئچ نیچے کر کے پنکھا بند کردیا۔اسکی یہ حرکت دیکھتے ہی استاد محترم نے اسکی سخت سرزنش کی اور اسے خبردار کردیا کہ آئیندہ وہ ایسی حرکت نہ کرے ورنہ اسے اور اسکے دوسرے ساتھیوں کو بھی مدرسہ سے نکال دیا جائے گا ۔
اس روز ہم پر انکشاف ہوا کہ وہ طالب علم جنات میں سے تھا اور اس جیسے کئی جنات ہمارے ساتھ مدرسے میں قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کیا کرتے تھے ۔لیکن پھر ہم نے کبھی کسی جن زادے کو ظاہری طور پر نہیں دیکھا البتہ جب وہ استاد محترم سے بات چیت کررہے ہوں تو ہمیں ان کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔