شکرگڑھ پولیس کی ملزمان سے ملکرریٹائرڈ فوجی کے ساتھ ناانصافی کی انتہا، وزیر اعلیٰ پنجاب سے نوٹس لینے کا مطالبہ
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن)ڈی ایس پی شکرگڑھ نے تفتیشی افسر سے رشوت کے 5ہزار واپس کرا دیے جبکہ بدنام تھانیدار نے ری ایکشن میں ملزموں کو کلین چٹ دینے کی ٹھان لی،ایس ایچ او نے نہلے پہ دہلا مارا اور پہلے کیس کی تفتیش بیچنے والے بدنام تھانیدار کو ہی مدعی کے دوسرے کیس کا انکوائری افسر لگادیا۔
تفصیلات کے مطابق بصرہ جالا کے رہائشی ریٹائرڈ فوجی اہلکار عارف حسین نے بتایا کہ 22مئی 2019کو میرے بیٹے سفیان پر گاﺅں کے تین اوباشوں امانت علی ، عبدالرحمن اورکامران نے مسلح ہو کر دھاوابولا اور گردن اور بازوپر خنجر کے وارکر کے شدید زخمی کردیاجس کی اطلاع فوری پولیس کو دی گئی توتھانہ صدر شکر گڑھ کے تفتیشی افسر اے ایس آئی سرفراز نواز اور ایس ایچ او نبی احمد نے تین روز کی ٹال مٹول کے بعد 25 مئی کو337ایف ٹو کے تحت مقدمہ درج کیا، حالانکہ اس پر دفعہ 324لگنی چاہئے تھی اور ایسا نہ ہونے کی وجہ سے ملزموں کے حوصلے مزید بڑھ گئے اور انہوں نے ہمیں مختلف طریقوں سے صلح کیلئے ڈرانا دھمکانا شروع کر دیاجس کی اطلاع میں نے اے ایس آئی سرفراز نواز اور ایس ایچ او نبی احمد کوبھی دی، یکم جون 2019کو میں اپنے گھر کے اندر بیٹھا تھاکہ ملزموں محمد رفیق ، صفدر، باسط ، راشد، محمد راشد، امانت علی ، عبدالرحمن نے دونامعلوم افراد کیساتھ میرے گھر پر دھاوابولااور میری بوڑھی ماں اور بیوی کے کپڑے پھاڑ دیئے، مجھے بدترین تشدد کانشانہ بناتے ہوئے گلی میں گھسیٹ لائے جس سے میرے جسم پرمختلف چوٹیں آئیں اور میرے بائیں ہاتھ کی انگلی بھی ٹو ٹ گئی۔
عارف حسین نے بتایاہم نے فوری 15پر کال کی تو ایک گھنٹے بعدپولیس پہنچی اورہمیں تھانے آنے کا کہا۔ تھانے رپورٹ کرنے کے بعد ہمیں میڈیکل کیلئے ٹی ایچ کیو ہسپتال بھیجا گیاجبکہ ملزموں نے پولیس کی پشت پناہی سے جعلی میڈیکل لینے کی کوشش بھی کی، پولیس نے ملزموں کی ملی بھگت سے ہمیں ٹرخانا شروع کردیااوراگلے روز سپاہی راشد کے ذریعے ٹیلی فون کروا کر مجھے، میری بوڑھی ماں، بیوی اور بھابھی کو تھانے بلوایا گیااور دوگھنٹے بٹھانے کے بعد اے ایس آئی سرفراز نواز نے کہا کہ ہم نے تو آپ کو بلایا ہی نہیں، ہم نے ڈی ایس پی خلیل ملک سے رجوع کیاتو انہوں نے 452کی انکوائری اپنے پاس رکھ لی جبکہ مجھے تفتیشی افسر اے ایس آئی سرفرازنواز سے میرے5ہزار روپے واپس کرادیئے جو اس نے مجھ سے دوران تفتیش لئے تھے،ڈی ایس پی کے حکم پر آخر کار12 روز بعد 13جون کو ملزموں سے ایک بار پھر نرمی برتتے ہوئے452کے بجائے337ایف فائیو کے تحت مقدمہ درج کیا گیااورملزموں کوپکڑنے کے بجائے انہیں ضمانت کروانے کا موقع فراہم کیا گیا جبکہ ملزم راشد بیرون ملک فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔حیران کن بات ہے مذکورہ کیس کی تفتیش بھی تھانہ صدرکے تفتیشی اے ایس آئی سرفرازنواز ہی کر رہے ہیں ۔افسوسناک امر ہے کہ 22جون سے اب ایک ماہ میں دو واقعات کی ایف آئی آرز کے باوجود پولیس نے کوئی چھاپہ مارانہ کوئی گرفتاری کی بلکہ ملزم بے خوف وخطر تھانے میں بھی آتے جاتے ہیں۔ تفتیشی سرفراز نے مسقط کے پیسے کی چمک کے باعث کئی بار مجھے طنزیہ کہا کہ ایف آر آرز کا کیا فائدہ ہونا تو کچھ بھی نہیں اور اس نے اپنے تفتیشی عمل یہ بات ثابت بھی کی اور 337ایف ٹو کی تفتیشی رپورٹ میں لکھا کہ ملزم خالی ہاتھ تھے اور انہوں نے میرے بچے چھریاں نہیں صرف اور مکے اور لاتیں ماری ہیں جبکہ کوئی ملزم گرفتار ہوا نہ کوئی تفتیش ہوئی بلکہ صرف ملزموں کی زبان میں رپورٹ تیار کی گئی قبل ازیں تفتیشی دونوں کیسز کی انکوائری میں مجھے کراس ورشن کی کہانی سنا کر ملزموں سے صلح کی راہ ہموار کرنے کی کوشش میں رہا۔مدعی عارف نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ تھانہ صدر پولیس کی ساز بازکے باعث ملزموں کے حوصلے کافی بڑھ گئے ہیں اوروہ کسی بھی وقت دوبارہ ہم پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔عارف حسین نے وزیر اعلی ،آئی جی پنجاب اور آر پی او گوجرانوالہ سے اپیل کی ہے کہ 337ایف ٹو کی دوبارہ انکوائری جبکہ 337ایف فائیو کی تفتیش لاہور یا گوجرانوالہ میں کرائی جائے کیونکہ شکرگڑھ پولیس مکمل طور پر ملزموں سے مل چکی ہے،مجھے اور اہلخانہ کو ملزموں سے جان ومال کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ملزموں کے سہولت کار ایس ایچ او تھانہ شکرگڑھ نبی احمد،تفتیشی سرفراز ،اہلکار راشد کیخلاف تادیبی کارروائی جبکہ قانون کے مطابق دفعات شامل کر کے ملزموں کو کٹہرے میں لا کر انصاف فراہم کیا جائے۔