سندھ اسمبلی میں چوتھے روز 2020.21کے صوبائی بجٹ پر عام بحث کا سلسلہ جاری

    سندھ اسمبلی میں چوتھے روز 2020.21کے صوبائی بجٹ پر عام بحث کا سلسلہ جاری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کراچی (اسٹاف رپورٹر) سندھ اسمبلی میں بدھ کو چوتھے روز بھی آئندہ مالی سال 2020-21کے صوبائی بجٹ پر عام بحث کا سلسلہ جاری رہا جس میں حکومت اور اپوزیشن کے مختلف ارکان نے اظہار خیال کیا، سندھ کی وزیر صحت نے خبردار کیا کہ کرونا کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔اگست سے اکتوبر کے دوران ایک نئی لہر آنے کا امکان ہے۔ان کا کہناتھاکہ مجھے کسی کے داد وتحسین کی ضرورت نہیں ہے،میں کورونا وائرس پر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہوں جبکہ اپوزیشن کی جانب سے کرونا کی وبا کے دوران وزیر صحت کی کارکردگی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ گھر سے باہر نکلیں اور اسپتالوں کا دورہ کریں۔سندھ حکومت اب تک کرونا کی ایک ہیلپ لائن تک نہیں بناسکی ہے۔پیپلز پارٹی کے ارکان کا دعوی تھا کہ سندھ حکومت نے مشکل صورتحال میں ایک اچھا بجٹ دیا ہے جبکہ وفاق اسے اس کا پورا مالی حصہ بھی نہیں دے رہا اور جب اپنا حصہ مانگا جائے تو سندھ میں گورنر راج کی دہمکی دی جاتی ہے۔ شہر سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک رکن نے کہا کہ کراچی 210 ارب روپے کما کردیتا ہے مگر بجٹ میں اس کے لیے کوئی نئی اسکیم نہیں ہے۔وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ مجھے کسی کے داد وتحسین کی ضرورت نہیں ہے۔میں مسلسل کورونا وائرس پر کام کررہی ہوں۔میں کام پر یقین رکھتی ہوں اور اپنے لوگوں کے لئے کام کرتی رہوں گی۔انہوں نے کہا کہ یہ سب کے لئے مشکل وقت ہے۔لوگ چاہتے ہوئے بھی ایس اوپیز پر عمل نہیں کرپارہے۔لاک ڈاون ختم کرنے کیاثرات ہوئے وہ ایک ماہ میں نظر آگئے۔انہوں نے کہا کہ لاک ڈاون ختم ہونے کے بعد کورونا کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوا جس صورتحال کا اچانک ہمیں سامنا کرنا پڑا اس سے نمٹنے کے لئے ہم تیار نہیں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ میں کورونا انفیکشن کی شرح 19فیصد سے زائد ہے۔احساس پروگرام کی وجہ سے 178لوگ کورونا کا شکار ہوئے۔وزیر صحت نے کہا کہ عالمی ماہرین کے مطابق کورونا فی الحال جانے والا نہیں ہے،اگست سے اکتوبر میں پاکستان میں کورونا کی دوسرے اور تیسرے درجے کی لہر آئیگی۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران تین ارب روپے سے زائدرقم مختلف خریداریوں پر خرچ کی گئی۔سول اسپتال کراچی،لیاری اسپتال میں آئی سی یو،ایچ ڈی یو کے قیام پر 210ملین روپے خرچ کئے۔انہوں نے کہا کہ نیپا چورنگی اسپتال دسمبر میں مکمل فعال ہوجائیگا۔نیپاچورنگی انفیکشن ڈیزیزاسپتال کا پہلا فیز آئندہ ماہ مکمل ہوگا۔انہوں نے کہا کہ سندھ کے محکمہ صحت نے 81آئسولیشن سینٹرز میں سہولیات فراہم کیں۔ڈاکٹر عذرا نے کہا کہ المیہ ہے کہ سندھ میں خواتین نرسنگ کے مشن سے منسلک نہیں ہوتیں،ہم بی ایس سی ایم ایس سی نرسنگ شروع کررہے ہیں ہم نے تین لاکھ این 95ماسک،ایک لاکھ فیس شیلڈ خریدی ہیں ہر اسپتال بنیادی مرکز صحت کو حفاظتی کٹس دی جارہی ہیں۔صوبائی وزیر صنعت و تجارت جام اکرام اللہ دھاریجو نے اپنے خطاب میں سندھ کے ساتھ وفاق نے بہت زیادتی کی ہے۔کورونا کی وباکا مقابلہ کرنے کے لیے لاک ڈاو ن کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں وزیراعلی سندھ نے کورونا وبا کے پھیلاو کو روکنے کے حوالے سے اہم اقدامات ا ٹھائے،مگر وفاق نے انہیں نظر انداز کردیا۔ جام اکرام نے کہا کہ یہ کہتے تھے کہ ہمیں پاکستان کو ٹھیک کرنے کے لیے دو سو لوگ چاہئیں۔ملک میں اتنا قرضہ لیا گیا ہے جتنا دس سال میں نہیں لیا گیا۔ملک میں بے روزگاری بڑھ گئی ہے۔کورونا وباکو وفاق نے سیاسی مسئلہ بنایا ہوا ہے۔سندھ کے ساتھ این ایف سی ایوارڈ سے حصہ نہیں دیا جاتا ہے۔سندھ کے ساتھ زیادتی بند کی جائے۔انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ ہو یا کوئی اور مسئلہ وفاق کی جانب سے سندھ حکومت کے ساتھ ناانصافی کا سلسلہ جاری ہے۔ صوبائی وزیر لائیو اسٹاک عبدالباری پتافی نے کہا کہ کتے پورے ملک میں کاٹتے ہیں،ہم سے غلطی ہوئی کہ ایک ویکسین کچھ لوگوں کے لئے بنانی چاہیے تھی۔انہوں نے کہا کہ اسٹیل مل کی 18ہزار ایکڑ زمین سندھ کی ملکیت ہے جس پر کچھ لوگوں کی نظر ہے۔ صوبائی وزیر پبلک ہیلتھ انجینئرنگ شبیر بجارانی نے کہا کہ سندھ حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھانے والے یہ بتائیں کہ پی آئی اے کے ناکارہ جہاز کو کس نے فلائٹ کی اجازت دی،پی آئی اے طیارہ حادثے کے ذمہ داروں کو کیوں نہیں ہٹایاگیا۔لوگ اب قومی ایئر لائن میں سفر کرنے سے ڈرتے ہیں۔ایم کیو ایم کے رکن محمد حسین نے کہا کہ یہ بجٹ بیوروکریٹس نے بنایا ہے یہ ایوان کا بجٹ نہیں ہے کیونکہ اراکین اسمبلی کو معلوم نہیں کہ پچھلا بجٹ کتنا استعمال ہوا کتنی کرپشن کی گئی۔انہوں نے کہا کہ سندھ کوئی غریب صوبہ نہیں بلکہ اس کی آمدنی بہت اچھی ہے،بہت سے لوگوں کے پیٹ میں کراچی کا نام سن کر دور ہوجاتا ہے۔آپ کی ہی دستاویز میں موجود ہے کہ کراچی سب سے زیادہ ریونیو دیتا ہے۔پچھلے بارہ سال میں کراچی پر ڈیڑھ سو ارب بھی استعمال نہیں ہوا۔انہوں نے تجویز پیش کی کہ بجٹ میں ترقیاتی بجٹ میں اضافہ اور غیر ترقیاتی بجٹ میں کمی کی جائے۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی ایوان میں آکر حلفیہ بتائیں کہ عوام سے جھوٹ بولنا کب بند کرینگے۔محمد حسین نے کہا کہ کراچی 210 ارب روپے کما کردیتا ہے مگر بجٹ میں اس کے لیے کوئی نئی اسکیم نہیں۔کورنگی ملیر سائٹ ائریا میں اسپتال تعمیر ہونے تھے روک دیا گیا،کراچی میں ایجوکیشن کے لیے بھی بہت کم پیسہ رکھا گیا۔انہوں نے کہا کہ کراچی میں پانچ اسٹیڈیم بن رہے تھے ان کو بجٹ کی اسکیموں سے نکال دیا گیا۔وزیروں کے لیے اربوں روپے خرچ مگر کراچی کے پانی کے مسئلے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔آئندہ مالی سال کے صوبائی بجٹ پر عام بحث میں حصہ لیتے ہوئے پی ٹی آئی کی خاتون رکن ڈاکٹر سیما ضیا نے کہا کہ محکمہ سماجی بہبود کو کروڑوں روپے کا بجٹ دیاجاتاہے۔لیڈی ایم ایل او کیاشہزادیاں ہیں؟18ویں ترمیم کی دھجیاں سندھ حکومت نے اڑائی ہیں۔سماجی بہبود اور ترقی نسواں کے وزرا کیا کام کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے ہرچیز کا جنازہ نکال دیاہے۔سیما ضیا نے کہا کہ وزیر صحت ایک دن اپنے دفتر سے نہیں نکلیں،انکے وزرا تو کام کرتے نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ وزیر صحت گھر سے باہر نکلیں اسپتالوں کا دورہ کریں۔سازش کے تحت کراچی کو خوار کررہے ہیں اورکراچی کا خون چوس رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کراچی 90فیصد ٹیکس دیتاہے۔دیہی سندھ کا بھی براحال کردیاہے،چنگچی گدھاگاڑیوں میں میت جاتی ہے۔وزیر صحت نے سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن میں من پسندی تقرری کردی اور یہ لوگ کوروناوائرس کی ایک ہیلپ لائن نہیں بناسکے۔پیپلز پارٹی کے جام خان شورونے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمارے حکمراں کبھی کہہ رہے تھے فلو ہے،کبھی کہہ رہے تھے گرمی اسکو ختم کر دے گی لیکن ہمارے وزیر اعلی نے کہا کہ یہ وباہے۔انہوں نے کہا کہ اسپتال بیوقوفوں کی وجہ سے فل ہیں۔اپوزیشن کہہ رہی تھی کے یہ اتنا۔بڑا ہاس کیوں بنایا ہے؟ آج یہاں ہم کم از کم اجلاس تو کر پا رہے ہیں۔جام خان شورو نے کہاکہ گزشتہ سال 8 سو ارب کا کہا گیا اس میں بھی دو سو ارب کاٹ دئیے گئے۔سندھ کی ترقی اسکی وجہ سے متاثر ہوتی ہے۔سندھ نے کبھی بھیک نہیں مانگی یہ ہمارا حق ہے اور لیکر دیکھائیں گے انہوں نے کہا کہ سندھ نے آج تک کسی کو باپ تسلیم نہیں کیا۔ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی باسط احمد خان نے کہا کہ کورونا کی وبامیں سخت سے سخت دل نرم ہوگئے۔ایم کیوایم نے اپنی تنخواہ سب سے پہلے فنڈ میں دی۔لیکن حکومت کا دل نرم نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ سے پوچھتا ہوں کراچی کے کسی شہری کو سکھر کا ڈی سی لگائیں گے۔اگر ایسا نہیں کرسکتے تو کراچی پر جو غیر مقامی لوگوں کو مسلط کیا ہے ان کو بھی ہٹایا جائے۔پیپلز پارٹی کے رکن فقیر شیر محمد نے کہا کہ جو کنٹینر پر بھاشن دیا کرتا تھا اس کے پاس آج اسمبلی میں اتنے قابل لوگ نہیں ہیں کہ ان کو وزیر بنا سکے۔نان الیکٹڈ لوگوں کو کابینہ میں شامل کیا ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت سے درخواست ہے کہ ہر یونین کونسل میں مڈل اور ہائی اسکول کھولے جائیں۔پانی کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں کو حل کیا جائے۔ جی ڈی اے کے رکن نند کمار گوکلانی نے کہا کہ زراعت ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ٹڈی دل کے حوالے سے کوئی اسپرے نہیں ہوا ہے۔زراعت تباہی ہوگی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے اومنی گروپ والوں کو سبسڈی دی تھی،زراعت والوں کو بھی سبسڈی دی جائے۔ بند اسکولوں کو کھولنے کے لیے کئی بار بجٹ رکھا گیا لیکن اسکول آج بھی بند ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ سندھ کے گریجویٹ نوجوان کو وظیفہ دیا جائے۔مینارٹی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔روازنہ بچوں کا زبردستی مذہب تبدیل کرایا جارہا ہے۔مینارٹی کے بل کو لایا جائے۔ ایم کیو ایم کے رکن محمد ہاشم رضا نے کہا کہ شہر میں وینٹی لیٹر کی کمی ہے۔کورنگی صنعتی زون کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔آٹھ ہزار روڈ آٹھ سال سے ابھی تک مکمل نہیں ہوئے اورشہر کراچی ک اور صوبے کے شہری علاقوں کو کوئی ٹیکنکل کالج نہیں دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے رکن ممتاز جاکھرانی نے کہا کہ اگر نوازشریف بیمار نہیں تھے تو انہیں کس نے اور کیوں جانے دیا؟جہانگیر ترین لندن کے محل میں رہ رہاہے۔آصف زرداری بیمار ہیں مگر ان کو آئے روز نوٹس بھیجے جاتے ہیں۔پیپلزپارٹی نے ہمیشہ عدالتوں کا احترام کیاہے۔انہوں نے کہا کہ سندھ کسی باپ کی جاگیر ہیجو آرٹیکل 149لگایاجائے نہ سندھ کوئی یتیم خانہ ہے؟انہوں نے کہا کہ بجٹ میں اپنا حصہ مانگیں تو گورنر راج کی دھمکی ملتی ہے۔سندھ کے وسائل کو ہڑپ کیاجاتاہے۔ ایم ایم اے کے رکن اسمبلی سید عبدالرشید نے کہا کہ لیاری میں عمارت گر گئی درجنوں خاندان بے گھر ہوگئے،اسسٹنٹ کمشنر نے عمارت کے ملبے کا سریہ فروخت کردیا۔انہوں نے کہا کہ ڈیڑھ کمرے کے مکان میں رہنے والے غریب کا بھی توسوچیں،دال دوسو روپے کلو آٹا ستر روپے کلو ہوگئی۔وفاقی کابینہ اجلاس میں وزارت عظمی کا جھگڑا شروع ہوگیا،ایک کروڑ نوکریاں روزگار اورمکان کہاں ہیں۔انہوں نے سوال کیا کہ صوبائی حکومت نے کراچی کو کیادیاہے۔کے فور منصوبہ ہوا میں ہے۔نکاسی کا نظام نہیں کچرہ نہیں اٹھ رہا۔اسمارٹ لاک ڈاون کا مطلب یہ ہے کہ کچرہ نہیں اٹھایاجائیگا؟تھانیدار چھوٹی دکانوں سے بھتہ لیتاہے۔ اپنی تقریر کے دوران سید عبدالرشید نے تجویز کردہ ترقیاتی اسکیمز پر عمل نہ ہونے کیخلاف احتجاجا ایوان میں کاغذ پھاڑ دئیے اور کہا کہ میں ان اسکیمز پر لعنت بھیجتا ہوں۔انہوں نے جذباتی ہوکر کہا کہ میں نے اسکیمز کے لئے کسی وزیر کے دروازے پر جاکردستک نہیں دوں گا۔ان کا کہنا تھا کہ لیاری میں بینظیر میڈیکل کالج 90کروڑ روپے خرچ کرکے مکمل نہیں،لیاری بختاور پارک کی اسکیم پر 19کروڑ روپے خرچ ہوگئے۔لیاری بختاور پارک میں دروازہ تک نہیں ہے۔پی ٹی آئی کے رابستان خان نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ مرادعلی شاہ کرپشن کے ماہرہوں،کیا پیپلزپارٹی کے پاس وزیر خزانہ کے لئے کوئی اہل آدمی نہیں۔مرادعلی شاہ نے تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا۔محکمہ تعلیم پر مافیا کا قبضہ ہے۔سردار شاہ تعلیم کے نظام کو بہتر کرناچاہتے تھے تو ان سے وزارت چھین لی گئی۔

مزید :

صفحہ آخر -