بیورو کریٹ کی بطور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کیخلاف دائر رٹ پر نوٹس جاری

بیورو کریٹ کی بطور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کیخلاف دائر رٹ پر نوٹس جاری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پشاور(نیوزرپورٹر)پشاور ہائیکورٹ نے آئین میں بائیسویں ترمیم جس میں اعلی عدلیہ کے یٹائرڈ جج کے ساتھ ساتھ سینئر بیورو کریٹ کی بطور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے خلاف دائر رٹ پر چیف الیکشن کمشنر اور اٹارنی جنرل اف پاکستان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا کیس کی سماعت چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس عتیق شاہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی درخواست گزار علی عظیم افریدی ایڈوکیٹ عدالت میں پیش ہوئے انہوں نے رٹ میں موقت اختیار کیا ہے کہ 2016میں بائیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے چیف الیکشن کمشنرکے عہدے کیلئے اعلی عدلیہ کے جج کے ساتھ ساتھ سینئربیوروکریٹ کوبھی اہل قراردیاگیاہے رٹ میں کہاگیاہے کہ یہ شق آئین سے متصادم ہے کیونکہ آئینی طورپرجج اوربیوروکریٹس کی تقرری دوعلیحدہ علیحدہ طریقوں سے ہوتی ہے اعلی عدلیہ کاجج ایک آئینی طریقہ کارکے تحت جج بنتاہے جبکہ ایک بیوروکریٹ کی تقرری کاعلیحدہ طریقہ کارہے جبکہ آئین کی رو سے ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ کے ججوں کے عہدے کسی کے ماتحت نہیں ہوتے اور 2016 میں کی جانے والی آئینی ترامیم جس میں بیوروکریٹ کوبھی چیف الیکشن کمشنر مقرر کیاجاسکتاہے اس سے ایک یہ تاثرپیداہوتاہے کہ اعلی عدلیہ کے جج ایک بیوروکریٹ کے ماتحت ہوں گے کیونکہ ہائی کورٹ کے جج الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ممبران ہوتے ہیں رٹ میں یہ بھی موقف اختیارکیاگیاہے کہ اس اقدام سے عدلیہ کی آزادی کے متاثرہونے کاخدشہ ہے اور ججز کے عہدوں کوجوآئینی تحفظ حاصل ہے اس کی وہ افادیت پھرنہیں رہتی جوعام حالات میں ہوتے ہیں علاوہ ازیں حکومت نے جوترامیم کی ہیں اس میں بہت سے آئینی نقاط کو نظرانداز کیاگیاہے رٹ میں استدعاکی گئی ہے کہ2016میں 22 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے جوترامیم کی گئی ہیں انہیں ماورائے آئین قراردے کرکالعدم قرار دیاجائے فاضل بینچ نے ابتدائی دلائل کے بعد چیف الیکشن کمنشر، اٹارنی جنرل اف پاکستان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 21 جولائی تک جواب طلب کرلیا