”جس طرح کا قتل چاہو پسند کر لو“ سقراط نے زہر پینا پسند کیا, قتل کا معاملہ مہینوں موخر رہا
مصنف : ملک اشفاق
قسط :36
اہل زمانہ نے جب سے بت پرستی کے بارے میں پوچھا تو اس نے انہیں روکا اسے باطل کہا اور حکم دیا کہ الٰہ واحد کی، جو باری، خالق، صمد، حکیم اور قدیر ہے عبادت کرو ،نہ کہ تراشے ہوئے پتھروں کی، جو نہ بولتے ہیں، نہ سنتے ہیں نہ کسی شے کا احساس کرتے ہیں۔ لوگوں کو نیکی اور بھلائی کے کاموں پرابھارا۔ معروف کا حکم دیا فواحش اور منکر سے روکا۔ اس حد تک اسے اعتماد تھا کہ اہل زمانہ سنیں گے راست تدبیر اور صحیح سیاست اختیا رکرنے اور اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی تلقین کی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ عوام قبول نہ کریں گے۔
وقت کے کاہنوں ،سرداروں اور شرفاءکو جب سقراط کی دعوتِ توحید کا علم ہوا اور دیکھاکہ وہ بتوں کی نفی کرتاہے اور لوگوں کو ان کی پرستش سے روکتا ہے تو انہوں نے اس کے خلاف قتل کا فیصلہ کرنے کی گواہی تھی، اس پر قتل واجب کرنے والے آئینس کے 11 جج تھے زہر پلانے کا نام قونیون تھا کیونکہ جج نے جب سقراط کو قتل کرنے کا فیصلہ کر دیا تو بادشاہ کو بے حد تکلیف ہوئی بایں ہمہ ججوں کی مخالفت کا یارا بھی نہ تھا چنانچہ سقراط سے اس نے کہا ”جس طرح کا قتل چاہو پسند کر لو“ سقراط نے زہر پینا پسند کیا قتل کا معاملہ مہینوں مو¿خر رہا۔ وجہ یہ تھی کہ جو کشتی ہر سال ہیکل افوطون سامان لاد کر بھیجی جاتی تھی وہ ہواﺅں کی بندش سے موقوف ہو گئی تھی۔ یونانیوں کا معمول تھا کوئی خون وغیرہ اس وقت تک نہ بہاتے جب تک ہیکل سے واپس آئینس نہ آ جاتی تھی۔ سقراط کے ساتھی اس پورے عرصے میں اس کے یہاں قید خانے میں آتے رہے ۔ ایک دن وہ اندر آئے تو اقریطون نے کہا ”کشتی کل یا پرسوں آ جائے گی۔ ہم نے یہ کوشش کر لی ہے کہ آپ کی جانب سے ان لوگوں کو کوئی روپیہ پیسہ دے دیں اور آپ چھپ کر رومیہ چلے جائیں یہاں آپ کو کوئی گزند نہ پہنچے گا۔ سقراط نے کہا۔ ”تمہیں معلوم ہے 400درہم میرے پاس نہیں ہیں۔“ اقریطون نے کہا ”میں نے یہ کہا ہے کہ آپ پر قرض کا بوجھ پڑے گا۔ہمیں یہ معلوم نہ تھا کہ لوگوں کا مطالبہ آپ کی طاقت سے باہر ہے، یہ ہماری دولتیں حاضر ہیں، مطالبہ کا کئی گنا ہم دے سکتے ہیں۔آپ کی نجات کے لیے یہ ادائیگی، ہم برضاو رغبت قبول کر لیں گے مگر آپ کو کھو کر مصیبت میں مبتلا ہونا پسند نہ کریں گے۔“
سقراط نے کہا ”اقریطون! جس ملک نے میرے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے وہ میرا ملک ہے ،میری قوم کا ملک ہے۔ اس ملک میں قید وبند کی مصیبت کے دور میں میرے قتل کا جو فیصلہ صادر ہوا ہے وہ تمہیں معلوم ہے قتل کا میں مستحق نہیں ہوں یہ سزا مجھے اس لیے دی جا رہی ہے کہ میں ظلم کا مخالف ہوں اور ظالمانہ اعمال اور ملک کے باشندوں پراس لیے طعن و تشنیع کرتا ہوں کہ وہ باری تعالیٰ کا کفر کرتے ہیں اور اسے چھوڑ کر بتوں کی پرستش کرتے ہیں۔ جس بات کی وجہ انہوں نے میرے خلاف قتل کا فیصلہ کیا ہے وہی بات ہر جگہ رہے گی جس حال میں ہوں اس حال میں وہاں بھی مامون نہ رہوں گا“ اقریطون نے کہا ”آپ اپنے اہل و عیال اور ان کے ضیاع کا تو کچھ خیال کیجیے“ سقراط نے کہا ”رومیہ میں ان کے ساتھ جو کچھ پیش آ سکتا ہے وہی یہاں بھی پیش آئے گا البتہ یہاں تم رہو گے لہٰذا تمہارے ساتھ رہ کر ان کا برباد نہ ہونا زیادہ ممکن ہے۔“
تیسرے دن حسب معمول تلامذہ اس کے یہاں پہنچے، قیدخانہ کے داروغہ نے آ کر دروازہ کھولا وہ 11جج بھی اندر داخل ہوئے اور تھوڑی دیر کھڑے رہے اور پھر سقراط کی بیڑیاں نکال کر واپس چلے گئے۔ داروغہ نے تلامذہ کو اندر داخل کیا۔ یہ سب سلام کر کے بیٹھ گئے۔سقراط تخت سے اتر کر زمین پر بیٹھا اور پنڈلیاں کھول کر رگڑتے ہوئے کہا ”الٰہی سیاست بھی کیسی حیرت انگیز ہے۔اضداد کو باہم ایک دوسرے سے اس نے مربوط کر دیا ہے چنانچہ جو لذت بھی ہے اس کے پیچھے الم اور جو الم بھی ہے اس کے بعد لذت آتی ہے۔ یہ گفتگو باہمی تبادلہ خیالات کا موضوع بن گئی چنانچہ سیمیاس اور فیذون نے کچھ نفسی افعال کے متعلق سوال کیاباہم اس کثرت سے مذاکرہ ہوا کہ نفس کے بارے میں نہایت ٹھوس اور مکمل گفتگو ہو گئی۔ سقراط پر حسب سابق خوشی اور مسرت کے آثار تھے۔ بعض مقامات پر اس نے مزاح بھی کیا۔ اس کی بے ساختگی اور شدت حقارت سے موت کو دیکھنے پر لوگوں کو حیرت ہوتی رہی۔ حق کیا ہے اسے اس کی جگہ رکھ کر ڈھونڈ نکالنے کے لیے دور تک جانے سے گریز نہیں کیا۔ زمانہ امن میں اس کے جو قلبی حالات و اخلاق ہوا کرتے تھے اس سے ذرا بھی ہٹنا گوارانہ ہوا مگر حاضرین تھے کہ غم و حزن سے نڈھال ہو رہے تھے۔ سیمیاس نے کہا ”اس حالت کے اندر آپ سے سوال کرنے میں دور تک جانا یقینا ہم پر بے حد گراں ہے اور ہم اسے صحبت کا عیب سمجھتے ہیں مگر بحث و تحقیق کے اندر دور تک جانے سے گریز کرنا کل کے لیے ہمارے دلوں میں حسرت بن کر چبھتا رہے گا۔ اسی کے ساتھ ہم دنیا میں اس ذات گرامی کے وجود سے محروم ہو جائیں گے جو ہماری مراد کا فاتح ہے۔“ سقراط نے کہا ”سیمیاس! کسی چیز کے سوال کرنے میں دور تک جانا ہرگز ترک نہ کرنا کیونکہ اسی سے میں خوش رہوں گا اصل حیثیت تلاشِ حق کی عظیم خواہش کو حاصل ہے ہم گو کہ شریف اور ستودہ صفات رفقاءاور اصحاب سے محروم ہیں مگر پھر بھی ان نظریات میں یقین رکھتے ہیں جو ہماری زبانوں سے برابر سنی جا رہی ہیں ہم مآل کار میں ان دیگر اخوان تک پہنچ کر رہیں گے جو فضل و شرف میں کامل اور اوصاف محمودہ کے حامل تھے۔مثلاً اسلاوس، ارقلیس، ایارس نیز دیگربزرگان قدیم جو نفسانی فضائل کے مالک تھے۔ نفس کے بارے میں جب گفتگو قطعی اور آخری مرحلے سے گزر چکی تو دنیا کی ہیئت، افلاک کی حرکتوں اور ترکیب عناصر کے متعلق تلامذہ و اصحاب نے سوالات کیے ان سب کے سقراط نے جواب دیئے۔ ان باتوں سے فارغ ہو کر اس نے کہاکہ اب میرے خیال میں وہ وقت آ چکا ہے جس میں ہمیں غسل کر کے امکان کی حد تک نماز پڑھ لینی چاہیے۔ ہم کسی کو تکلیف نہ دیں گے کہ وہ مردوں کو غسل کرائے کیونکہ ارماماتی نے ہمیں پکارا ہے اور ہم زاوس کے پاس جاتے رہے ہیں اور تم لوگ اپنے اہل و عیال کے یہاں چلے جاﺅ گے“ اس کے بعد اٹھ کر ایک گھر میں داخل ہوا، غسل کیا اور دیر تک نماز پڑھی لوگ بیٹھے اس مصیبت عظمیٰ کا تصور کر رہے تھے جو سقراط پر اور اس کے صنائع ہونے پر ان پر نازل ہو چکی تھی۔ وہ ذکر کر رہے تھے کہ ایک حکیم، ایک عالم اور ایک مشفق باپ ان سے چھین لیا جائے گا جس کے بعد وہ یتیم ہو کر رہ جائیں گے۔ سقراط نے بیت الصلاة سے نکل کر اپنے بچوں اور عورتوں کو بلایا۔ اس کے تین بیٹے تھے ایک بڑا اور دو چھوٹے۔انہیں وصیّت کر کے رخصت کیا۔ اقریطون سے پوچھا ”آپ ہمیں اپنے اہل و عیال کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں“ ا س نے کہا ”کوئی بات نہیں بس وہی جو ہمیشہ کہتا ہوں اپنے نفس کی اصلاح کرو ایسا کرو گے تو مجھے اور ان تمام لوگوں کو خوش کرو گے جو میری راہ پر ہیں پھر تھوڑی دیر خاموش رہا۔ اسی کے ساتھ پوری جماعت خاموش رہی۔ ان 11ججوں کا خادم آگے بڑھا اور سقراط سے کہا ”جو منظر میں دیکھ رہا ہوں اس سے آپ کی جرأت اور بے باکی کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کی موت کا سبب میں نہیں ہوں۔موت کا سبب تو وہ 11 جج ہیں۔ میں تومامور ہوں، مجبور ہوں“ اس کے بعد اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے، وہ واپس چلا گیا تو سقراط نے کہا۔ ”تم اپنا کام کرو تم بے قصور ہو۔“ پھر تھوڑی دیر خاموش رہا۔ اس کے بعد اقریطون کی جانب متوجہ ہو کر کہا ”اس شخص کو حکم دو کہ میری موت کا شربت لے آئے۔“ اس نے غلام کو حکم دیا کہ اس شخص کو بلا لائے، چنانچہ وہ شخص اپنے ساتھ شربت لے کر آیا۔سقراط نے پیالہ لے کر پی لیا۔ لوگوں نے جب دیکھا کہ سقراط نے زہر پی لیا ہے تو ان پر آہ و بکاکی ایسی حالت طاری ہوئی کہ بے خود سے ہو گئے۔بآواز بلند انہوں نے رونا شروع کر دیا۔ سقراط نے لپک کر انہیں ملامت کی اور کہا ”عورتوں کو ہم نے اس لیے واپس کر دیا تھا کہ ان کا یہ حال نہ ہو چنانچہ شرما کر اور تعمیل کی خاطر بادل نخواستہ وہ رک گئے۔ تھوڑی دیر سقراط نے چہل قدمی کی پھر خادم سے کہا ”دونوں پیر بوجھل ہو چکے ہیں، خادم نے کہا لیٹ جایئے چنانچہ وہ لیٹ گیا تو غلام نے ٹٹول کر پیروں کو دبایا اور پوچھتا رہا کہ دبانے کا کچھ احساس ہو رہا ہے یا نہیں؟ سقراط نے کہا نہیں پھر دونوں پنڈلیوں کو اس طرح دبایا اور وقتاً فوقتاً پوچھتا رہا اور وہ نفی میں جواب دیتا رہا۔ آہستہ آہستہ وہ منجمد ہونے لگا۔ ٹھنڈک بڑھتی گئی۔ حتیٰ کہ اس کا اثر کمر تک پہنچ گیا تو خادم نے ہم سے کہا ”ٹھنڈک دل تک پہنچ جائے تو سمجھیے کام تمام ہو گیا۔“ اقریطون نے سقراط کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”امام حکمت! ہماری عقلیں آپ کی دانش سے دور نہیں ہو رہی ہیں کچھ نصیحت فرمائیں“ اس نے کہا ”سب سے پہلے میں نے تمہیں جو حکم دیا اسے لازم رکھنا“ پھر اس نے اقریطون کا ہاتھ پکڑ کر اپنے رخسار پر رکھ لیا اور کہا ”مجھے جو چاہو حکم دو“ مگر اقریطون نے کوئی جواب نہ دیا اس کے بعد سقراط نے آنکھیں ایک جانب کو مرکوز کر دیں اور کہا ”میں نے اپنی جان قابض الحکماءکے سپرد کی اور پھر موت کی آغوش میں پہنچ گیا“ اقریطون نے آنکھیں بند کر کے دونوں جبڑوں کوباندھا۔ افلاطون بیمار ہونے کی وجہ سے اس وقت حاضر نہ تھا۔(جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں ) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔