بنگلہ دیش۔۔ ترقی کا راز (1)
آج کل ایک پوسٹ سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے جس میں بنگلہ دیش کے ترقیاتی منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئے اس کی سالانہ آمدنی کے بارے میں متاثرکن اعداد وشمار دیئے گئے ہیں۔ اس پوسٹ کا خاص پہلو یہ ہے کہ کسی گہرے تجزیئے کے ذریعے بنگلہ دیش کی ترقی کا راز بتانے کے بجائے سطحی مشاہدے کی بنیاد پر بنگلہ دیش کی ترقی کے بارے میں اپنی مرضی کے ایک خاص زاویے سے جذبات کو بھڑکا نے کی کوشش کی گئی ہے جو افسوسناک ہے۔ ویسے تو صحافت کے موجودہ دور میں جہاں تحقیقاتی صحافت کی جگہ جذباتی صحافت نے لے لی ہے یہ ایک عام سی بات لگتی ہے لیکن اس پوسٹ کا تعلق ملک کی سلامتی سے بھی ہے اس لئے اس بارے میں حقائق کو منظر عام پر لانا ضروری ہے تاکہ درست رائے قائم کرنے میں مدد مل سکے۔ ملک کی سلامتی کا ذکر آیا ہے تو پہلے اس کے دو ٹکڑے ہو جانے پر بات کرنا مناسب ہوگا جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش وجود میں آیا جو سنہ 47 میں مشرقی بنگال کے نام سے پاکستان میں شامل ہوا تھا۔ اس زمانے کے جمہوری دور میں یہ سبق ایک عرصے تک بچوں کو پرائمری جماعت میں پڑھایا جاتا رہا کہ مشرقی بنگال کی پٹ سن کی پیداوار کو سنہری ریشہ کہا جاتا ہے جس کی برآمد سے پاکستان 75 فیصد زر مبادلہ کماتا ہے۔ سنہ 58 میں جب جمہوریت ختم کی گئی تو یہ زرمبادلہ مغربی پاکستان میں خرچ ہونا شروع ہوگیا۔ جہوریت کو ختم کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ بنگالیوں کو ان کے حقِ نمائندگی سے محروم کرکے ان کے وسائل کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا جائے۔
استحصال صرف یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ ملک کو ملنے والے غیرملکی قرضوں کی بھاری مقدار بھی مغربی پاکستان میں ہی خرچ کی جانے لگی جبکہ اس کی واپس ادائیگی میں بنگالیوں کو بھی اپنا حصہ ڈالنا پڑتا تھا۔ سنہ 58 سے سنہ 68 تک ایوب خاں کے دور میں جس ترقی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے وہ اسی لوٹ کھسوٹ کی مرہون منت تھی جس سے 22 امیر ترین خاندانوں نے جنم لیا جن میں ایک بھی بنگالی نہیں تھا۔ اس تناظر میں 71 تک مشرقی پاکستان کے پاس محرومی کے سوا اور کچھ نہیں بچا تھا۔ جو رہی سہی کسر تھی وہ 71 کی جنگ کے دوران تباہی نے پوری کردی۔ اس لحاظ سے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بنگلہ دیش نے فونکس نامی پرندے کی طرح اپنی راکھ سے دوبارہ جنم لیا۔ یہ بات اگرچہ افسانوی سی لگتی ہے لیکن بنگلہ دیش کے معاملے میں اس لحاظ سے حقیقت پر مبنی ہے کہ اس کی غیرمعمولی ترقی کے ڈانڈے اس کے قیام کے وقت ان تباہ کن حالات سے جا ملتے ہیں جن کے سبب اقوام متحدہ نے اس کا نام دنیا کے غریب ترین ممالک کی فہرست میں شامل کرلیا تھا اور جس کی بنا پر اسے نہ صرف کم شرحِ سود پر قرضے کی سہولتیں حاصل ہوگئی تھیں بلکہ اس کی ٹیکسٹائل کی مصنوعات کے لئے جاپان سمیت دنیا کے 27 ترقی یافتہ ممالک میں بلا روک ٹوک برآمد کے دروازے کھل گئے تھے۔
اس سہولت کا فائدہ سب سے پہلے جنوبی کوریا نے اٹھایا جس نے بنگلہ دیش کی ایک کمپنی کے ساتھ مل کر ٹیکسٹائل کی صنعت کو فروغ دیا اور اس شعبے میں بنگلہ دیشی کاریگروں کی تربیت کا اہتمام بھی کیا۔ پھر ایک موقع وہ آیا جب پاکستان کی چالیس فیصد ٹیکسٹائل کی صنعت دو لاکھ برقی کھڈیوں کے ساتھ بنگلہ دیش منتقل ہوگئی۔ کیونکہ وہاں نہ صرف سستی گیس اور بجلی میسر تھی بلکہ بنگلہ دیش نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو دس سال تک ٹیکس کی چھوٹ بھی دی تھی۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر بنگلہ دیش کی جیت سستی ترین اجرت سے ہوئی جو پاکستان سے آدھی تھی۔ اس سہولت کی بناء پر بنگلہ دیش سلے سلائے کپڑوں کی برآمد میں چین کے برابر آکھڑا ہوا اور برآمدات جو 1971ء میں صفر تھیں 2021 میں 36ارب ڈالر تک پہنچ گئیں جن میں سے 80 فیصد ٹیکسٹائل کی مصنوعات اور سلے سلائے کپڑے ہیں۔ گار منٹس انڈسٹری کے فروغ نے جہاں آبادی کی بڑی تعداد کو روزگار کے وسیع مواقع فراہم کئے وہاں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کے قابل ہوگئیں جنہیں دفتر یا کارخانے میں کام کے لئے ساڑھی کی نسبت شلوار قمیض زیادہ آرام دہ لباس لگا اور وہ ہر طرف زیادہ تر اسی لباس میں نظر آنے لگیں۔ یہ منظر دیکھ کر سطحی مشاہدے پر نتائج اخذ کرنے والے میرے جیسے بعض افراد یہ سوچ کر خوش ہونے لگتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی خواتین مذہبی ہوگئی ہیں اور ان کا جھکاؤ پاکستان کی جانب ہے۔
لیکن یہ خوش فہمی ٹھیک ویسی ہی ہے جیسی غلط فہمی مشرقی پاکستان میں خواتین کی اکثریت کو ساڑھی میں دیکھ کر ہوا کرتی تھی اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ ہندو تہذیب سے متاثر ہیں۔ بے سوچے سمجھے اس قسم کے نتائج اخذ کرنا ایسا ہی ہے جیسے یہ کہا جائے کہ پاکستان میں جو لوگ کوٹ پتلون پہنتے اور ٹائی وغیروہ لگاتے ہیں وہ عیسائی تہذیب سے متاثر ہیں۔ عیسائی تہذیب کا ذکر آیا تو دھیان ان کی اور یہودیوں کی ایجاد کردہ ادویات کی طرف چلاگیا جو دنیا کے تمام مسلمان کسی تکلف کے بغیر بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ یہ دوائیں جو پاکستان میں بہت مہنگی ملتی ہیں بنگلہ دیش میں ارزاں نرخوں پر دستیاب ہیں۔ وہ اس لئے کہ وہاں برانڈ نام سے دوائیں بیچنے پر پابندی ہے اور یہ صرف اپنے جنرک یعنی اپنے کیمیائی نام سے بیچی جا سکتی ہیں۔پاکستان میں بھی بھٹو صاحب کے دور حکومت میں ان کے وزیر صحت شیخ رشید نے عوام کو سستے داموں دوائین فراہم کرنے کے لئے جنرک ناموں سے فروخت کرنے کی پالیسی اختیار کی تھی لیکن ملک کے مراعات یافتہ طبقے نے جس کا مفاد غیرملکی برانڈ کمپنیوں سے وابستہ چلا آرہا ہے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔(جاری ہے)