اے میرے پیارے وطن!
انتخابات کی آمد کا شور ہے، لیکن سیاسی صورت حال کچھ زیادہ ہی الجھی ہوئی ہے اور اپنی جگہ دلچسپ بھی ۔ 2013ءکے انتخابات تمام سیاسی جماعتوں کے لئے ایک چیلنج ہیں۔ خاص طور پر بڑی سیاسی جماعتوں کے لئے.... پاکستان پیپلز پارٹی 2008ءکے انتخابات میں ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر اُبھری، لیکن آہستہ آہستہ صورت حال تبدیل ہوتی گئی۔ 2008ءکے انتخابات کے وقت بہت سے عوامل پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت میں تھے۔ سب سے بڑھ کر جنرل پرویز مشرف کے ”سنہری کارناموں“ کی وجہ سے ملک بھر میں اُن کے بارے میں ناپسندیدگی کے جذبات اپنی انتہا پر تھے۔ عوام ہر قیمت پر اُن سے اور ان کی پیدا کردہ سیاسی جماعت سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ پرویز مشرف کے خلاف یہ جذبات پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت میں اضافے کا باعث بن گئے، لیکن اس سے بھی زیادہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے قتل نے عوامی جذبات کو ہمدردی میں بدل دیا اور یہ بھی ایک اہم وجہ بن گئی۔ کچھ سیاسی جماعتوں کو تیاری کا وقت نہیں ملا یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ انتخابات کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں کر پائی تھیں۔ کچھ سیاسی جماعتیں پرویز مشرف کی صدارت میں الیکشن میں جانا نہیں چاہتی تھیں اور انہوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی شاندار کارکردگی ، ایک کے بعد ایک کرپشن کا منظر عام پر آنا اور وہ بھی اربوں میں اور وزیراعظم کا ملوث ہونا یا ان کے خاندان کے افراد کا ملوث ہونا....کئی ایک وارداتوں کا کُھرا بڑے گھر کی طرف بھی گیا.... بالواسطہ یا بلاواسطہ.... شک میں ڈال دیا ہے کہ عوام انہیں مزید لوٹ مار کا موقع دیں گے، لیکن وطنِ عزیز کو جو چیلنج درپیش ہیں، ان کے پیش نظر مشکل نظر آتا ہے کہ کوئی ایک جماعت فیصلہ کن اکثریت حاصل کر پائے گی۔ دعویٰ تو کئی جماعتیں کر رہی ہیں، لیکن صورت حال ایسی بنتی نظر نہیں آتی۔ صورت حال دلچسپ اس لحاظ سے ہے کہ اس وقت تمام بڑی جماعتیں اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں۔ کوئی مرکز میں، کوئی ایک صوبے میں، کوئی دوسرے صوبے میں۔ پاکستان پیپلز پارٹی مرکز میں، اے این پی، مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کے ساتھ، سندھ میں بھی تقریباً یہی صورت حال ہے۔ نواز شریف یونیفکیشن بلاک کے ساتھ پنجاب میں، بلوچستان میں کھچڑی حکومت، آئندہ بھی مخلوط حکومتیں ہی بنتی نظر آتی ہیں، لیکن تحریک انصاف کے عمران خان کا دعویٰ ہے کہ وہ کلین سویپ کریں گے، لیکن بظاہر وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ہی کچھ حاصل کرنے کی پوزیشن میں نظر آتے ہیں۔
عمران خان اور مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری کے ہوتے ہوئے شفاف الیکشن ممکن نہیں، لیکن حالیہ تبدیلیوں، الیکشن کمیشن کا ڈٹ جانا اور عدلیہ کی جانب سے ان کے فیصلوں کی توثیق نے امید پیدا کر دی ہے کہ انتخابات اگر ہوئے تو صاف شفاف ہوں گے۔ بہرحال ابھی تک جو صورت حال ہے، اس کے مدنظر کسی ایک جماعت کو فیصلہ کُن اکثریت حاصل ہوتی نظر نہیں آتی، لیکن جیسے جیسے وقت گزرے گا تو کچھ سیاسی اتحاد تشکیل پائیں گے، کچھ بگڑیں گے۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنے تحفظات کا اظہار کر بھی دیا ہے کہ نگران وزیراعظم کا نام دیتے وقت مسلم لیگ (ن) نے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا۔ راجہ ظفر الحق اور اسحاق ڈار ان سے رابطہ کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف سے یہ شکایت برقرار ہے کہ قوم کو درپیش ہر اہم مرحلے پر وہ ”زیادہ اہم“ معاملات طے کرنے کے لئے ”اہم“ جگہوں پر پائے جاتے ہیں۔
٭.... خیبر پختونخوا میں ایک پیش رفت یہ ہوئی کہ مسلم لیگ (ہم خیال) کے سینیٹر سلیم سیف اللہ کو اپنے ساتھیوں کو ساتھ رکھنے میں خاصی دِقت پیش آ رہی ہے۔ ہر بندہ اپنی مرضی سے اپنی پسند کی پارٹی میں جانا چاہتا ہے....یا یہ کہہ لیں کہ جہاں اس کے مفادات کا بہتر تحفظ حاصل ہو سکے اور انہیں ”کھابہ ڈابا“ مل جائے۔ یہ گروپ (ہم خیال) مسلم لیگ (ق) سے الگ ہوا تھا، کیونکہ اس وقت وہ اپوزیشن میں تھے، اگر چٹھہ اینڈ کو، کو معلوم ہوتا کہ یہ ”قاتل لیگ“ زرداری کے پیاروں میں شامل ہو جائے گی تو یقیناً نظریاتی اختلاف جنم نہ لیتا۔ بہرحال اب اسمبلیاں ختم ہوگئی ہیں۔ ان کے مستقبل کا بھی فیصلہ ہو جائے گا۔ کچھ تو عمران خان کے ساتھ چلے جائیں گے۔ یہ بات طے ہے کہ ہم خیال اب ہم خیال نہیں رہے، سب کا اپنا اپنا خیال ہے۔ اکتوبر میں ہونے والی میٹنگ بھی نہ ہو سکی، کیونکہ خدشہ تھا کہ اختلاف رائے کھل کر سامنے آجائے گا۔ اب خیال ہے کہ کچھ مسلم لیگ (ن) میں اور کچھ لوگ تحریک انصاف میں جانے کے خواہش مند ہیں، لیکن اکثریت اب بھی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد بنانے یا باقاعدہ شامل ہونے کو ترجیح دے گی۔ سلیم سیف اللہ کا اصرار ہے کہ یہ محض افواہیں ہیں، لیکن خورشید محمود قصوری کا تحریک انصاف میں شامل ہونا اس ٹوٹ پھوٹ کا ایک ثبوت ہے۔ ہمایوں اختر بھی مسلم لیگ کے ساتھ شامل ہونے یا اتحاد بنانے کے واضح اشارے دے رہے ہیں۔
٭.... پچھلے کچھ عرصے سے میڈیا سے وابستہ افراد حملوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ سے وابستہ اہم افراد اس کی ذمہ داری کالعدم انتہا پسند تنظیموں، ریاستی اداروں اور کچھ سیاسی جماعتوں پر بھی ڈالتے ہیں۔ یہ بات صحافیوں کی سلامتی کے لئے ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں بھی زیر بحث آئی، جس میں پندرہ اہم میڈیا گروپوں سے وابستہ افراد کے علاوہ ڈنمارک اور ناروے کے سفیر بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ یونیسکو کے نمائندے نے بھی اس دو روزہ کانفرنس میں شرکت کی تھی۔
٭....جنرل پرویز مشرف بھی کراچی پہنچ گئے ہیں۔ صدارت سے علیحدہ ہونے کے بعد قریب 5 سال خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے والے جنرل پرویز مشرف نے اس دوران اپنی سیاسی جماعت بھی بنائی۔ آل پاکستان مسلم لیگ .... اورانتخابات میں حصہ لینے کا مصمم ارادہ بھی ظاہر کیا۔ کچھ جلسوں سے ٹیلیفونک خطاب بھی کیا۔ آنے کی کئی تاریخیں بھی دیں، لیکن اب وہ پہنچ ہی گئے ہیں.... یہاں ان کی سلامتی کے لئے بہت سے خطرات ہیں، کچھ حلقے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ فوج کی طرف سے بھی ان کو نہ آنے کا مشورہ دیا گیا ، لیکن اب تو وقت گزر گیا۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل کا مقدمہ، لال مسجد آپریشن، محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ، کئی وارنٹ گرفتاری ان کے منتظر ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ ہر قسم کی عدالتی کارروائی کے لئے تیار ہیں، کیونکہ ان کے ہاتھ صاف ہیں۔ اب تک ان کے خلاف یک طرفہ پروپیگنڈہ ہوتا رہا ہے۔ اس سے انہیں صفائی پیش کرنے کا موقع مل جائے گا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اتنے کم عرصے میں انتخابات کی تیاری ممکن ہوگی؟.... ان کا کہنا تھا کہ دو تین جلسے کروں گا، عوام کا سمندر ہوگا اور صورت حال تبدیل ہو جائے گی۔ فی الحال تو احمد رضا قصوری اور میجر جنرل راشد قریشی ”عوام“ ہیں۔ ان کا ترجمان فواد چودھری اب سابق وزیراعظم کا سیاسی مشیر ہے۔
جنرل پرویز مشرف کا فرمانا ہے کہ پاکستان خطرے میں ہے، اگر فوری اقدامات نہ کئے گئے تو حالات قابو میں نہیں رہیں گے.... وہ حُب الوطنی کے جذبے سے مغلوب ہو کر پاکستان آگئے، اب وہ حالات کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے، جو ایک فوجی ہونے کی حیثیت سے ان کا حلف ہے۔ وطن عزیز اس وقت جس شدید معاشی بحران کا شکار ہے، اگر اس میں دہری شہریت کے مالک ایک ارب ڈالر کے قریب ہر ماہ نہ بھیجیں تو پاکستان دیوالیہ ہوگیا ہوتا۔ کراچی کے”کھڑکی توڑ“ ہفتہ منانے والوں کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں نے ریکارڈ توڑ رشوت کے پانچ سال پورے کئے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی نے ”ایم بی بی ایس“ سمیت بغداد سے لے کر ملتان تک ڈالروں کی سڑک تعمیر کی۔ راجہ پرویز اشرف نے بھی پیچھے رہنا گوارہ نہیں کیا۔ باقی سب بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ”میرا بھی تو ہے“۔ آنے والے وقت میں اگر مالیاتی اداروں کی طرف سے9 ارب ڈالر کا تحفظ مہیا نہ ہوا تو اللہ ہی حافظ ہے۔
پاکستان میں لوٹ مار کے مواقع ہیں تو ہماری سیاسی قیادت قوم کی خدمت کے لئے یہاں ہے۔ کسی بھی حادثے کی صورت میں (خدانخواستہ) یہ مہربان اپنے اصلی وطن سدھار جائیں گے، جہاں انہوں نے اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ کیا ہوا ہے۔ ماضی قریب میں ڈالر 100 روپے کے قریب تھا، جس سے ہماری درآمدات، برآمدات کا توازن بُری طرح بگڑا ہے۔ دوسری طرف جو کام شوکت عزیز اور ان کے بعد آنے والے دس سال میں نہ کر سکے، وہ اب ہو رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان کو معاشی طور پر قتل کر دو۔ غلط فیصلے، غلط تقرریاں ، ہر غلط کام ہو رہا ہے۔ اپنے مفادات کا تحفظ بھی ہو رہا ہے اور ”بنکرنشین“ محسن کے لئے بھی اب کروڑوں ڈالر ان کے اکاو¿نٹ میں جا چکے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کو ایسے ایسے ”ٹیکے“ لگائے جا رہے ہیں کہ بچ جائے تو معجزہ ہوگا۔ ایک جُملہ کہنے والے کو بس میں ہو تو ساری زندگی کے لئے اُلٹا لٹکا دینا چاہئے۔ ہمیں یہ بحران در بحران ورثہ میں ملے ہیں۔ ہر آنے والا اپنی کرپشن، نا اہلی اور بیڈ گورننس پر پردہ بھی یہی کہہ کر ڈالتا ہے:
کسے دکھائیں کہ سینے میں زخم کیا کیاہیں ٭