روس اپنی بحالی کی طرف۔۔۔انصاف کا متمنی کرامت بخاری
تو کیا اب وقت نے روس کے دروازے پر دستک دے دی ہے کہ وہ یوکرائن کے معاملے پر اپنی ایک واضح اور دو ٹوک پالیسی سے دنیا کی اس طاقت کے غرور اور نشے میں بدمست اکلوتی سپر پاور کی اکڑی گردن کو جھٹکا دے کر ثابت کر سکے کہ کوئی ہے جواُسے من مانی کارروائیوں سے روک سکتا ہے۔ ویسے تاریخ کے کھیل بھی کتنے دلچسپ اور سبق آموز ہیں اگر ہم سبق سیکھنا چاہیں تو۔
سال 1962کا تھا اور دور کینیڈی اور خرو شیف کا۔ جان ایف کینیڈی کا کہنا تھا سوویت یونین کیوبا میں نیوکلیر میزائلوں کی تنصیب بند کرے وگرنہ جنگ ناگزیر ہوگی۔کیوبا امریکہ سے پانچ سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔گویا اس وقت دنیا کی دوسری پاور پہلی پاور کے گھر کے دروازے پر میزائلوں کی باڑ لگا رہی تھی۔
گویا نصف صد ی بعد تاریخ کو دہرایا جارہا ہے۔یوکرائن کی سرحدیں روس کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔سوویت کے دنوں میں اُس کا ایک حصّہ تھا۔معیشتوں کا انحصار بھی ایک دوسرے سے منسلک تھا۔روس اور روسی زبان بولنے والوں اور سمجھنے والوں کی بھی کثیر تعداد یوکرائن میں آباد۔بلکہ اُس کا ایک حصّہ کریمیا تو روسی ہی سمجھئیے۔اب ایسے میں ایک دوسرے پر بہت سے معاملات میں انحصار خاصا بڑھ جاتا ہے۔
امریکہ کو بھی چین نہیں ابھی دنیا میں پہلے سے اُس کے پھیلائے ہوئے پنگوں جنہوں نے بہت سی قوموں کو لہولہان کیا ہوا ہے۔ان کے زخموں سے خون بہہ رہا ہے اور وہ ہے کہ ایک اور محاذ کھولنے کو تیار نظر آتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ یورپی اقوام ساتھ دیتی نظر نہیں آتیں کہ جرمن سمیت ان کے مفادات روس سے وابستہ ہیں۔ یوکرائنی صدر وکٹریانو کووچ اس وقت روس میں ہے۔ اور روس پوری طرح مستعد نظر آتا ہے کہ امریکہ کو بھرپور جواب دیا جائے۔سچی بات ہے امریکہ کی بدمعاشیاں بھی اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہیں۔کوئی نظر ہی نہیں آتا کہ جو اسکا ہاتھ پکڑ کر اُسے ذرا لگام ڈالے۔ شام کے مسئلے پررُ وس کے سٹینڈ نے ایک امید افزا صورت کو جنم دیا ہے۔ روس بھی جانتا ہے کہ اُسے اب یوکرائن پر قبضہ نہیں کرنا صرف امریکہ کے اثر ونفوذ اور مداخلت کا توڑ کرنا ہے۔
یورپی یونین کا تھایندار یورپی یونین کو پابندیوں کیلئے اگر کہتا ہے تو اِس کہنے میں اثر کتنا ہوگا؟ہندوستان جیسے ملک نے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ وہ امریکہ کے کِسی ایسے فیصلے میں شامل نہیں ہوگا جو روس سے متعلق ہوگا پابندیوں کے متعلق وہ امریکہ کا ہم نوا نہیں ہوگا۔ اب پاکستان پر بھی یہ واضح ہونا چاہیے کہ روس اُس کا ہمسایہ ہے اور اُسے اِن بدلتے حالات میں امریکی اثرو نفوذ سے تھوڑا باہر آنا چاہیے۔
ایک اور اہم واقعے پر بھی قارئین سے کچھ شئیر کرنا ہے جو انتہائی تکلیف دہ ہے۔اور ہمارے ذہنی شعور کی نفی کرتا ہے۔کچھ عرصے سے مرکزی شاہراہوں پر ایک بل بورڈ گاہے گاہے نظرآتا ہے۔کشمیرکو آزاد کروانے کیلئے ہندو کی مرمت کرنی ضروری ہے۔یہ رویہ سطحی سوچ کا مظہر ہے۔ایسے بیانات تضحیک کا باعث بنتے ہیں۔اپنے ملک کو دیکھئیے کیا خون خرابے ہورہے ہیں۔یہاں تو ایک خدااور ایک قرآن کو ماننے والے متحد نہیں وہ ایک دوسرے کا سر پھاڑ رہے ہیں۔ایک نظرئیے ایک مسلک کا حامی دوسرے کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔رواداری برداشت انسانیت کا احترام جیسی اقدار اِس معاشرے سے ختم ہوگئی ہیں۔مسجدیں محفوظ نہیں۔ کلمہ گو کلمہ گو کا گلا کاٹ رہا ہے اور آپ باتیں کرتے ہیں ہندو کی مرمت کی۔ خدا کیلئے ہوش کریں۔سنجیدہ اور عقل والی باتیں کریں۔
تھر کے قحط نے دل گرفتہ کیا۔یہ صورت حال کیوں ہوئی؟کس سے پوچھا جائے۔سندھ حکومت اس کا کیا جواب دے گی؟بات تو وہی ہے کہ حکمرانوں کی ترجیحات میں عوام تو کہیں ہیں ہی نہیں۔
اب قحط کا یہ قافلہ چولستان کی طرف بڑھ رہا ہے۔سچی بات دل دہل رہا ہے کہ خدا چولستان کو اس سے محفوظ رکھے۔بہر حال ایک اطمینان تو ہے کہ پنجاب حکومت کا سربراہ لاپرواہ نہیں۔ذمہ دار بھی ہے اور مستعد بھی۔خود پہنچ کر صورت حال کو درست کرے گا۔مگر بات تو ہے کہ یہ صورت حال جنم کیوں لے۔وقت سے پہلے اسکا کا تدارک کیوں نہیں ہوتا۔ذمہ دار افراد انتظامی افسران کی لام ڈور آخر کس مرض کی دوا ہے جو یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے علاقے میں کوئی ناگہانی صورت پیدا ہونے والی ہے۔کوئی بھی آفت ایکا ایکی تو نہیں آتی۔اُسے آتے آتے بھی وقت لگتا ہے۔
اب ایک اور درخواست ارباب اقتدار کی خدمت میں کہ بہت توانا لہجے کا شاعرجناب کرامت حسین بخاری ایک ایمان دار،ذمہ دار،فرض شناس افسر جسکی پیشہ ورانہ زندگی کرپشن کے داغ دھبوں سے پاک صاف ہے۔آڈٹ اینڈاکاؤنٹس میں ڈائریکڑ جنرل کے عہدے پر فائز اِس انسان پر پرموشن کے دروازے کیوں بند ہیں؟ باربار ٹرانسفر کے کیا معنی ہیں؟کیا سبق سکھانا چاہتی ہے انتظامیہ اُسے۔تنخواہ کی بندش ،ذہنی اذیت ہم آخر کِس طرف جارہے ہیں۔آخر یہاں زیادتی کرنے والوں کو کوئی ڈر خوف کیوں نہیں۔ قانون گھر کی لونڈی کیوں بنا بیٹھا ہے۔مجھے اُس بوڑھے کی بپتا یاد آرہی ہے جس کی ایک دوکان ڈی ایچ اے کے مین بلیووارڈ میں ہے۔اس کا کرایہ دار اُسے ناک چنے چبوا رہا ہے۔وہ درخواست لیکر ڈی ایچ اے آفس جاتا ہے وہاں سنوائی نہیں کہ یہ دوکانیں ان کی حدود میں نہیں وہ کہتا ہے۔میں کِس عدالت کا دروازہ کٹھکٹھاؤں۔کہاں جاؤں اب ہم جب باہر کے ملکوں کی مثالیں دیتے ہیں تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ یہ ملک کے وفا دار نہیں ۔یہ وفا داری ہم میں کیسے آئے گی۔کیا ہوائیں پھانک کر ۔کیا دُکھ درد اور ذہنی اذیت سہ کر ۔ قانون کے ہاتھ کیوں مضبوط نہیں کیے جاتے۔عام آدمی کو یہ تحفظ اور اطمینان کب نصیب ہوگاکہ وہ عدالت کے دروازے پر دستک دے گا تو اُسے انصاف ملے گا۔ *