آزادی¿ اظہار رائے اور ہمارے قلمکار

آزادی¿ اظہار رائے اور ہمارے قلمکار
آزادی¿ اظہار رائے اور ہمارے قلمکار
کیپشن: kashif darwesh mandrani

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آج کے نفسانفسی کے عالم میں ہمیں ان قلمکاروں کی تعداد معدودے چند نظر آتی ہے، جو جابر سلطان کے آگے کلمہ حق کہنے کا شرف رکھتے ہیں اور اپنے خون جگر سے پرورش لوح و قلم کرتے نظر آتے ہیں، اسی طرح جو نئے لکھنے والے ہیں، ان کو مناسب ماحول اور سہولتیں میسر نہیں کہ آزادی سے اپنا مافی الضمیر بیان کر سکیں۔ ایسے لوگ بہت کمیاب ہیں، جو نئے لکھاریوں کی مناسب تربیت اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
پچھلے دنوں حسن محمود آف سرگودھا سے ملاقات ہوئی، جو کہ ریٹ (R E A T) نامی ایک انسانی حقوق کی این جی او (N G O) چلا رہے ہیں۔ انہوں نے حکم دیا کہ آزادی¿ اظہار رائے پر خامہ فرسائی کروں، تو عرض ہے کہ تخلیق انسانی کے ساتھ ہی خالق کائنات نے اسے بیا ن کا علم عطا فرمایا اور قلم کی طاقت کی اہمیت کا اقرار سب اہل دانش کرتے نظر آتے ہیں نپولین جو کہ مشہور فاتح گزرا ہے کہتا ہے....I fear three news papers more than hundred thousand bayonets. ....یعنی مَیں ایک لاکھ سنگینوں کے مقابلے میں تین اخباروں سے ڈرتا ہوں ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اخبار کی کیا طاقت ہوتی ہے اور آج کل ہم دیکھتے ہیں تو اخبارات کی بھر مار نظر آتی ہے اور بہت سے اخبار ہمیں ایسے نظر آتے ہیں کہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ کاروباری نقطہ نظر کے تحت نکالے جا رہے ہیں اور محض ڈنگ ٹپاﺅ پالیسی ہی نظر آتی ہے ۔پوری کوشش کی جاتی ہے کہ خبروں میں سنسنی پیدا کی جائے۔ اس لئے اب اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ صحافتی اقدار اور روایات کا خاص خیال رکھا جائے اور سچائی کی روش کو اختیار کیا جائے کہ جھوٹ کو اختیار کرنے سے عارضی فائدہ تو حاصل ہو سکتا ہے ۔
بعض لوگ جلب منفعت کی خاطر جھوٹ کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں، مگر وہ کبھی بھی مستقل بنیادوں پر کامیابی حاصل نہیں کر سکتے اور ناکامی اور نا مرادی ان کا مقدر ٹھہرتی ہے اور جب سچائی ظاہر ہو جاتی ہے، تو ایسے لوگوں کو خجالت اور شرمندگی کے ماسوا کچھ حاصل نہیں ہوتا کہ سچائی کی تعریف ہی یہ ہے کہ جو کل تھا ،جو آج ہے، جو کل رہے گا ۔ بہر حال ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئی بھی مضمون تحریر کیا جائے یا کوئی خبر ضبط تحریر میں لائی جائے اس کی پوری تحقیق کر کے ہی عوام کے سامنے پیش کی جائے ، اپنا قد بڑھانے کی خاطر کسی دوسرے پر صرف الزامات عائد کرنے کی بجائے سچائی کو مد نظر رکھا جائے اور آزادی اظہار رائے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جو ذہن میں آئے لکھ دیا جائے یا بول دیا جائے، بلکہ اس کے حسن و قبح پر اچھی طرح غو ر کر کے ہی کسی مضمون پر خامہ
 فرسائی کی جائے اور ایسے خیالات اور آرا سے گریز ملکی مفاد کا تقاضا ہے کہ جن سے یہ خدشہ ہو کہ یہ ملکی یکجہتی اور ملت کے اتحاد میں رخنہ ڈالنے کا موجب ہوں گی، مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ایسی باتیں جنکی وضاحت ضروری ہو ان کو نظر انداز کر دیا جائے مثلا آجکل پاکستان کے کچھ طبقے آئین پاکستان پر اعتراض کرتے ہیں اور اسے انگریز کا آئین قرار دیتے ہیں، اس لئے اس امر پر اہل دانش کو کھل کر بات کرنی چاہئے اور جو بھی اشکال پایا جاتا ہے اس کا ختم کرنا ضروری ہے اور اس ضمن میں دقیانوسی خیالات کا خاتمہ ضروری ہے ، پھر اس ضمن میں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض قنوطی(Pessimist)حضرات ہر وقت تباہی اور بربادی کی خبریں ہی بتاتے رہتے ہیں اور مایوسی اور قنوطیت پھیلانے میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ بقول شاعر :
کس قدر خوش نظر آتے ہیں مرے شہر کے لوگ
آج کسی نے اخبار نہ پڑھا ہو جیسے
اگر ہم بنظر غائر غور کریں تو مایو سی ہی ایسی چیز ہمیں نظر آتی ہے، جس سے گناہ اور جرم جنم لیتے نظر آتے ہیں کہ ایک انسان جب اپنے اچھے مستقبل سے مایوس ہو جاتا ہے، تو پھر جرائم کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے، اس لئے یہ قلمکاروں کا فرض ہے کہ اچھائی کو بھی زیادہ سے زیادہ بیان کریں کہ اسلامی تعلیم بھی یہی ہے کہ بشارتوں اور خوشخبریوں کا پرچار کیا جائے ۔ آخری بات اس ضمن میں یہ عرض ہے کہ قلم کاروں کو زیادہ سے زیادہ مطالعہ کی عادت اختیار کرنی چاہئے اور جتنا زیادہ کتب بینی کا انہیں شوق ہوگا اتنا ہی ان کے قلم میں جان پیدا ہوگی اور وہ زیادہ سے زیادہ ملک و قوم کی خدمت کر سکیں گے کہ ان کی شعوری سطح کی بلندی ہی اس ملک کے لوگوں کو ہبوط اور ادبار سے نکا ل کر اوج ثریا تک پہنچا سکتی ہے ۔ خدا کرے ایسا ہی ہو اور میرے وطن کے اہل قلم مادہ پرستی سے نکل کر ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے بن جائیں ۔آمین۔ بقول شاعر:
ہمارے ذہن پر چھائے نہیں حرص کے سائے
جو محسوس کرتے ہیں وہی تحریر کرتے ہیں

مزید :

کالم -