حکمتِ عملی

حکمتِ عملی
حکمتِ عملی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ماوراء النہر کے صحرا سے اٹھنے والا اور بجلی کی مانند گرنے والامنگولوں کاخانِ اعظم دنیا کے دو تہائی خطے کو اپنے گھوڑے کے ٹاپوں کے نیچے روندنے اور لاکھوں لوگوں کا لہو پینے کے بعدآخر کار اجل آباد روانہ ہوا۔قلعہ المُوت کے شیخ الجبل کے فدائی کہ تاریخ کے صفحات آج بھی ان کی ہولناکی وسفاکی پر پھڑ پھڑا اُٹھتے ہیں۔وہ بھی اپنی ہیبت و دہشت کے ساتھ فسانہ ہوئے۔کائنات کا اور کہکشاؤں کا دستور یہی ہے کہ خوف و خروج اورڈر کا موسم دائم قائم نہیں رہتا،کوئی دن آتا ہے کہ فسوں کاری کا طلسم ٹوٹنے لگتا ہے اور جبر و قہر کی علامتیں خزاں رسیدہ پتوں کی طرح لرزنے لگتی ہیں۔


متحدہ کے مرکز پر رینجرز کے چھاپے نے الطاف بھائی کا جلال توتحلیل کر ہی ڈالا،ساتھ ساتھ سیاست،سماج اور عسکریت بھی اک موڑ مڑ گئی۔30سال سے زائد ملکی معیشت کے قلب پر فرمانروائی کا ڈنکا بجانے والوں کا ڈھول بجاہے تو طے جانئے کہ مسلح سیاسی جماعتوں کے باب کا تتمہ تحریر ہونے چلا ہے ۔لمحہ موجود سے قبل کس کا یارا تھا ،کس میں برتا تھا کہ نائن زیرو کی جانب میلی نگاہ سے بھی دیکھے کہ یہاں کے اشارہ ابرو سے کئی لوگوں کی زندگیوں کے چراغ گل ہو تے تھے اور کئی شہزادے یہاں کی شہہ سے ہی سانس لیتے تھے۔ حکومت کسی کی بھی ہوتی، ٹکسالوں میں سکہ کسی بھی شاہ کا ڈھلتا ....... لیکن کراچی میں حکم الطاف بھائی کا ہی چلتا۔کوئی بھی شیر ان کی اجازت کے بغیر اپنی کچھا ر سے باہر نہ آتا اور بلند پرواز طائربھی ان سے پوچھے بغیرپر نہ مارتا ۔وہ سیدانِ بادشاہ گر رہے کہ جسے چاہتے نہال کرتے اور جب چاہتے کسی گستاخ کو پاتال میں پہنچا دیتے۔90کی دہائی میں بُرے دن آنے سے قبل تو بھائی سے منسوب ایک ذو معنی فقرہ کراچی میں بڑا عام تھا ...... ’’اللہ کی اٗمانت ،اللہ کے حوالے‘‘ ۔منی پاکستان میں اگر کسی چیز نے فروغ پایا تھا ....... تو وہ جرم تھا ،کوئی کچھ بھی کر گزرے ،کوئی پوچھنے والا نہ تھا اور دہشت گردوں کی راہ میں کوئی مانع تھا نہ مخل۔سماج کی گرفت اپنا اثر کھو بیٹھی تھی اور ریاستی عملداری کسی دوسرے جہاں جا سدھاری تھی۔


پھر قضائے کا راور فلک کج رفتارنے الطاف بھائی کا دفتر ایسا ابتر کیا کہ بس توبہ بھلی ۔ جنرل آصف نوازجنجوعہ کی بدولت کچھ ایسا ہوا کہ انہیں سان و گمان نہ تھا کہ تقدیر نے انہیں لندن لا بٹھایا ۔جس وقت متحدہ کے قائد شہرِقائد سے نکلے تھے ،دل میں ٹھان کر نکلے تھے کہ اب اس شہر کو پیٹھ دکھائی ہے ،جیتے جی منہ نہ دکھاؤں گا۔ سرِراہے!دیارِ غیر میں ہر آدمی کو وطن کی یاد بڑا ستاتی ہے ،بے چین اور بے کل رکھا کئے ۔کیا عجب کہ ان کا جی پھڑکتا ہو اور دل میں ارمان ہو کہ کاش !ان کے پر ہوتے اور وہ اُڑ اُڑ جاتے اور اک نظر کراچی دیکھ آتے ۔


سو سوالوں کا ایک سوال کہ متحدہ کے مرکز پر چھاپہ اعلیٰ سطحی کارروائی ہے یا نچلی اور درمیانی سطح کا فیصلہ ؟کیا یہ وقتی اور جذباتی اقدام تو نہیں ؟حالات و واقعات اور آثار و قرائن تو یہی یقین فراہم کیا کئے کہ ا ونچی بارگاہوں سے ہی اذن ملا ہے ۔ہو نہیں سکتا کہ اتنی بڑی کارروائی کی منظوری وزیر اعظم ہاؤس سے نہ لی گئی ہو کہ اس کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں۔پھر فوری طور پر وزارتِ داخلہ کا دفاعی اداروں کی پشت پر آ جانااور بغیر کسی چونکہ چنانچہ کے رینجرز کے اقدام کی توثیق کرنا .......گویا سیاسی اور عسکری قیادتیں متفق علیہ ہیں کہ اب عسکریت کسی باب میں بھی قبول نہیں۔


ایک باخبر مبصر نے جبکہ اس کے بر عکس تجزیہ کیا کہ شریف برادران نائن زیرو چھاپے سے لاعلم تھے ۔جس دن متحدہ پر قیامت ٹوٹی ،ٹھیک اسی دوپہرنواز شریف صاحب بھی کراچی میں ہی تھے ۔یار لوگ ان کی موجودگی کو لاعلمی اور باخبری دونوں کے معنی پہنایا کئے۔سینیٹ کے انتخابات میں تعاون کے لئے شہباز شریف صاحب کا لندن میں الطاف صاحب سے رابطہ بھی اسی گماں کو یقین میں بدلے ہے کہ شریف برادران لا علم تھے کہ بصورت دیگر وہ ان سے ووٹ نہ مانگتے۔کہا جاتا ہے کہ نبیل گبول بہت پہلے بدلتے موسموں اور کڑے تیوروں سے آشنا تھے اور وہ کبھی کبھی اجمالاً اور کہیں کہیں تفصیلاًاشارے بھی کیا کئے ۔سنسناتا ساسوال ہے کہ اگر نبیل گبول ایسے لوگ کسی محشر کی گھڑی سے واقف تھے توحکمران کیسے بے خبر رہ سکتے ہیں ؟90اور92کے زخم ہنوز ہرے ہیں،گاہ گاہ تو ایسے ٹانکے کھلتے ہیں کہ درد دہائی دینے لگتا ہے ۔


لاعلمی اور باخبری کی بات لمحہ بھر کو علیحدہ دھریئے اور ذراعہد رفتہ کو آواز دیجئے۔ڈھائی فٹ کی چھڑی جب جنرل کیانی صاحب جنرل راحیل صاحب کو سونپ رہے تھے .......کسے خبر تھی کہ یہ سپہ سالار سب سے مختلف نکلے گا ۔اپنے تمام پیشروؤں کے کانٹے چُنے گا اور ٹھیک ٹھیک صراطِ مستقیم کا انتخاب کرے گا ۔مذہبی مسلح تنظیمیں اور سیاسی عسکری ونگ ...... سبھوں کے سبھوں نے نئے جنرل کو پہچاننے میں غلطی کی ،بلکہ بہت سے منجھے ہوئے اور خرانٹ سے سیاست دانوں نے بھی ۔پھر جنرل رضوان اختر کے انتخاب کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔گویا میاں صاحب نے ترتیب ،تدریج اور اہتمام کے ساتھ اپنے تیسرے عہد میں پتے کمال کھیلے ہیں۔


ارشاد احمد حقانی (الھم غفرلہ) اکثر کہا کرتے تھے کہ میاں صاحب جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو پتے بڑے درست کھیلتے ہیں اور جب حکومت میں ہوتے ہیں تو اتنے ہی غلط کھیلتے ہیں۔اب حقانی صاحب کو کون بتائے کہ اب کی بار ایسا نہیں ہوا ۔سیاسی اور عسکری قیادتیں محض ایک صفحہ پر ہی نہیں،ناموں کی مماثلت ہی نہیں........بلکہ ذہنی ہم آہنگی میں بھی ندی کے دو کناروں کی مانند ساتھ ساتھ چلا کئے ۔گماں گزرتا ہے کہ دونوں قیادتوں نے حکمت عملی کے تحت طے کر لیا ہے کہ بس بہت ہو چکی..... اب ہتھیار فقط ریاست کے پاس ہی ہو گا ،کسی فرد کے پا س نہیں۔مذہبی فدائیوں کے بل بوتے پر کسی کو حسن بن صباح کے نقشِ قدم پر چلنے دیا جائے گااور نہ ہی کسی کو سیاسی جانثاروں کا ریوڑ پال کر ہٹلر بننے کی اجازت ملے گی ۔

مزید :

کالم -