بڑے لوگوں کی چھوٹی باتیں
واقعہ دلچسپ ہے ۔ صرف دلچسپ ہی نہیں بلکہ سبق آموز بھی ہے ۔ اگر آپ ہمت کرکے یہ کالم آخر تک پڑھ لیں تو آپ یقیناً لطف اندوز ہوں گے ۔یہ تقریبا 15 برس پہلے کا واقعہ ہے۔ لاہور کے ایک ایڈووکیٹ جناب یزدانی صاحب (فرضی نام)نے، اپنی گرہ سے پیسے خرچ کر کے ایک کتاب ’’تصویر شوہر‘‘ چھپوائی۔جو ان کے خیال کے مطابق طنزو مزاح کا شاہکار تھی۔ کتاب کے تین چار صفحے پڑھ کر ہی پتہ چل جاتا تھا کہ انہوں نے یہ کتاب چھاپ کر محض اپنا شوق پُورا کیا ہے۔ کتاب کا ایک فقرہ بھی صحیح اُردو میں نہ تھا ۔ طنزومزاح کا دور دور تک کوئی نشان نہ تھا۔ خیالات مبہم اور بے ربط تھے۔زبان کا بگاڑ انتہائی بلند سطحوں کو چھُو رہا تھا۔ گویا یہ کتاب چھاپ کر انھوں نے اپنے شوق کی بلندی اور ذوق کی پستی کا بھر پور مظاہرہ کر ڈالا تھا۔
پھر ہُوا یوں کہ یزدانی صاحب نے اِس محیرالعقول کتاب کی تعارفی تقریب منعقد کروانے کا فیصلہ کیا۔ اِس مقصد کے لئے انہوں نے لاہور کے سب سے مہنگے ہوٹل کا انتخاب کیا۔ پھر بڑے اہتمام سے تقریب میں شرکت کے لئے خوبصورت دعوت نامے چھپوائے اور دوستوں میں تقسیم کئے۔ ان کے یہ دوست زیادہ تر وکلاء صاحبان تھے۔ اُن کے علاوہ چند ادبی دوستوں کو بھی شرکت کے لئے سپیشل درخواست کی گئی۔جن حضرات کو اِس کتاب کے بارے میں اظہار خیال کرنے کی دعوت دی گئی ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
1) ( جناب ضمیر جعفری (2) جناب ظفر اقبال (3) بشریٰ رحمان صاحبہ (4) یہ خاکسار (مظفر بخاری)
غالباّ تقریب کے صدارات بھی جناب ضمیر جعفری کر رہے تھے۔ جن حضرات نے کتاب کے بارے میں اظہار خیال کرنا تھا، ان کی خدمت میں نہایت ادب سے یہ کتاب چند روز پیشتر پیش کر دی گئی تھی تا کہ وُہ کتاب پڑھ کر اپنی آراء قائم کر سکیں۔ اِس سلسلے میں یزدانی صاحب مجھ سے بھی ملے۔ کتاب اور دعوت نامہ دیتے ہوئے فرمایا ’’آپ کا انتخاب اِس وجہ سے کیا گیا ہے کہ آپ طنزومزاح کے بادشاہ ہیں‘‘۔ یہ سُن کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ پہلے میرا ارادہ ان کو خالی چائے پلانے کا تھا۔ ان کی مندرجہ بالا بات سُن کر میں نے گھر سے برآمد ہونے والی تمام اشیائے خوردو نوش چائے کے ساتھ رکھ دیں (سوائے چوہے مار گولیوں کے جو اِس خیال سے رکھ چھوڑی ہیں کہ اللہ جانے کب ضرورت پڑ جائے)۔ بہرحال ہم سب وقتِ مقررہ پر اُس تھری سٹار ہوٹل کے ہال میں پہنچ گئے جہاں بہت سے مہمانانِ گرامی موجودتھے ۔صاحبِ کتاب نے ہم چاروں کو دیکھا تو نہایت احترام سے سٹیج پر بٹھا دیا۔
تقریب شروع ہوئی۔ میرے ساتھ والی خالی کُرسی پر صاحبِ کتاب بیٹھ گئے۔ سٹیج سیکر ٹری نے چند فقرات میں یزدانی صاحب اور اُن کے فن پر تھوڑی سی روشنی ڈالی اور پھر مجھے جونیئر موسٹ تصور کرتے ہوئے اظہارِ خیال کی دعوت دی ۔ کتاب کے بارے میں میرے خیالات تو وُہی تھے جو آپ اوپر پڑھ چکے ہیں لیکن اِس موقعے پر ان خیالات کا اظہار کرنا نہایت نا مناسب اور غیر مہذّب حرکت ہوتی۔بہرحال مجھے کچھ نہ کچھ تو کہناہی تھا۔ چنانچہ مَیں نے یزدانی صاحب کی دوست نوازی، خلُوص، محبت،سادگی اور اِس قسم کی مزید دو چار صفات کا ذکر کیا۔ ان کی کتاب کے بارے میں کہا کہ کتاب میں مو ضوعات کی ورائٹی ہے کتاب کیا ہے شوہروں کا انسائیکلو پیڈیا ہے۔اس میں تقریباّ ہر قسم کے شوہر کو جگہ دی گئی ہے۔ معزز حاضرین !یہ شوہر بھی مزے کی چیز ہوتے ہیں۔ ہمیشہ بیویوں سے چکر چلاتے ہیں۔
یزدانی صاحب نے ان چکروں پر بھر پور روشنی ڈالی ہے۔ یزدانی صاحب کا مشاہدہ کمال کا ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ وُہ اب ’’ تصویرِ بیگم ‘‘ لکھ رہے ہیں۔ یقیناًیہ کتاب بھی’’تصویرِ شوہر‘‘ جیسی ہی ہوگی۔ میں یزدانی صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے کتاب کے بارے میں اظہارِ خیال کرنے کا موقعہ عطا فرمایا وغیرہ وغیرہ۔ اِس دوران میں میری نظر مہمانوں پر پڑی ۔ میں نے دیکھا کہ ضمیر جعفری اور بشریٰ رحمان صاحبہ تو میری باتوں پر مسکرا رہے تھے، لیکن ظفر اقبال ، غصے اور ناگواری کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ انہیں دیکھ کر میرے خیالاتِ عالیہ کا ربط ٹوٹ گیا۔ میں دو چار بے ربط سے جملے کہہ کر اپنی کرسی پر آبیٹھا ۔ میرے بعد بشریٰ رحمان اور ضمیر جعفری مرحوم نے بھی میرے والی تکنیک اختیا ر کی، اور ادھر اُدھر کی باتیں کرکے واپس کرسی پر آن بیٹھے، لیکن انہوں نے کوئی ایسی بات نہ کی جس میں مصنف یا کتاب کی توہین کا پہلو نکلتا ہو۔اب ظفر اقبال کی باری تھی جنھیں یزدانی صاحب نے ( آنے جانے کا کرایہ دے کر) بطور خاص اوکاڑہ سے تشریف لانے کی تکلیف دی تھی ۔ ظفر اقبال صاحب نے اُٹھتے ہوئے ہم تینوں ’’جھوٹوں‘‘ کو غضب آلود نظروں سے دیکھا اور پھر مائیک پر یوں اظہارِ خیال کیا:
’’یہ کتاب جس کا نام’’ تصویر شوہر ’’ہے سراسر بکواس ہے۔ اس میں اردو زبان کا تو بیڑہ ہی غرق کر دیا گیا ہے۔ ایک بھی فقرہ صحیح نہیں۔ مَیں نے بڑی مشکل سے کتاب کے دو صفحے پڑھے ہیں۔ میں پو چھتا ہوں ایسی کتاب کو چھا پنے کی ضرورت ہی کیا تھی ۔ بہتر ہوتا کتاب چھپوانے سے پہلے یزدانی صاحب کسی مستند ادیب سے مشورہ کر لیتے۔ مجھی کو CONSULTکر لیتے۔ مَیں نے کون سی اُن سے کنسل ٹیشن فیس مانگ لینی تھی۔ عجب زمانہ آگیا ہے، جس کسی کے پاس چار پیسے ہوتے ہیں ، وہ کتاب چھپوا کر ادیب بن جاتاہے۔ اِس کتاب کے چند صفحے پڑھ کر میرا تو بلڈ پریشر ہائی ہو گیا تھا۔ دوا کی ڈبل ڈوز لینا پڑی ۔ لا حول و لا قوت۔ کیا کتاب لکھی ہے یزدانی صاحب نے ۔ سبحان اللہ بھئی سبحان اللہ ۔ پہلا صفحہ پڑھ کر میرے منہ سے نکلا
’’ استغفراللہ‘‘ ۔ اُردو زبان کو نہایت بے رحمی سے قتل کیا گیا ہے۔ اِنّا للہِ وَاِنّا الیہِ راجعون۔ بس اتنا ہی کافی ہے اور کیا خاک کہوں۔ وما علینا الا البلاغ ‘‘۔
اُردو اور عربی کی ملی جلی تقریر کے بعد وہ غصے میں کانپتے ہوئے کرسی پر بیٹھنے کی کوشش میں گرتے گرتے بچے۔ بعد ازاں اُن کا غصّہ تب ٹھنڈا ہوا جب ان کی خدمت میں گرما گرم سموسے اور چائے پیش کی گئی (اسے ہومیو پیتھک علاج کہتے ہیں)۔اب آپ یزدانی صاحب کا حال سُن لیجئے۔ ظفر اقبال صاحب بول رہے تھے اور ان کے چہرے کا گہرا سانولا رنگ بغیر کسی کریم کے گورا ہوتا جا رہا تھا۔ تقریروں کے اختتام پر مَیں نے یزدانی صاحب کے پاس جا کر اُن سے تعزیت کی، کیونکہ ان کے اندر کے فنکار کو ظفر اقبال نے قتل کر ڈالا تھا۔ وہ کھسیانی ہنسی ہنس رہے تھے۔ اتنے سارے لوگوں کے سامنے ان کی اور ان کی کتاب کی توہین ان سے برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ مَیں نے کہا یزدانی صاحب! بہت افسوس ہوا۔ اللہ آپ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
مجھے آپ کے غم کا بہت احساس ہے۔۔۔لیکن اب کیا ہو سکتا ہے۔ اللہ کو یہی منظور تھا۔ لیکن یہ بتائیںآپ کو کس حکیم نے مشورہ دیا تھا کہ ظفر اقبال کو مدعُو کریں۔ ’’آبیل مجھے مار ‘‘ والی غلطی آپ نے خود کی ہے ۔یہ سُن کر انھوں نے مجھے یوں دیکھا جیسے سچ مچ ان کا کوئی عزیز فوت ہوگیا ہو۔ یقیناًہو گیا تھا، کیونکہ کتاب بھی تو مصنف کا ’’ بچہ‘‘ ہی ہوتی ہے جِسے ظفر اقبال صاحب نے بڑی بیدردی سے مار ڈالا تھا۔
قارئین کرام! مجھے یہ بتادیں کہ بشریٰ رحمان صاحبہ، ضمیر جعفری مرحوم اور اِس خاکسار کا جھوٹ بہتر تھا کہ ظفر اقبال کا سچ؟
اگر ظفر صاحب خود پڑھیں تو غور فرمائیں کہ ان کا یہ رویہ ادبی ہے؟جس کتاب کا ادب سے دور کا تعلق بھی نہ ہو، اُس کے بارے میں تنقیدی رائے دینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟اور کسی سادہ دل شخص کے معصوم جذبات کو بے دردی سے مجروح کرنا کیا درست ہے؟