’’اسلامی خلافت‘‘ کے انتظامی خدوخال

’’اسلامی خلافت‘‘ کے انتظامی خدوخال
’’اسلامی خلافت‘‘ کے انتظامی خدوخال

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مجوزہ اسلامی ریاست آئی ایس آئی ایس یا صرف آئی ایس کے کسی کارکن سے سوال کریں کہ آپ کی جنگ یا جہاد کا مقصد کیا ہے؟ آپ اس سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ سب کا ایک ہی جواب ہوگا ’’شریعت کی بالادستی اور اسلام کے جھنڈے کی سربلندی‘‘ ابوبکر البغدادی خلیفہ ضرور ہیں، لیکن وہ ’’حاکم‘‘ نہیں ہیں۔ ’’مختار کل‘‘ نہیں ہیں۔ ’’سلطان نہیں ہیں‘‘ اس ریاست کا ڈھانچہ ترتیب دینے والے ایک مذہبی رہنما مردان شاہیر کا کہنا ہے کہ اس تنظیم کی بنیاد تین چیزوں یا اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ ’’شریعت‘‘، ’’فوجی یا عسکری طاقت‘‘ اور’’ذرائع ابلاغ‘‘ اور ان کے نعرے کی بنیاد ’’ابوتمیسّہ‘‘ کے اس اصول پر رکھی گئی ہے۔ اس تنظیم کی بنیاد مقدس کتاب یعنی قرآن پاک کی تعلیمات اور اسلام دشمنوں کے خلاف طاقت کا استعمال۔


اس بحث کے باوجود کہ یہ تنظیم یا خلافت جس اسلام کی بالادستی کے لئے جہاد کر رہی ہے۔ کیا وہی صحیح اسلام ہے ۔ اسلامی ریاست سے تعلق رکھنے والا ہر عہدیدار اور کارکن یقین کامل رکھتا ہے کہ صرف وہی صحیح اسلام کی تعلیمات کے مطابق جدوجہد کررہے ہیں اور یہ جدوجہد قرآن اور حدیث کے مطابق ہے، جس پر شریعت کونسل جو اسلامی ریاست کی انتظامی سربراہ ہے کے احکامات اور ہدایات پر عمل کرتی ہے۔ اس کونسل کی ذمہ داریوں میں خلیفہ ابراہیم (ابوبکر بغدادی) کی تقاریر کی نوک پلک درست کرنا بھی ہے اور سزائیں تجویز کرنا، تبلیغ، مذاکرات (جہاں ضروری ہوں) اور ریاست کے شعبہ ابلاغ کی نگرانی شامل ہے۔ اس کے علاوہ نئے رضا کاروں کی بھرتی ان کی ذہنی اور عسکری تربیت، خلیفہ کو مشورہ دینا کہ جنہیں اغوا کیا جاتا ہے، ان کے بارے میں کیا فیصلہ کیا جائے اوراس پر عملدرآمد کیسے ہو؟


شریعت کونسل نے ہی عراقی سپاہیوں، شیعہ عسکری گروہوں اور James Folleyکے قتل کا حکم جاری کیا تھا، لیکن اگر کہیں زندہ جلانے کا واقعہ ہوا ہے تو وہ اس کی مذمت کرتے ہیں اور ذمہ داروں کو سزا دینے کا فیصلہ بھی کرلیا گیا ہے، کیونکہ دشمنوں کو قتل کرنا تو ٹھیک ہے، ورنہ وہ تمہیں قتل کر دیں گے، لیکن زندہ جلا دینے کا کوئی واقعہ ہوا ہے اور نہ ہی تاریخ اسلام میں اس کا کہیں ذکرکیا گیا ہے۔
مجوزہ خلافت اسلامیہ میں کوئی فیصلہ بھی مرکزی شریعت کونسل ہی کرنے کی مجاز ہوگی۔ اس کے تحت ہر ضلع میں ایک شریعت کونسل ہوگی اور اس علاقے میں وہی فیصلے کرے گی، لیکن سنجیدہ نوعیت اور ہنگامی صورت حال میں مرکزی شریعت کونسل سے رجوع کیا جائے گا۔ مرکزی کونسل کے ماتحت دو مفتی ہوں گے۔ مفتی عراق اور مفتی شام، شیخ ابوعبداللہ الکردی عراق کے مفتی ہیں اور وہ عراق کے مختلف اضلاع کے مقامی انتظامی عہدیداروں سے رابطہ رکھتے ہیں، یعنی مقامی شریعت کونسل سے اور ان سے تجاویز لیتے بھی ہیں اور انہیں احکامات بھی جاری کرتے ہیں۔


ایک رہنما نے بتایا ہے کہ بغدادی خلیفہ ہونے کے باوجود فیصلہ خود کرنے کے مجاز نہیں ہیں، حالانکہ وہ خود شریعت کونسل کے سربراہ بھی ہیں، لیکن وہ شریعت کونسل کے مفتی صاحبان سے مشورہ کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ یہ مفتی صاحبان مذہب کا پورا علم رکھتے ہیں۔ مختلف اسلامی یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ ہیں۔ حافظ قرآن ہیں۔حدیث پر پورا عبور حاصل ہے۔ صحیح بخاری، صحیح مسلم، مسندابنِ حنبل، السریٰ، صرف ایسے عالم فاضل ہی شریعت کونسل کے ارکان بن سکتے ہیں اور ہیں اور اصل طاقت بھی ان ہی کے پاس ہے اور اسی اجتماعی کنٹرول کی وجہ سے شریعت کونسل ایک مضبوط ادارہ ہے۔ اختلاف رائے بھی ہوتا ہے، جس سے فیصلے درست نہ بھی ہوں، مضبوط ہوتے ہیں اور ان پر عمل درآمد ہوتا ہے اختلاف رکھنے کی وجہ سے کئی نامور علماء چھوڑ بھی گئے جن میں ہشام الہاشمی جو ’’داعش کی دنیا‘‘ کتاب کے مصنف بھی ہیں کے مطابق 2014ء میں شیخ سعد، ابو شعیب المصری، ابو سلیمان قطبی، ابوہشام الشامی جیسے نامور علماء شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر کو سلفی موقف کے مطابق ’’خلافت‘‘ سے اختلاف تھا۔ دلچسپ حقیقت ہے کہ لفظ ’’خلافت‘‘ یا ’’نظام خلافت‘‘ سے اختلاف کیوں تھا اور کیا تھا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ابوبکر نے شریعت کونسل کی منظوری کے بغیر ہی ’’خلافت‘‘ کا اعلان کر دیا تھا جو کہ کئی مفتی حضرات کو منظور اور قبول نہیں تھا۔ ابوبکر بغدادی کو کچھ بااثر اور مضبوط علماء نے مقرر کر دیا تھا۔ اختلاف کرنے والوں کے مطابق اس دور میں خلافت ناقابل عمل نظام ہے۔ اس میں شریعت، حدیث اور قرآن کی تعلیمات میں اختلاف کی گنجائش رہتی ہے۔ اس لئے ’’خلافت‘‘ کی بجائے صرف اسلامی بھی ٹھیک تھا(ویسے تو پاکستان بھی اسلامی جمہوریہ ہے،لیکن اللہ پاک رحم فرمائے) بہرحال شاہدی نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ شریعت کونسل ہی صرف فیصلے نہیں کرتی اس میں کئی کمیٹیاں ہیں۔ ریسرچ کمیٹی، فتویٰ کمیٹی، مذہبی تعلیم کے ادارے، مساجد اور عدلیہ کو مضبوط کرنا اور ہر غیر اسلامی ،غیر شرعی حرکت کو روکنا، چاہے بزور روکنا پڑے۔ مذہبی تعلیمات کے ادارے نئے رضاکار بھی بھرتی کرتے ہیں، ان کی جسمانی، مذہبی اور عسکری تربیت بھی کرتے ہیں۔ مسجد اور عدلیہ کی کمیٹی جج اور امام حضرات کی تربیت کرتی ہے جو ایک اسلامی ریاست کے مطابق ہونا چاہیے۔ شریعت کونسل میں کئی قومیتوں کی نمائندگی ہے، لیکن عراقی علماء کا کنٹرول زیادہ موثر ہے۔ ان میں ابوایوب، ابو منظر اور ترکی نہا لی شامل ہیں۔

فتویٰ جاری کرنے سے پہلے حدیث اور جہاد کے بارے میں تحقیقات کی جاتی ہیں۔ شرعی قوانین جو شروع شروع میں اسلامی عدالتوں میں رائج تھے، ان کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ دشمنوں کو خوف زدہ کرنے اور رکھنے کے لئے حکمت عملی تیار کی جاتی ہے۔ اس کے بارے میں اور خصوصاً جہاد کے نقطہ نظر سے تحریک میں سب سے اہم کردار ابوبکر ناجی کی کتاب "Management of Saragery" ادا کرتی ہے، لیکن بہت حد تک معلومات کے عام ہو جانے کے باوجود زیادہ تر تجزیہ نگاروں، بیانات، تشدد کی خبروں، پراپیگنڈہ کے ذریعے سے ہی حاصل ہوتا ہے، لیکن ایک شخص Cole Bunzelنے بڑی کاوش اور تحقیق کے بعد اس نئی اسلامی ریاست کے بارے میں بڑی تفصیل سے ایک جائزہ تیار کیا ہے۔ ان کی تحریر اب تک اسلامی ریاست یا خلافت کے بارے میں سب سے معتبر سمجھی جاتی ہے۔ ان کے مطابق یہ تحریک القاعدہ سے مختلف ذہن، عقائد اور حکمت عملی رکھتی ہے۔ یہ ’’جہادی سلفی عقیدے‘‘ کے حامل لوگ ہیں۔ یہ سنی عقیدے کے انتہا پسند ہیں۔ ان میں صرف عسکری فِکر ہی نہیں، بلکہ یہ دانش مندوں، ویب سائٹ، ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا پیغام عام کرنے والوں کا ایک اجتماع یا گروپ ہے جو آزادی رائے ،آزاد خیالی، روشن خیالی سے بہت ہٹ کر ہیں۔ ماڈرن انداز فکر کے سخت اختلاف رکھتے ہیں، لیکن باقاعدہ تعلیم یافتہ ہیں، یہ تحریک 2006ء میں قائم کی گئی تھی، یہ وہ ہیں جو القاعدہ سے اختلاف کرتے ہوئے ان سے علیحدہ ہوئے تھے۔یہ اسلامی قوانین پر سختی پر عمل کرنے اور شیعہ مسلک کے خلاف ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ تحریک کاغذوں سے ابھر کر ایک ٹھوس حقیقت بن کر دنیا کے سامنے آئی ہے۔ مصنف کے خیال میں ان کے خلاف فوجی کارروائیاں کافی نہیں ہیں۔ ان کے خلاف ایران اور امریکہ کا اتحاد ضروری ہے اور ساتھ ہی مشرق وسطیٰ کی تمام اسلامی ریاستوں کو اس نئی طاقت کا مقابلہ کرنا ہوگا، کیونکہ یہ سوچ یہ فکر ان سب کے وجود کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔یہ اتحاد اس تحریک کو پھر سے صرف کاغذات تک محدود کر دے گا یا کر سکتا ہے۔


نائن الیون کے بعد امریکی انتظامیہ بے شمار الجھنوں کا شکار ہو گئی تھی۔ اس سے پہلے وہ صرف ان خطرات کے بارے میں حکمت عملی ترتیب دیتی رہی جو ظاہر تھے اور سامنے تھے، لیکن اچانک القاعدہ کے سامنے آنے سے وہ نئے سرے سے اپنی حکمت عملی ترتیب دینے پر مجبور ہو گئے، پھر ان کی توجہ اس تنظیم اور اس کے اتحادی گروہوں کی طرف مبذول ہو گئی اور اب یہ ایک نئی تحریک سامنے آئی جو اسلامک سٹیٹ آف عراق اینڈ شام بھی کہلائی اور اب صرف اسلامی ریاست یا خلافت کے نام سے کام کررہی ہے۔ ایک وقت میں یہ دونوں تنظیمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بھی کام کرتی رہی ہیں، لیکن اب ان کی علیحدہ شناخت ہے۔ القاعدہ کی سرگرمیاں اب صرف شمالی افریقہ اور یمن تک محدود ہیں، لیکن داعش پورے مشرق وسطیٰ میں سرگرم عمل ہے۔ داعش آئی ایس آئی ایس کا عسکری ونگ ہے۔ آئی ایس آئی ایس صرف دہشت گرد تنظیم ہے۔یہ ایک منظم طریقے سے اپنے عقیدہ اور اپنی شریعت کے مطابق اسلامی ریاست قائم کرنے کے لئے کام کررہے ہیں۔ القاعدہ کے پاس سینکڑوں یا چند ہزاروں میں لوگ تھے، لیکن آئی ایس آئی ایس کی انتظامیہ کے ساتھ تو 20000سے زیادہ لڑاکا جنگجو ہیں جو واقعی ایک چھوٹی ریاست کی باقاعدہ فوج ہو سکتی ہے۔ عراق اور شام کا ایک بڑا علاقہ ان کے قبضہ میں ہے۔تہہ در تہہ سول انتظامیہ ہے، عدلیہ ہے۔ اپنا مواصلاتی نظام موجود ہے۔ بہترین اسلحہ موجود ہے۔ کمانڈ اینڈ کنٹرول کا ایک باقاعدہ نظام ہے۔ اس لئے القاعدہ کے خلاف کارروائیوں کا انداز آئی ایس آئی ایس کے خلاف کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ایران، سعودی عرب سمیت مسلمان ریاستوں کو امریکہ اور مغرب کی مدد سے یہ لڑائی لڑنا پڑے گی۔

مزید :

کالم -