عوام کی جنت

عوام کی جنت
عوام کی جنت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بہت سے اچھے کام ہو رہے ہیں اور بہت سے رُکے ہوئے کام بھی ہونے لگے ہیں۔ لگتا ہے رفتہ رفتہ گاڑی منزل کی طرف چل پڑی ہے۔ جب گاڑی منزل کی طرف چل پڑے تو منزل آ ہی جاتی ہے۔ اگر گاڑی کی سمت ہی دوسری جانب ہو تو منزل ملتی ہے اور نہ گاڑی کا سراغ ہی ملتا ہے۔ اچھی بات ہے گاڑی کی سمت تو درست ہوئی ہے، سب یہ مان رہے ہیں کہ ہم درست سمت میں اور پورے تعقن کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ اچھے کاموں میں رکاوٹیں ڈالنے کی بدعت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ کہیں کہیں اب بھی فروعی قسم کے اعتراضات دیکھنے کو ملتے ہیں، لیکن ان کی کوئی قانونی یا آئینی حیثیت نہیں ہوتی۔ اب حقیقتوں کو تسیلم کیا جا رہا ہے اور اس کے کئی شواہد بھی سامنے آ چکے ہیں، مثلاً ابھی تک ملک بھر کی 43کنٹونمنٹس میں رہنے والے کروڑوں لوگوں کو یہ یقین ہی نہیں آ رہا کہ 25اپریل کو وہاں بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ پندرہ برسوں سے اپنے حق نمائندگی کو ترستے ہوئے یہ سویلین ووٹرز ابھی تک حیران ہیں کہ انتخابات کی اجازت کیسے دے دی گئی ہے۔ کنٹونمنٹس کے معاملات ہمیشہ فوج کی نگرانی میں چلتے ہیں۔ ایک عام تاثر یہ تھا کہ آرمی افسران اپنے اختیارات میں سویلین کی شرکت نہیں چاہتے اس لئے وہ کسی صورت بلدیاتی انتخابات نہیں ہونے دیں گے، مگر بدلی ہوئی فضا میں سب سے پہلے آرمی اسٹیبلشمنٹ نے ہی یہ فیصلہ کیا کہ بلدیاتی انتخابات ہونے چاہئیں، حالانکہ صوبائی حکومتیں ابھی تک انتخابات کرانے کے ضمن میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہیں اور سندھ اسمبلی کے سپیکر نے یہ نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ بلدیاتی انتخابات سے پہلے مردم شماری ضروری ہے، گویا وہ اب بھی بلدیاتی انتخابات کرانے پر آمادہ نہیں، حالانکہ سپریم کورٹ واضح طور پر حکم بھی دے چکی ہے اور شیڈول بھی۔ ان حالات میں جب کنٹونمنٹس کے بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں تو صاف لگتا ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اس حوالے سے بھی اولیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اب یقیناًصوبوں کو بھی انتخابات کرانے پڑیں گے، کیونکہ کنٹونمنٹس جیسے حساس علاقوں میں اگر انتخابات ہو سکتے ہیں تو باقی جگہوں پر کیوں نہیں ہو سکتے۔


بدلتے ہوئے رویوں اور اچھے کاموں کی بات ہو رہی ہے تو مجھے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی حال ہی میں کہی گئی ایک بات یادآ رہی ہے۔ انہوں نے وکلاء پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے احتجاج کے لئے ہڑتال کا راستہ نہ اختیار کریں،بلکہ ٹوکن سٹرائیک کے ذریعے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا کریں۔ خود وکلاء تنظیموں نے بھی اس پر آمادگی کا اظہار کیا ہے اور پچھلے چند ہفتوں سے اس پر عمل بھی ہو رہا ہے ۔ تیز رفتار انصاف کے لئے ضروری ہے کہ مقدمات وقت پر ختم ہوں اور ان کا بلاوجہ التواء نہ ہو سکے۔ ہمارے ہاں یہ تاثر عام ہے کہ وکلاء صاحبان غیر ضروری تاریخیں لے کر مقدمات کو طول دیتے ہیں۔ دوسری طرف آئے روز کی ہڑتالیں بھی عدالتوں کا وقت ضائع کرتی ہیں اور لاکھوں سائلین دور دراز کے شہروں سے کچہریوں میں پہنچتے ہیں تو انہیں عدالتوں سے پیشی کے سوا اور کچھ بھی نہیں ملتا۔ وکلاء برادری کو یہ بات میڈیا سمجھا سکتا تھا اور نہ انتظامیہ یہ کام اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان ہی کر سکتے تھے اور انہوں نے بار ایسوسی ایشنوں کی اس طرف توجہ دلا کر بڑا احسان کیا ہے۔ یہ کام اگر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کر جاتے تو بہتر تھا، کیونکہ وکلاء ان کی بات سنتے بھی تھے اور مان بھی لیتے تھے، مگر چونکہ انہوں نے وکلاء کو اپنی سیاسی طاقت کے طور پر استعمال کیا اور ان کی ہڑتالوں نیز عدالتوں کے بائیکاٹ کو نظریہ ضرورت سمجھ کر قبول کیا، اس لئے یہ بدعت مزید مضبوط ہو گئی۔ اب بدلے ہوئے حالات میں خود بار اور بنچ میں یہ احساس پایا جا رہا ہے کہ اس قسم کی صورت حال سے عوام کا نظامِ انصاف پر سے اعتماد اٹھ رہا ہے۔ ایک دن کی ہڑتال سے ہزاروں کیسز التواء کا شکار ہو جاتے ہیں اور لوگوں کو مزید کئی ماہ تک انصاف کی سولی پر لٹکنا پڑتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ نظریہ اب پروان چڑھے گا کہ احتجاج کے لئے ہڑتال کا آپشن غیر مناسب ہے، اس کے لئے دیگر ذرائع اختیار کئے جانے چاہئیں۔

ہمیں چونکہ سال ہا سال سے تاریک پہلو ہی دیکھنے کی عادت پڑ چکی ہے، اس لئے بہتری کے واضح حالات میں بھی ہم کوئی نہ کوئی منفی پہلو نکال لیتے ہیں۔ مَیں کل ریٹائرڈ جنرل حمید گل کی ایک ٹی وی چینل پر باتیں سن رہا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ آج بھی وزیراعظم محمد نواز شریف نے فوج کو دل سے قبول نہیں کیا۔ انہوں نے یہ تک کہہ دیا کہ سات برسوں کے بعد 23مارچ کو مسلح افواج کی پریڈ بھی وزیراعظم کو ایک آنکھ نہیں بھائی اور تمام سیاستدان فوج کی اس پر اعتماد واپسی کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ میرے لئے ان کے یہ خیالات بڑی حیرانی بلکہ پریشانی کا باعث تھے۔ کیا ایک ایسے موقع پر جب ملک میں قومی ہم آہنگی کی فضا ہے، اس قسم کی باتیں زیب دیتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ وزیراعظم محمد نوازشریف کیوں یہ چاہیں گے پاک فوج سے ان کی بگڑے۔ کیا انہیں اس بات کا ادراک نہیں کہ اکیلی سول حکومت ملک کے پیچ در پیچ مسائل حل نہیں کر سکتی۔ کیا دہشت گردی کی موجودگی میں نوازشریف قوم کو کچھ ڈلیور کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے ایسا سوچنا بھی حماقت ہے، کیونکہ ایسی فضا میں حکومت کا ہر اچھا کام دہشت گردی کے خوف میں دب کر رہ جاتا ہے۔مَیں سمجھتا ہوں فوج اور حکومت میں مثالی ہم آہنگی نہ ہوتی تو اتنے گھمبیر اور بڑے بڑے مسائل کبھی حل نہ ہوتے۔ ان دونوں کے درمیان نفاق کا فائدہ ہی تو ملک دشمنوں نے ہمیشہ اٹھایا ہے، اب اگر انہیں ناکامی ہو رہی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ فوج اور حکومت ایک دوسرے کی ضرورت کو محسوس کرکے آگے بڑھ رہی ہیں۔
پاکستان کو جن دیرینہ مسائل کا سامنا رہا ہے، انہیں حل کرنے کی سوچ پیدا ہو رہی ہے۔ اس سوچ کے نتیجے میں یہ بھی نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہوگا۔ یہ ناممکن ہے کہ فوج اس پہلو سے صرف نظر کرے۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ خود سیاسی حکومت اس کی راہ میں رکاوٹ بن جائے۔ ریاستی طاقت کا جہاں بھی منفی اور اپنی ذاتی خواہشات و مفادات کے لئے استعمال ہو رہا ہے، وہاں حالات خود بتا دیتے ہیں کہ ان میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ اس لئے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ کرپشن جس نے اوپر سے لے کر نیچے تک پورے نظام کو گدلا کر رکھا ہو، برقرار رہے اور ملک کے حالات بھی ٹھیک ہو جائیں، مثلاً کوئی بتائے کہ ایف آئی اے، ایف بی آر، احتساب بیورو، پولیس اور نظام انصاف کو بہتر بنائے بغیر پاکستان کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ یہی وہ ادارے ہیں، جنہیں ملک میں ایک بہتر ماحول پیدا کرنا ہے، جو ٹھیک ہوجائیں تو ملک سے کرپشن اور ظلم و ستم ختم ہو سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جو لہر چلی ہے، وہ ان تک بھی ضرور پہنچے گی اور بالآخر یہ بھی مجبور ہو جائیں گے کہ اس تبدیلی کا حصہ بنیں جو اب درو بام تک پہنچ گئی ہے۔ اس تبدیلی کے ساتھ ہم رکاب نہ ہونے والے عوام کے غیظ و غضب کا شکار ہوں گے۔ اب اسٹیٹس کو برقرار نہیں رہ سکتا، یہ نظام جسے قاضی حسین احمد نے اپنی مہم کے دوران بدبو دار اور گلاسڑا قرار دیا تھا، آخری سانسیں لے رہاہے۔ اس کا جانا ٹھہر چکا ہے۔ عسکری و سول قیادت کا دہشت گردی کے خاتمے کے بعد اگلا بڑا ہدف یہی استحصالی نظام ہونا چاہیے جو کرپشن اور ظلم کے سہارے کھڑا ہے اور جس نے وطن عزیز کو طاقتور مافیاؤں کی جنت بنایا ہوا ہے، اب اس ملک کو عوام کے لئے جنت بننا ہے اور یہ دن اب زیادہ دور نہیں۔

مزید :

کالم -