نئی تجارتی پالیسی خواہشات اور مفروضات کا مجموعہ ہے،میاں زاہد حسین
کراچی(اکنامک رپورٹر)پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر، بزنس مین پینل کے سینیئر وائس چےئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ ٹریڈ پالیسی خواہشات اور مفروضات کا مجموعہ ہے۔2018 تک برآمدات میں گیارہ ارب ڈالر کا اضافہ موجودہ نااہل اداروں کے ذریعے ناممکن ہے کیونکہ اسے بڑھاناتو ایک طرف برقرار رکھنے میں ناکامی ہو رہی ہے۔برآمدات کا ہدف درست ہے مگر حقیقت پسندانہ نہیں ہدف کے حصول کا واضح روڈ میپ نہیں دیا گیا۔ حکومت کوہدف پرعمل کیلیئے ٹی ڈیپ کی ری اسٹرکچرنگ کرنا ہو گی جسکے لیئے سخت اقدامات درکار ہونگے۔ میاں زاہد حسین نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ ترقی کیلئے اعلانات نہیں بلکہ طویل المعیاد منصوبہ بندی ، حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ توانائی بحران، گیس کی درآمد میں رکاوٹ، ٹیکس کا پیچیدہ طریقہ کار اور ریفنڈ پھنسا کر رکھنے کی پالیسی کے ہوتے ہوئے برآمدات میں اضافہ ناممکن ہے بلکہ یہ گرتی جائینگی۔ تجارتی پالیسی میں جہاں بہت سے زمینی حقائق کو نظر انداز کیا گیا ہے وہیں ویلیو ایڈیشن، تحقیق، تنوع، تخلیق اورجدت پر زور دیا گیا ہے جو انتہائی خوش آئند امر ہے کیونکہ اس سے خام مال کے بجائے ویلیو ایڈڈ اشیاء کی برآمد بڑھے گی۔کھانے پینے کی چیزوں سمیت کئی درآمدی اشیاء سستی ہو جائیں گی جس سے انکی درآمد میں اضافہ ممکن ہے عام آدمی کیلیئے بہتر جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر کیلیئے ٹھیک نہیں۔تجارتی پالیسی میں روائیتی منڈیوں کے ساتھ خطے کے ممالک سے تجارت پر زور دیا گیا ہے تاہم اسکا فائدہ اسی وقت ہو گا جب غیر ملکی مشنز میں سفارش کے بجائے میر ٹ پر تعیناتیاں کی جائیں۔اسکے علاوہ ایرانی صدر کے دورے سے باہمی تجارت کے سلسلے میں اہم فیصلوں کی امید ظاہر کی گئی ہے جو گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔
میاں زاہد حسین نے کہا کہ پاک بھارت تجارت کو مذاکرات کی بحالی سے مشروط کیا گیا ہے جبکہ تجارت کوسیاست سے الگ رکھنے کا تجربہ کیا جاتا تو بہتر رہتا تاکہ تجارتی حجم بڑھتا۔ٹریڈ پالیسی میں تاجروں، صنعتکاروں، کاشتکاروں اور بعض دیگر شعبوں کو مراعات دی گئی ہیں مگر ان پر عمل درآمد بھی یقینی بنایا جائے تاکہ مثبت نتائج سامنے آ سکیں۔ درآمدات اور برآمدات میں توازن پیدا کیئے بغیر ملک ہمیشہ دوسروں کا محتاج رہیگا۔