حافظ سعید اور سراج الحق کی جوڑی۔ نہ نئی ۔ نہ پرانی؟
حافظ سعید اور سراج الحق کے درمیان قربت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ ویسے تو حافظ سعید اور جماعت اسلامی کے درمیان قربت نئی نہیں ہے۔ لیکن سراج الحق کے امارت سنبھالنے کے بعد اس قربت میں کمی ہوئی تھی۔ لیکن اب دوبارہ فاصلے کم ہو گئے ہیں۔ جماعت اسلامی اور حافظ سعید کا تعلق بھی عجیب ہے۔ کشمیر ۔ بھارت۔ امریکہ۔ سمیت اہم قومی اور بین الاقوامی معاملات پر دونوں کا موقف کافی حد تک ایک ہے۔ اگر کوئی فرق ہے تو وہ اس قدر باریک ہے کہ عام آدمی کو سمجھ آنے ولا نہیں۔ لیکن اس کے باوجود دونوں کے درمیان قربت اور فاصلوں کا عجیب کھیل جا ری رہتا ہے۔ حالانکہ حافظ سعید کی دیگر دینی جماعتوں کے ساتھ یہ نظریاتی اور ذہنی قربت نہیں ہے۔ اس ضمن میں جے یو آئی (ف) مولانا فضل الر حمٰن اور حافظ سعید کے درمیان بہت اختلافات ہیں۔ جس کا حافظ سعید کئی بار برملا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ اسی طرح دیگر دینی جماعتوں کے ساتھ بھی اختلافات موجود ہیں۔
اگر کشمیر کو ہی لے لیں تو حافظ سعید اور جماعت اسلامی دونوں کشمیر میں جاری عسکری جدو جہد کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ اور اس حمایت میں کئی دفعہ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ اور حکومت سے بھی لڑ جاتے ہیں۔ دونوں ہی خو د کوکشمیری شہدا کے خون کا وارث سمجھتے ہیں۔ اگر آپ منصورہ چلے جائیں تو کشمیری نوجوان شہدا کے نام کا بورڈ آپ کو سب سے پہلے خوش آمدید کہتا ہے۔ جبکہ حافظ سعید بھی کشمیر میں جاری عسکری جدو جہد سے خود کو الگ نہیں سمجھتے۔ اسی طرح بھارت سے مذاکرات کو ہی لے لیں تو میاں نواز شریف کے سابقہ دور میں جب بھارتی وزیر اعظم واجپائی لاہور آئے تھے تو جماعت اسلامی نے شدید احتجاج کیا تھا۔ اور اس کے سینکڑوں کارکن اور تمام مرکزی قیادت گرفتار ہو گئی تھی۔ حافظ سعید بھی کشمیر کا مسئلہ حل ہونے تک بھارت کے ساتھ کسی بھی قسم کی دوستی کے حق میں نہیں۔ امریکہ کی افغان پالیسی ہو یا نیا ورلڈ آرڈر دونوں کا موقف ایک ہی ہے۔
اسی لئے پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں جب امریکہ کی نیٹو سپلائی بند کی گئی تھی۔اور بھارت کے ساتھ تعلقات کا معاملہ بھی متنازعہ ہو گیا تھا ۔ تب بھی جماعت اسلامی اور حافظ سعید نے مل کر دفاع پاکستان کونسل کے نام سے ایک اتحاد بنایا۔ اس اتحاد میں مولانا سمیع الحق بھی آگئے ، چند لیڈر اور بھی آگئے۔ لیکن بڑی جماعتیں حافظ سعید اور جماعت اسلامی ہی تھیں۔ باقی سب بڑے نام ہی تھے۔ اس اتحاد نے قابل ذکر کامیابی حا صل کی۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس اتحاد کی کامیابی نے ہی اس وقت کے جماعت اسلامی کے امیر جناب سید منور حسن کے ذہن میں یہ خیال پیدا کر دیا کہ اگر دفاع پاکستان کونسل کو ہی انتخابی اتحاد بنا لیا جائے تو متحدہ مجلس عمل کی ضرورت نہ ہو گی۔ اور وہ مقاصد جو متحدہ مجلس عمل سے حاصل کرنے کی خواہش کی جاتی ہے وہ دفاع پاکستان کونسل سے بھی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن تب حافظ سعید نے دفاع پاکستان کونسل کو انتخابی اتحاد بنانے سے انکار کر دیا۔ کیونکہ حافظ سعید انتخابی سیاست میں حصہ لینے سے انکار کر چکے تھے۔کچھ تجزیہ نگاروں کی یہ بھی رائے ہے کہ حافظ سعید کا میاں نواز شریف کے لئے نرم گوشہ تھا۔ اور وہ دینی جماعتوں کا ایک مضبوط اتحاد بنا کر میاں نواز شریف کے لئے مشکلات نہیں پیدا کرنا چاہتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے سید منور حسن کو بھی میاں نواز شریف کے ساتھ چلنے کا ہی مشورہ دیا۔
اس طرع گزشتہ انتخابات کے موقع پر دفاع پاکستان کونسل بھی ٹوٹ گئی۔ اور آج تک دوبارہ بحال نہیں ہو سکی ہے۔ گزشتہ انتخابات کے نتائج کی وجہ سے ہی جماعت اسلامی میں قیادت تبدیل ہوئی اور سید منور حسن کی جگہ سراج الحق منتخب ہو گئے۔ اور سراج الحق کی پالیسی فرق تھی۔ سراج الحق کا نرم گوشہ متحدہ مجلس عمل کے لئے ہے۔ اور وہ منور حسن نہیں ہیں۔
اس لئے حافظ سعید کا جماعت اسلامی کی کرپشن کے خلاف تحریک کی حمایت کا اعلان ایک نئی صورتحال ہے۔ ان کی جانب سے یہ اعلان یقیناًجماعت اسلامی کے اندر حافظ سعید کے لئے قربت پیدا کرے گا۔ لیکن حافظ سعید کو یہ بھی سوچنا ہو گا کہ وہ انتخابی سیاست میں حصہ لینے والی جماعتوں کے قریب آتے ہیں۔ ان کے ساتھ مل کر اہم قومی ایشوز پر سیاست کرتے ہیں۔ اجلاس کرتے ہیں۔ احتجاج کرتے ہیں۔ لیکن عین انتخابات کے وقت یہ کہہ کر غائب ہو جاتے ہیں کہ وہ انتخابی سیاست نہیں کرتے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے یہ بہت مشکل ہے کہ وہ سارا وقت عشق تو حافظ سعید کے ساتھ کرے۔ نغمے تو حافظ سعید کے ساتھ گائے۔ سٹیج تو حافظ سعید کے ساتھ گرمائے ۔ لیکن پھر جب انتخابات آجائیں تو یک دم حافظ سعید کو طلاق دیکر کسی اور سے نکاح کر لے۔ حاٖفظ صاحب تو سادہ آدمی ہیں ۔ وہ تو چاہتے ہیں صنم ہم تو ڈوبے ہیں تمھیں بھی لے ڈوبیں گے۔
حافظ سعید آج ایک نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ دنیا ان کے پیچھے ہے۔ عالمی طاقتوں کے دباؤ میں حکومت بھی گھٹنے ٹیک رہی ہے۔ ایسے میں حافظ سعید سیاسی تنہائی کا بھی شکار ہیں۔ پارلیمنٹ میں جماعتوں میں سے کوئی بھی ان کے لئے کلمہ حق کہنے کو تیار نہیں۔ اس لئے اگر حافظ سعید نے سیاسی اور سماجی طور پر زندہ رہنا ہے۔ تو انہیں کسی ایک ایسے اتحاد کا حصہ بننا چاہئے جو پارلیمنٹ میں موجود ہو۔ چاہے وہ خود پارلیمنٹ میں نہ بھی موجود ہوں۔ ایسے میں ایک شکل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ متحدہ مجلس عمل میں شامل ہو جائیں۔ چاہے وہ اور ان کی جماعت انتخابات میں حصہ نہ لیں۔ لیکن متحدہ مجلس عمل کی سپریم کونسل میں شامل ہوں ۔ تاکہ ان کی بات میں وزن بڑھ جائے۔ بہر حال سراج الحق اور حافظ سعید کی جوڑی ۔ آگے چل کر کیاشکل اختیار کرتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن حافظ سعید کی جانب سے جماعت اسلامی کی کر پشن کے خلاف تحریک کی حمایت سے جماعت اسلامی کو ضرور فائدہ ہو گا۔