برسلز، دھماکے، مسلمانوں پر سختی، ماسکو ایئر پورٹ پر پاکستانی روک لئے گئے

برسلز، دھماکے، مسلمانوں پر سختی، ماسکو ایئر پورٹ پر پاکستانی روک لئے گئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ:چودھری خادم حسین:

ہم یہاں دہشت گردی سے نبرد آزما ہیں۔ دہشت گرد ہمیں اتنا موقع بھی نہیں دے رہے کہ بیٹھ کر حالات پر غور کے بعد ایسا لائحہ عمل مرتب کیا جائے کہ نہ صرف ہم اندرون ملک بلکہ عالمی سطح پر بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے متفقہ طریق کار ہی وضع کرا سکیں بلکہ دہشت گردی کی وجوہ تلاش کر کے ان کو دور کرنے کی سعی کی جا سکے اس کے لئے ضروری ہے کہ تنگ نظری سے گریز کرتے ہوئے ڈائیلاگ کا سلسلہ شروع کی جائے۔
برسلز میں دہشت گردی ہوئی اس سے پہلے پیرس میں اسی نوعیت کی واردات ہو چکی ہے۔ دونوں میں مماثلت بھی تلاش کرلی گئی ہے اور ان وارداتوں میں مقامی لوگ ہی ملوث پائے گئے جو اتفاق سے مسلمان ہیں۔ ادھر پاکستان میں در اندازی کا سلسلہ بھی جاری ہے گزشتہ روز بھی پشاور میں شہادتیں ہوئی ہیں۔ متاثر بھی مسلمان اور مسلمان ممالک ہیں اور الزام بھی مسلمانوں پر ہی آتا ہے یہ قابل غور ہے۔
برسلز دھماکوں کے بعد بھی یورپ اور امریکہ نے پھر سے مسلمانوں ہی کے خلاف گھیرا تنگ کیا اور کارروائی شروع کر دی ہے۔ اگرچہ ملزم تلاش کر لئے گئے لیکن سہولت کاروں اور ایسے لوگوں کی تنظیم کو پکڑنے اور توڑنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے تو پھر تلاش اور تحقیق بھی شروع کر دی جاتی ہے اس کا ایک نمونہ تو یہ ہے کہ پاکستان سے جانے والے تاجر جو سیاحتی گروپ کی حیثیت سے گئے ان کو ماسکو ایئرپورٹ پر روک کر محبوس کیا گیا اور تفتیش کی گئی ان 180 لوگوں کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا گیا اور پوچھ گچھ ہوئی۔
نائن الیون کے بعد سے اب تک دنیا بھر میں دہشت گردی ہو رہی ہے اور دہشت گردی ختم کرنے کی جنگ بھی جاری ہے پاکستان خصوصی طور پر باقاعدہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہمارے علماء کرام نے گو فتوے دیئے اور دہشت گردی کو حرام اور خلاف اسلام قرار دیا لیکن یہاں بھی مائنڈسیٹ کو تبدیل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی نہ کوئی تجویز بنائی گئی۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی پر بہت گفتگو ہوئی اور وجوہ تلاش کرنے کی جدوجہد والے بزرگوں نے ہی اپنی آرا کا اظہار کیا ان دنوں یہ بات بھی کہی گئی کہ دہشت گردی کی تعریف لازمی ہے۔ دنیا میں تو ریاستی دہشت گردی بھی ہو رہی ہے۔ خصوصاً کشمیر میں غاصبانہ قبضہ والی افواج مسلسل ظلم ڈھا رہی ہیں۔ تب کہا گیا کہ دہشت گردی کو ختم کیا جائے گا۔ عراق اور افغانستان ہمارے سامنے ہیں۔ یوں یہ معاملہ پھیلتا چلا گیا۔ کئی تنظیمیں بنیں اور سامنے آئیں۔ داعش بھی انہی میں سے ایک ہے۔ اب بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ تنگ نظری کو ترک کر کے ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے یہ عالمی سطح پر ہونا چاہئے کہ مذاکرات سے راہیں کھلتی ہیں۔
تازہ ترین اطلاع ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے بڑے صاحبزادے سلیمان خان نے جو اپنے بھائی کے ساتھ والدہ کے پاس لندن میں رہتا ہے، اپنے ماموں زیگ گولڈ سمتھ کی کمپیئن شروع کی ۔یوں صاحبزادے نے سیاست میں عملی قدم رکھ دیا لیکن اپنے والد نہیں والدہ کے ملک سے آغاز کیا ہے۔ ویسے عمران خان کا یہ خاندان دہری شہریت کا حامل ہے۔ دونوں بیٹے دھرنا کنٹینر پر آئے، نظارہ کیا اور والد کے گھر میں رہ کر پارٹی کے متعدد اجلاسوں کی رو داد بھی دیکھی یہاں ان نوجوانوں کے ساتھ دہرا مسئلہ ہوگا، ایک تو عمران خان بہت زور سے موروثی سیاست کے خلاف ارشادات فرماتے ہیں۔ دوسرے صاحبزادگان اردو سے بھی واقف نہیں اور نہ ہی ان کو مشرقی اور ملکی اقدار کا زیادہ علم ہوگا، کیونکہ ان کی پرورش انگلستان میں ہوئی ہے، اگرچہ کہا یہ جاتا ہے کہ ان کو قرآن شریف بھی پڑھایا گیا، اب اس وقت کا انتظار کرنا ہوگا جب دونوں صاحبزادے پاکستان میں آکر والد کا ساتھ دیں۔ کیا وہ ایسا کریں گے؟ یہ ایک سوال ہے، ویسے ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں مخالفین کو ایک اور شغل مل گیا اور وہ اس پر بات کرتے چلے جا رہے ہیں۔

مزید :

تجزیہ -