پنتالیسویں قسط۔ ۔ ۔ سید نوشہ گنج بخش ، شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی،سلسلہ و خانواد ۂ نوشاہیہ کی خدمات

پنتالیسویں قسط۔ ۔ ۔ سید نوشہ گنج بخش ، شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی ...
پنتالیسویں قسط۔ ۔ ۔ سید نوشہ گنج بخش ، شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی،سلسلہ و خانواد ۂ نوشاہیہ کی خدمات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حدیث شریف میں آتا ہے کہ السخی حبیب اللہ یعنی سخاوت کرنیوالا اللہ تعالٰی کا حبیب ہوتا ہے۔ حضرت محدثِ اعظم سرہ دیگر خوبیوں کے ساتھ ساتھ سخاوت میں بھی یکتائے زمانہ تھے۔ حضرت مرزا احمد بیگ لاہوری لکھتے ہیں۔
شاہ ہاشم کہ بود دریا دل
ختم از جودِ او شدست خجل
زیں سبب شد خطاب او دریا
کہ تشددرسخا کسے ہمتا

44 ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یعنی سید محمد ہاشم کی سخاوت حاتم سے بڑھ کر تھی۔ آپ کا دریا دل کا خطاب اسی وجہ سے ہے کہ سخاوت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔
مولوی محمد اشرف منچری لکھتے ہیں
بجود کرم بود دریائے دل
کہ حاتم از سخائش خجل
یعنی حضرت سید محمد ہاشم شاہ جودوکرم کی وجہ سے دریا دل تھے اور حاتم ان کی سخاوت کے سامنے شرمندہ تھا۔
سید محمد ہاشم دریا دل نوشاہی بے حد مہمان نواز تھے۔ حضرت مجدد اعظم نوشہ گنج بخش نے جب ان کو اپنا ولی عہد نامزد کیا تو آپ نے انہیں مہمان نوازی خاص طور پر وصیت فرمائی تھی۔
علامہ پیر کمال لاہوری لکھتے ہیں
بیامد نزد حضرت مہرباں شد
کہ خواہی کرد خدمت برزباں شد
بگفتا از توجہ ذاتِ عالی
نخواہدرفت کس از فیض خالی
درون خانہ بہرنان سازی
تنور میکنی ہم خلق راضی
بگفتادست مردم خود بشوئی
طبق دادن بدیگر کس نگوئی
کنی خدمات عالم ہر کسے را
نرانی از درخود ہرخسے را
بجاآورد تعظیم وہم اداب
کہ از من باز خواہد گشت صدیاب
بفرمودند روتنور درساز
گرم کن کرم کن برخلق درہ باز
ازاں ساعت ہزاراں حلق ناں خوار
شدہ تاحال ہم از قوت جاں خوار
ان اشعار کا خلاصہ یہ ہے کہ مجدد اعظم نے سید محمد ہاشم شاہ دریا دل کو ولی عہد خلافت نامزد کرنے کیلئے طلب فرمایا اور جب وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورؒ نے کمال شفقت اور مہربانی سے ارشاد فرمایا ’’ اے فرزند!اگر میں تجھے اپنا جانشین مقرر کردوں تو کیا تم خدمتِ خلق کے فرائضہ کو ادا کرو گے؟‘‘
حضرت نوشہ گنج بخش کا یہ ارشاد گرامی سن کر جناب دریا دل نے التماس کی ’’ حضور کی توجہ اور برکت سے درگاہ عالیہ میں آنیوالے افراد کی حتٰی الامکان پوری پوری خدمت کروں گا اور کوئی شخص فیض سے محروم نہ جائے گا‘‘
حضرت سیدنوشہ گنج بخشؒ نے یہ جواب سن کر جناب دریا دل کو وصیت فرمائی ’’ اے فرزند ارجمند!مہمانوں اور مسافروں کے ہاتھ خود دھلوانا اور ان کے آگے کھانا اپنے ہاتھ سے رکھنا۔ روٹیاں پکانے کیلئے تنور کا انتظار کرو تاکہ خلقِ خدا کو کھانا کھلا کر راضی کر سکو ۔اے میرے بیٹے جو شخص بھی تمہارے پاس آئے اس کی خدمت کرنا اور کسی کو اپنے دروازے سے خالی نہ بھیجنا‘‘
سید محمد ہاشمؒ نے یہ سن کر حضور کی قدم بوسی کی اورا اس بات سے خوش ہوئے کہ حضور کی توجہ سے مجھ سے برکت کے سینکڑوں دروازے کھلیں گے۔
حضرت مجدد اعظم ان کے انکسار سے خوش ہوئے اور فرمایا کہ ’’جاؤ تنور گرم کرو اور مخلوقِ خدا کیلئے بخشش کے دروازے کھول دو۔‘‘
حضرت سیدمحمد ہاشم شاہ دریا دلؒ نے حضرت نوشہ پیر کی اس وصیت پر نہایت پابندی سے عمل کیا اور مسند خلافت پر متمکن ہوتے ہی لنگر کے انتظام کو اس قدر وسعت دی کہ روزانہ سینکڑوں آدمی ان کے دستر خوان پر کھانا کھاتے تھے اور آپ بنفس نفیس سب کے آگے اپنے ہاتھ سے کھانا رکھتے تھے۔ واقف،ناواقف، مرید، غیر مرید امیر اور غریب سب کے ساتھ آپؒ حسنِ سلوک سے پیش آتے تھے۔مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کیلئے ان کے لنگر میں کھانے پینے کا مناسب انتظام موجود تھا۔
حضرت سیّدمحمد ہاشم شاہ دریا دل نوشاہی نہایت خوبصورت اور وجیہہ تھے۔ آپؒ کا چہرہ اقدس بڑا نورانی تھا۔ اکثر غیر مسلم آپ کو دیکھتے ہی مسلمان ہو جاتے تھے۔
آپ کا رنگ گندمی سبزی مائل تھا۔ ڈاڑھی مبارک مشت سے تھوڑی زیادہ تھی۔ آپؒ کو سفید رنگ کا لباس بڑا پسند تھا۔ تہبند اور طریزوں والا کرتہ استعمال کرتے تھے۔ سر پر سفید اور بعض اوقات سبز رنگ کی دستار باندھتے تھے۔ موسم گرما میں نوشاہی رنگ کی چادر اور موسم سرما میں اونی بھورا رکھنا آپؒ کا معمول تھا۔ آپؒ ہمیشہ ہاتھ میں عصا رکھتے اور راستہ میں چلتے وقت اپنی نظر کو نیچی رکھتے تھے۔

جاری ہے۔ چھیالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں