پولیس مقابلے؟ حقائق!

پولیس مقابلے؟ حقائق!
پولیس مقابلے؟ حقائق!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نصف صدی گزری، بلکہ دو تین سال اور بھی ہوں گے، جب موجودہ پاکستان، مغربی پاکستان اور پورے ملک (تب متحد تھا) پر جنرل ایوب خان حکمران تھے جنہوں نے 64ء میں (مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح سے صدارتی انتخاب جیتا اور ملک میں صدارتی نظام رائج تھا(مادر ملت کو کس طرح ہرایا گیا اور بنیادی جمہوریت والے موری ممبروں کے ساتھ کیا کیا گیا۔ یہ تاریخ کا حصہ ہے۔ بہت حضرات بیان کر چکے۔ ہم نے بھی جستہ جستہ ذکر کیا ہوا ہے) جنگ ستمبر 65کے بعد والے سالوں کا ذکر ہے، جنرل (ر) موسیٰ (مرحوم) کو فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد مغربی پاکستان کا گورنر بنایا گیا، وہ اس عہدہ پر کئی سال رہے۔1966ء کا سال گزرا اور 1967ء آ گیا، جب لاہور اور بعض دوسرے شہروں میں کچھ جرائم ہوئے اور شور مچ گیا کہ کسی کی عزت محفوظ نہیں، یہ وہ دور تھا جب پگڑی اچھلتی تھی اور شہروں میں آج جیسے (تعداد میں بھی) جرائم تو نہیں ہوتے تھے تاہم علاقائی طور پر ’’دادا، حضرات‘‘ کی دادا گیری چلتی اور ان کے خلاف کبھی کوئی شہادت بھی نہیں دیتا تھا، چنانچہ بعض سنگین نوعیت کے جرائم ہوئے۔ ان میں ڈکیتی اور مجرمانہ فعل کے واقعات بھی شامل تھے۔ ان دنوں صرف پرنٹ میڈیا تھا، اسی کے ذریعے عوامی آواز بلند ہوئی اور ایوان اقتدار تک پہنچی۔


ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ جب پرنٹ میڈیا میں ہاہاکار مچی تب صدر جنرل ایوب نے باقاعدہ اجلاس بلا کر بریفنگ لی اور ان جرائم پر قابو پانے کی ہدایت کی۔ اس پر جب جنرل موسیٰ نے پولیس حکام سے دریافت کیا تو ان کو بتایا گیاکہ پولیس تو اپنا کام کرتی ہے۔ کئی ملزم گرفتار کرکے ان کے معاملات عدالتوں کے سپرد کئے گئے لیکن ان ملزموں کے خوف سے گواہی کے لئے کوئی آگے نہیں بڑھتا تھا اور ملزم بری ہو جاتے تھے، اس پر اس بڑے اجلاس میں یہ اہم فیصلہ ہوا کہ جو ملزم پکڑے جائیں اور ان کے خلاف شہادت نہ ہو اور گواہ منحرف ہو جانے کے باعث وہ بری ہو جاتے ہوں تو ایسے ’’مجرموں‘‘ کو تحقیق کے بعد اللہ کے سپرد کر دیا جائے۔


تو قارئین کرام! ہماری یادداشت کے مطابق یہ ابتدا تھی، ’’پولیس مقابلوں‘‘ کی، تب لاہور میں سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس حاجی حبیب الرحمن (مرحوم) تھے جو جنرل ایوب کے ساتھی جنرل مجیب الرحمن کے بھائی تھے۔ ہم ان دنوں اپنے ساتھی شیخ عالم نسیم (مرحوم) کی جگہ کرائمز رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ایڈیٹر محترم ظہیر بابر نے کسی وجہ کے باعث عالم نسیم کی بیٹ تبدیل کر دی تھی اور یہ ذمہ داری ہمارے سپرد ہو گئی تھی۔ حالیہ جمیل چشتی کے والد پرویز چشتی (مرحوم) اپنے اخبار کے لئے کرائمز رپورٹنگ کرتے تھے۔ روزنامہ ’’مشرق‘‘ میں افتخار مرزا اور نوائے وقت میں جی این بٹ تھے انہی دنوں ہمیں ذمہ داری سونپی گئی، چنانچہ خبریں حاصل کرنا شروع کیں ادھر اعلیٰ سرکاری سطح پر یہ فیصلہ ہو گیا کہ جرائم پیشہ افراد کی سرکوبی کی جائے۔ چنانچہ پولیس ہمہ تن گوش، ملزموں کو پار کرنے لگی۔

سب سے پہلے ایک مبینہ ڈکیتی سے آغاز ہوا، ہم اور پرویز چشتی موجودہ جوہر ٹاؤن /کوٹ لکھپت کے کھیتوں میں گئے اور کھیتوں میں پڑی نعش کی داستان جانی اور پھر آکر خبر دی کہ پولیس مقابلے میں ایک ڈاکو مار دیا گیا جو ’’بڑا مجرم‘‘ تھا کہ اس سے خوف کھایا جاتا تھا۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا اور ہم پولیس حکام اور حکومت کے ارباب اختیار سے سوال کرتے رہے کہ ’’ماورائے عدالت‘‘ ایسے فیصلے کس خانے میں فٹ ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے الحاج حبیب الرحمن نے ہم رپورٹر حضرات کے ساتھ کئی بار ’’آف دی ریکارڈ‘‘ بات کی اور یہی ثابت کیا کہ یہ جائز ہے کہ ان مجرموں کے خلاف شہادت نہیں آتی، اور تسلی کرکے ’’پولیس مقابلہ‘‘ ہوتا ہے۔


قارئین! بتانے کی ضرورت یوں ہوئی کہ ہر پولیس مقابلے کو ماورائے عدالت قتل قرار دے کر پولیس مقابلوں کو جعلی قرار دیا جاتا ہے اور پورا ملبہ اس عملے پر ہوتا ہے جو اس ’’ڈرامے‘‘ کا کردار ہوتے ہیں بعض اوقات تو کسی اہل کار کو زخمی بھی کرنا پڑتا ہے یا پھر واقعتاً زخمی ہو جانے والے کو میڈیا کے روبرو پیش کر دیا جاتا ہے۔یوں پوری حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سب اونچے پیمانے پر طے کرکے ہوتا ہے اور پھر میڈیا کے ذریعے تشہیر بھی کی جاتی ہے۔ مقصد جرائم پیشہ حضرات کو خوفزدہ کرنا اور بعض کرداروں کو اپنی عدالت سے سزا دینا ہوتا ہے۔ جہاں تک خوف کی بات ہے تو جنرل موسیٰ کے دور میں جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو بڑے بڑے پھنے خان ’’دادا‘‘ (بدمعاش) از خود غنڈہ ایکٹ کے تحت اندر بند ہو کر جیلوں میں چلے گئے تھے۔ موت کے فرشتے والی بات ہے کہ بعدازاں ایسے پولیس مقابلے بھی ہوئے جب ’’ملزم‘‘ کو کسی تفتیش کے لئے باہر لایا گیا اور اس کے ساتھیوں نے ’’چھڑانے ‘‘ کے لئے پولیس پارٹی پر حملہ کیا اور یوں اس لڑائی میں ’’ملزم اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے مر گیا‘‘۔


یہ ذکر اس لئے کیا کہ تاریخ واضح ہو جائے اور یہ بھی اندازہ ہو کہ راؤ انوار یا عابد باکسر جیسے کردار یہ کھیل از خود نہیں کھیلتے بلکہ اس کے لئے نیچے سے اوپر تک حکام اور حکمران بھی شریک ہوتے ہیں اور کسی کو ’’اپنی عدالت‘‘ سے سزا دینے کا عمل اجازت حاصل کرکے ہی کیا جاتا ہے۔ اب یہ ممکن ہے کہ جب کوئی کردار یا کوئی راؤ انوار یا عابد باکسر یہ کھیل کھیلتا ہے تو ایک آدھ ’’مقابلہ‘‘ اپنے لئے بھی کر لیتا ہو، یہ سب تحقیق تو لازم ہے، تاہم ثابت یہی ہوتا ہے کہ بڑوں کی مرضی کے بغیر کوئی بھی ماورائے عدالت قتل ہو ہی نہیں سکتا اگر کوئی ہوگا تو اس کی دیگر وجوہ ہوں گی اس لئے کسی عابد باکسر اور راؤ انوار کا ٹرائل کھلی عدالت میں ہی ہونا چاہیے، تاکہ اصل حقائق کا علم ہو سکے۔


ہمارے نزدیک یہ بھی پنڈورا بکس ہے۔ کھلے گا تو نہ معلوم کیسے کیسے پردہ نشینوں کے نام آئیں، بہرحال ’’فیئر ٹرائل‘‘ تو ملزموں کا حق ہے۔ یہ ایک خبر ہے کہ عابد باکسر ’’گرفتار‘‘ ہے۔ پھر یہ بھی عابد باکسر اس وقت کہاں ہے؟ کسی کو کچھ علم نہیں، اس کے گھر والے رٹ کرکے بھی دیکھ چکے ہیں! یہ ہے آخری وقت کی بات، جیسا کرنا، ویسا بھرنا، راؤ انوار کی گرفتاری کا مسئلہ چلا تومزید انکشاف بھی ہوں گے، کیا سب برداشت ہوں گے؟ فیئر، ٹرائل ان کا بھی حق ہے۔

مزید :

رائے -کالم -