بیورو کریسی: تبدیلی کی راہ میں اصل رکاوٹ

بیورو کریسی: تبدیلی کی راہ میں اصل رکاوٹ
بیورو کریسی: تبدیلی کی راہ میں اصل رکاوٹ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہر کوئی پوچھتا ہے کہ وہ تبدیلی کہاں رہ گئی،جس کے وزیراعظم عمران خان نے دعوے کئے تھے۔۔۔ مگر کسی کے پاس اِس سوال کا جواب موجود نہیں،حتیٰ کہ تحریک انصاف کے پاس بھی نہیں اور ایسے سوالات پر پی ٹی آئی کے رہنما یا تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں یا پھر اِدھر اُدھر کی مثالیں دے کر پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں۔

اصل میں تبدیلی آنی تھی دو اقدامات سے۔۔۔ اول پولیس میں اصلاحات اور دوم: بیورو کریسی کے بے لگام اختیارات کو کسی ضابطے میں لانا۔۔۔ عمران خان نے یہ دونوں کام شروع تو کئے،لیکن پھر اچانک بریکیں لگ گئیں، کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ آخر ہوا کیا۔خاص طور پر پنجاب پولیس سانحہ ساہیوال جیسا بڑا بلنڈرکرنے کے باوجود کسی بھی قسم کی اصلاح سے محفوظ ہے، اُسی طرح کام چل رہا ہے اور وہی تھانہ کلچر عوام کے لئے سوہان روح بنا ہوا ہے۔

رہی بیورو کریسی تو اس کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ اُس نے غیر علانیہ ہڑتال کر کے حکومت کو پیغام دیا کہ ہمیں نہ چھیڑو اور نیب بھی ہمارے کاموں میں مداخلت سے باز رہے،وگرنہ ہم کام کریں گے، نہ ملک کو چلنے دیں گے۔ یہی دھمکی غالباً بیورو کریسی نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو بھی دی تھی، جس کے بعد وہ نیب کے خلاف پریس کانفرنس کرنے پر مجبور ہو گئے تھے اور کہا تھا کہ نیب نے جو خوف پھیلا رکھا ہے، اس کے باعث بیورو کریٹس کام نہیں کر رہے، منصوبے رُک گئے ہیں اور فائلیں دفاتر میں دب گئی ہیں۔

یہ کیا بلیک میلنگ ہے،جو وفاقی سروس کے افسران جاری رکھے ہوئے ہیں؟ہر چیز کے قواعد و ضوابط موجود ہیں۔اگر افسران اُن کے مطابق کام کریں تو انہیں نیب کیا کسی بھی محکمے سے کیا ڈر ہو سکتا ہے، لیکن بات صرف یہی نہیں، اصل قصہ یہ ہے کہ بیورو کریٹس خود کو اِس ملک کا اصل حکمران سمجھتے ہیں۔ بیورو کریسی میں بھی ڈی ایم جی گروپ بے تاج بادشاہ ہے۔

باقی گروپوں کا حق مارتا ہے، تمام بڑی پوسٹیں اس گروپ کے افسران لے جاتے ہیں اور دیگر سی ایس پی افسران کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں۔ ان کا اتنا رعب ہے کہ چاہے نیا بھرتی ہونے والا ڈی ایم جی گروپ کا افسر ہو یا صوبے کا چیف سیکرٹری، اُن کی بات کوئی نہیں ٹالتا۔خلقِ خدا کو تو یہ ڈی ایم جی افسران سمجھتے ہی غلام ہیں،اُن کے لئے اپنے دفاتر کے دروازے بند رکھتے ہیں اور اگر کام نہ کرنا چاہیں تو کسی مائی کے لعل میں یہ جرأت نہیں کہ اُنہیں مجبور کر سکے۔
اب اگر یہ آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ ملک میں کوئی تبدیلی لانی ہے تو بیورو کریسی کے نظام کو بدلنا ہو گا، تو یہ کوئی غلط بات نہیں۔اصل بات ہی یہ ہے کہ ملک میں عوامی خواہشات کے مطابق تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود بیورو کریسی ہے، اس کے آگے آمر بھی ہار گئے اور منتخب حکمران بھی۔ آئین میں ان کا کرداراتنا کلیدی رکھ دیا گیا ہے کہ ایک سیکرٹری حکومت چلاتا ہے، گورنمنٹ آف پاکستان یا گورنمنٹ آف پنجاب کوئی وزیر یا وزیراعلیٰ نہیں،بلکہ چیف سیکرٹری یا سیکرٹری ہوتے ہیں، ان کے فیصلے حتمی کہلاتے ہیں، وہ چاہیں تو کوئی عوامی فلاحی کا کام ہونے دیں،نہ چاہیں تو اعتراض لگا کر روک دیں۔

ان کے اعتراض کو ملک کا وزیراعظم بھی چیلنج کرتے ہوئے سو بار سوچتا ہے کہ کہیں کوئی الزام ہی نہ لگ جائے۔ مجھے ایک ذمہ دار پولیس افسر نے بتایا کہ ہر حکومت پولیس کو سیدھا کرنے پر تلی رہتی ہے۔۔۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جب تک بیورو کریسی کا موجودہ نظام موجود ہے، پولیس کوئی اچھا کام کرنا بھی چاہے تو نہیں کر سکتی۔ انہوں نے اس کی تازہ ترین مثال یہ دی کہ تھانے کی سطح پر مصالحتی کمیٹیاں بنانے کی ہدایت وزیراعظم عمران خان نے دی تھی اور کہا تھا کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں یہ نظام کامیابی سے چل رہا ہے، پنجاب میں بھی لاگو کیا جائے۔

پنجاب پولیس نے اس کا ایک قانونی مسودہ اور ڈھانچہ بنا کر چار ماہ پہلے چیف سکرٹری پنجاب کو بھیجا،اِس پر فیصلہ ہی نہیں کیا جا رہا اور مختلف اعتراضات کے ذریعے چار ماہ سے وقت کا ضیاع ہو رہا ہے، حالانکہ یہ معاملہ چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کے درمیان ایک ملاقات میں طے ہو سکتا ہے، اس میں رکاوٹ ڈالنے کا مقصد بادی النظر میں صرف یہ نظر آتا ہے کہ عوام کو آسانیاں فراہم کرنے والے ہر اقدام کو روکا جائے، کیونکہ عوام آسودہ ہو گئے تو سب سے پہلے بیورو کریسی کے ظالمانہ نظام کے خلاف آواز اٹھائیں گے،جو بیورو کریٹس کو قطعاً گوارا نہیں۔ وہ عوام کو مسائل میں اُلجھا دیکھنا چاہتے ہیں، کیونکہ اِس سے ایک تو حکومت پر عوام کا دباؤ رہتا ہے اور دوسرا حکومت افسران کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے سو بار سوچتی ہے کہ کہیں وہ بالکل ہی کام چھوڑ کر نہ بیٹھ جائیں۔۔۔بدقسمتی سے عمران خان بھی بیورو کریسی کے جال میں پھنس گئے ہیں،اب تو لوگ یہ کہنے لگے ہیں کہ عمران خان سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے بھی کمزور ثابت ہوئے ہیں، جنہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی 313 کرپٹ بیورو کریٹس کو نکال باہر کیا تھا۔ عمران خان تو دوبار بیورو کریٹس کا اجلاس بلاکر اُنہیں ہر قسم کا تحفظ دے چکے ہیں اور ساتھ ہی نیب کو تنقید کا نشانہ بھی بناتے رہے ہیں، کیا واقعی یہ بیورو کریسی اتنی قابل اور ملک کے لئے ناگزیر ہے؟۔۔۔ اگر یہ بیورو کریسی اتنی قابل ہوتی تو آج ملک کا یہ حال کیوں ہوتا؟بری گورننس کیا صرف سیاسی حکمتوں کی وجہ سے ہے۔

ان بیورو کریٹس نے تو ہر جگہ اپنی ریاستیں قائم کر رکھی ہیں ۔ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو آج بھی اختیارات کا گھنٹہ گھر بنایا ہوا ہے، جو بھی ڈپٹی کمشنر لگتا ہے، اُسے پہلے دن ہی یہ یقین ہو جاتا ہے کہ ملک کا اصل حکمران وہ ہے، باقی سب کمی کمین ہیں۔ اس کے پاس اتنے زیادہ اختیارات اور محکمے ہوتے ہیں کہ وہ صرف مافیاز کا آلہ کار بن کر وقت گزارتا ہے۔ یہ وائسرائے کی ذہنیت والے افسران ملک میں کہاں تبدیلی لا سکتے ہیں یا لانے دیں گے؟
ان افسران کی کارکردگی دیکھیں کہ ہر ضلع میں ایک پرائس کنٹرول کمیٹی ڈپٹی کمشنر کی زیر نگرانی کام کرتی ہے، جس کا مقصد ناجائز منافع خوری کو روکنا ہوتا ہے۔ آج پنجاب میں مہنگائی مافیا مکمل طور پر آزاد ہے، کسی ڈپٹی کمشنر کو اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ وہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال کرے اور مصنوعی مہنگائی،پیدا کرنے والوں کو نکیل ڈالے۔ ایسے عوامی فلاح کے کام، جس میں مافیاز کی طرف سے مزاحمت کا خطرہ ہو، بیورو کریسی کی لُغت میں موجود ہی نہیں۔

اپنے ضلع میں سرکاری محکموں کی عوامی نقطۂ نظر سے کارکردگی چیک کرنا بھی ڈپٹی کمشنروں کی ذمہ داری ہوتی ہے، مگر صاحب بہادر اس خوف سے یہ چیکنگ نہیں کرتے کہ دوسروں کی خرابیاں پکڑیں گے تو اپنی خرابیاں چھپانا مشکل ہو جائے گا۔۔۔وزیراعظم عمران خان نے بیورو کریسی میں اصلاحات کے لئے ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی تھی۔

یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کی پانچ سالہ مدت ختم ہو جائے گی، یہ کمیٹی اپنی سفارشات سامنے نہیں لا سکے گی۔ ڈاکٹر عشرت حسین کا ٹریک ریکارڈ یہی ہے۔

وہ پچھلے دور حکومت میں بھی اسی طرح مدت گزار چکے ہیں، بہتر ہوتا کہ وزیر اعظم عمران خان گڈ گورننس کی بہترین تعلیم رکھنے والے افراد پر مشتمل کمیٹی بناتے، جنہیں آج کے دور میں دُنیا کے مختلف ممالک کے نظاموں سے مکمل آگہی ہوتی۔ ایک سابق بیورو کریٹ تو اس خول سے باہر نکل ہی نہیں سکتا، جس میں اس نے ساری زندگی گزاری ہے، وہ نہ تو کوئی بولڈ فیصلہ کر سکتا ہے اور نہ تجاویز دے سکتا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان میں تبدیلی کی خواہش بہت ہے۔

وہ پولیس میں اصلاحات کی بات کرتے ہیں، بیورو کریسی کو بدلنا چاہتے ہیں، ایف بی آر کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں، ٹیکس نظام میں انقلابی تبدیلیاں چاہتے ہیں، مگر وہ اس وقت بے بس ہو جاتے ہیں جب اُنہیں تبدیلی کے لئے درکار حمایت اور مشینری نہیں ملتی، تاہم عمران خان اور ان کے رفقاء کار کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ عوام نے انہیں تبدیلی کے نام پر ووٹ دیا تھا، اگر وہ تبدیلی کو عملی جامہ پہنانے کی بجائے طفل تسلیاں ہی دیتے رہے تو جلد عوام کے ردعمل کا شکار ہو جائیں گے۔

مزید :

رائے -کالم -