23مارچ: ساعتِ عمل!
ان سطور میں پہلے بھی کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ میں نے ملازمت کے آخری 12برس GHQ میں گزارے۔ آئی جی ٹی اینڈ ای (انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ اویلوایشن) برانچ، جی ایچ کیو کی چند برانچوں میں سے ایک ہے جس کی طرف سے پاک آرمی کی جملہ تربیتی سرگرمیاں پلان کی جاتی ہیں اور جس کی زیرِ ہدایت فارمیشنوں اور یونٹوں کی طرف سے وہ سرگرمیاں کنڈکٹ کی جاتی ہیں۔
ویسے تو GHQ کی ہر برانچ اپنی جگہ اہم ہے لیکن اس برانچ کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ایک سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، پاک آرمی کی کمانڈ سنبھالنے سے پہلے IGT&E تھے۔۔۔ ویسے تو فوج میں کسی بھی جگہ زیادہ سے زیادہ تین سال کی مدتِ ملازمت کے بعد ہر آفیسر کو کسی دوسری جگہ پوسٹ کر دیا جاتا ہے۔
اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک ہی جگہ اگر کسی آفیسر یا جوان یا یونٹ کو زیادہ عرصہ تک مقیم رکھا جائے تو اس میں بہت سی منفی خصوصیات کی پرورش کا احتمال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی یونٹ آج لاہور کینٹ میں ہے تو تین چار برس بعد اسے سیاچن بھیج دیا جاتا ہے اور اگر کوئی آفیسر آج گوادر میں پوسٹ ہے تو کل اس کی پوسٹنگ لائن آف کنٹرول پر کسی جگہ ہو جاتی ہے۔ ۔۔۔ انشاء اللہ خان انشاء نے تو شائد ازراہ شکائت یہ شعر کہا تھا:
بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشا
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دوچار بیٹھے ہیں
لیکن فوج (آرمی) میں یہ گردش (Rotation) ایک معمول ہے۔ ذاتی مثال دوں تو پہلی پوسٹنگ مردان میں ہوئی تو دوسری کراچی میں، تیسری آزاد کشمیر میں(جیری کَس میں)، چوتھی خضدار میں، پانچویں، اسلام آباد میں، چھٹی گلگت میں، ساتویں ایبٹ آباد میں، آٹھویں کوئٹہ میں، نویں کھاریاں میں، دسویں دوبارہ ایبٹ آباد میں اور پھر آخری پوسٹنگ GHQ میں ہوئی۔
وہاں 12برس کا طویل عرصہ اس لئے گزارنا پڑا کہ میں فارسی زبان (فوجی فارسی) کا مترجم (Interpreter) بھی تھا۔ تہران اور کابل سے جو اعلیٰ سطحی فوجی وفود آیا کرتے تھے ان کے ساتھ مختلف مقامات اور مختلف مناصب پر فائز VIPs کے ساتھ ملاقاتوں میں ایک ایسے مترجم کی ضرورت ہوتی تھی جو فوجی ماحول، فوجی اصطلاحات اور فوجی لسانی روایات سے آشنا ہو۔ الحمدللہ میں نے کافی برس یہ کام کیا۔
اس کا کوئی اضافی معاوضہ یا الاؤنس نہیں ملتا ۔ یہ معمول کی ایک ڈیوٹی سمجھی جاتی ہے جو خارجی ممالک کی زبانوں کے مترجمین کو ادا کرنی ہوتی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مجھے سروسز چیفس، وزیراعظم اور صدر کی ملاقاتوں میں ایسی کئی خبریں مل جاتی تھیں جو میرے رینک کے دوسرے افسروں کو نہیں مل سکتی تھیں کہ رموزِ مملکتِ خویش خسرواں دانند کے مصداق جب کوئی شخص کسی بلند منصب پر فائز ہوتا ہے تو اس کو ایسے بہت سے راز ہائے درونِ خانہ کا پتہ چلتا ہے جو عام حالات میں نہیں جانے جاتے۔ لیکن مترجم چونکہ ان رازوں کا امین ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی یہ بھاری ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ ان رازوں کے بارے میں کسی کے آگے زبان نہ کھولے۔۔۔ یہ ایک بڑا امتحان ہے۔۔۔ اور یہی وجہ تھی کہ مجھے اتنا طویل عرصہ GHQ میں پوسٹ رہنا پڑا۔ یہ خودستائی نہیں، قارئین کو یہ بتانے لگا ہوں کہ دورانِ قیامِ راولپنڈی، ان بارہ برسوں میں کم و بیش ہر برس 23مارچ کو یومِ پاکستان کی پریڈ دیکھنے کا موقع ملتا رہا۔
ان ایام میں ایک عجیب بات یہ تھی کہ ان 12برسوں میں تقریباً 5،6 برس ایسے بھی تھے جن میں 23مارچ کو بارش ضرور ہوتی تھی اور اس پریڈ کو مختصر کرنا پڑتا تھا۔ ویسے بھی اسلام آباد راولپنڈی میں ماہِ مارچ ، بہار کا نہیں ،جاتی سردیوں کا موسم شمار ہوتا تھا، آج بھی تقریباً یہی عالم ہے۔ اگرچہ بہار کی آمد آمد ہوتی ہے لیکن اگر 23 مارچ کے دن دھوپ نکل آئے تو یہ اللہ کی خاص رحمت ہے۔
اس لئے ہم دعا مانگا کرتے تھے کہ 23مارچ کو اگر بارش ہو بھی تو ’رم جھم‘ سے آگے نہ بڑھے۔ لیکن اس بار اللہ کریم کا خاص کرم رہا اور 23مارچ کا یومِ پاکستان بڑے ہی خوشگوار موسم کے دوران منایا گیا ۔۔۔ یہ تقریباً کوئی چار گھنٹے طویل تقریب تھی۔
مہمان خصوصی وزیراعظم ملائیشیا کی عمر اگرچہ 93برس سے متجاوز ہے لیکن ان کو دیکھ دیکھ کر رشک آتا رہا کہ وہ چار گھنٹے متواتر اس تقریب میں بیٹھے رہے۔ ان کی چال ڈھال سے یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ کہن سا لگی کی منزل سے گزر رہے ہیں۔ قارئین نے یہ پریڈ ضرور دیکھی ہو گی۔ میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا کہ جو کچھ آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، اس کو لکھ کر بتانے کی کیا ضرورت ہے!
ڈاکٹر مہاتیر بن محمد کے علاوہ آذربائیجان کے وزیر دفاع کرنل جنرل ذاکر حسنوف بھی اس پریڈ میں موجود رہے۔ پریڈ میں حصہ لینے والے دستوں میں آذر بائیجان، سعودی عرب، بحرین اور سری لنکا کے دستے بھی شریک ہوئے۔ کئی عسکری ساز و سامان (Equipment) کی نمائش پہلی بار ہوئی۔ صدر عارف علوی نے جو تقریر کی اس میں انڈیا کو جس طرح صاف صاف الفاظ میں خبردار کیا، وہ لائقِ صد تحسین پہلو تھا ان کی تقریر کا۔۔۔ آخر میں چینی فضائیہ کے طیاروں نے فضائی کرتبوں کا مظاہرہ کرکے سب کو مسحور کئے رکھا۔ خود ملائیشیا میں یہ فضائی مظاہرہ (LIMA)اگلے ہفتے ہونے جا رہا ہے۔ شائد اس لئے بھی وزیراعظم مہاتیر بن محمد بڑی دلچسپی سے سب کچھ دیکھ رہے تھے۔
فوج جوائن کرنے سے پہلے مجھے شعر و شاعری کا تھوڑا بہت ذوق تھا۔ (ذوقی تخلص بھی اس نسبت سے رکھا) جو اول اول شعر فہمی تک محدود رہا۔ لیکن بعد میں کبھی کبھی ’’حسبِ ضرورت‘‘ شعرگوئی کی لَت میں بھی مبتلا رہا۔ اس 23مارچ کے حوالے سے درج ذیل نظم ’’حسبِ حال‘‘ کہی جا سکتی ہے:
(1)
یہ صبح، یہ دیارِ زرنگار کی حسیں پھبن
یہ صبح، یہ روش روش گُلوں کا اُجلا بانکپن
یہ صبح، یہ نگر نگر میں ہاو ہوئے مرد و زن
یہ سیلِ نغمہ، نغمہ زن، چمن چمن ، دمن دمن
مسرتوں کا دور ہے
شکستِ عہدِ جور ہے
وطن کے دشمنو، سنو!
مقامِ فکر و غور ہے
زمانہ آج اور ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(2)
زمانہ آج اور ہے کہ موسمِ نوید ہے
کلی کے دستِ ناز میں بہار کی کلید ہے
خمارِ غنچہ کم سہی، شبابِ گل مزید ہے
یہ اپنی اپنی آنکھ ہے، یہ اپنی اپنی دید ہے
بڑی ہی آن بان ہے
عظیم و عالی شان ہے
عروسِ ارضِ پاک تو!
دلوں کی ترجمان ہے
ہماری جانِ جان ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(3)
ہماری جانِ جاں ہے تو، عروسِ دلکشِ وطن
تری جبیں کی ہرشکن، اشارۂ بکُش، بزن
ترے جواں، تری نگاہِ ناز کے رہینِ فن
کھڑے ہیں کب سے منتظر
سروں پہ باندھ کر کفن
جو تم پہ آنچ آئے گی
ہمیں بھی تلملائے گی
فضا ہو، بحر کہ بَر
جہاں بھی تو بلائے گی
ہمیں ضرور پائے گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(4)
ہمیں ضرور پائے گی یہاں یہاں وہاں وہاں
وہ جوئے کوہسار ہو کہ یا ہو دشتِ بیکراں
وہ قریہ ء ہنود ہو کہ ہو دیارِ دشمناں
ترے جری، ترے جواں، مثالِ برقِ بے اماں
جہاں بھی بڑھ کے ڈٹ گئے
جو سامنے تھے، ہٹ گئے
وہ سیلِ بے پناہ تھے
کہ جس طرف پلٹ گئے
عدو سمٹ سمٹ گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(5)
اے ارضِ پاک شاد زی، تو ہر زماں جواں رہے
تری حیاتِ نو کا لمحہ لمحہ گل فشاں رہے
فلک ترا معین ہو، زمانہ ہم عناں رہے
تو جس بھی حال میں رہے، بہائے نقدِ جاں رہے
بلند ہے کہ پست ہے
مئے وطن سے مست ہے
نہ کوئی غم، قرینِ جاں
نہ فکرِ بود و ہست ہے
یہ ہند کی شکست ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(6)
یہ ہند کی شکست ہے کہ جشنِ یومِ پاک ہے؟
یہ ایل او سی پہ کون سی صدائے درد ناک ہے؟
یہ کون ہے لہو لہو، یہ کس کا سینہ چاک ہے؟
یہ کس کا ایسا ہے فلک ، یہ کس کی ایسی خاک ہے؟
کہ جس کے ریگ زاروں میں
بلند کوہساروں میں
نہاں ہے برقِِ بے اماں
چھپی ہے برف زاروں میں
وہ ساعتِ رواں دواں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(7)
وہ ساعتِ رواں دواں، یہی ہے وہ حسیں گھڑی
یہی وہ روزِ جانفرا، یہی وہ بہتریں گھڑی
یہی وہ جاں نواز دن، یہی وہ نازنیں گھڑی
یہی وہ یومِ دلربا، یہی وہ دلنشیں گھڑی
یہ عیش کا محل بھی ہے
یہ رنگ کا کنول بھی ہے
مگر اے ہم نشیں مرے
یہ لمحہ بے مثل بھی ہے
یہ ساعتِ عمل بھی ہے