مشکل گھڑی میں ارکانِ اسمبلی کہاں ہیں؟
اب جبکہ پورا ملک ہی کرونا وائرس کی روک تھام کے لئے لاک ڈاؤن ہو چکا ہے تو فکر اس بات کی ہونی چاہئے کہ وہ غریب اور مزدور طبقہ، جو روزانہ کی بنیاد پر کما کر اپنا گھر چلاتا تھا، اُس کا کیا بنے گا؟وفاقی حکومت نے تو تین ہزار روپیہ ماہانہ دینے کا اعلان کیا ہے، مگر اس اعلان میں بڑے الجھاوے ہیں۔ یہ تین ہزار روپے مستحق گھرانوں تک کیسے پہنچیں گے،پھر اس سے اُن کا گذارہ کیسے ہو گا؟ اچھی بات تو یہ ہے کہ بہت سے افراد، تنظیمیں اور این جی اوز میدان میں آ چکی ہیں اور انہوں نے اپنے واٹس ایپ نمبرز مشتہر کر دیئے ہیں کہ جسے روشنی کی ضرورت ہو، وہ اُن سے رابطہ قائم کرے……لیکن اس میں بھی ایک ہزیمت اور عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچانے کا پہلو موجود ہے۔ ظاہر ہے جو محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں، وہ خود دار اور اَنا والے لوگ ہیں، بھکاری تو نہیں ہیں۔ وہ اِس مشکل وقت میں بھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے۔صبر شکر کر کے بیٹھ رہیں گے۔ سب سے احسن عمل تو یہ ہو گا کہ خود اُن تک پہنچا جائے اور خاموشی سے اُن کی ضروریات پوری کر دی جائیں ……ملتان میں ایک ایسی مثال قائم ہوئی ہے۔ مَیں سوچ رہا ہوں باقی ارکان اسمبلی ایسا کیوں نہیں کر رہے؟ کسی حلقے کے رکن اسمبلی پر اُس کے ووٹروں کا مکمل حق ہوتا ہے، پھر اُسے وہ قرض بھی چکانا ہوتا ہے، جو ووٹروں نے ووٹ دے کر چڑھایا ہوتا ہے، ملتان کے صوبائی حلقہ217 کے ایم پی اے سلمان نعیم نے بڑی محنت اور منظم طریقے سے یہ کام کیا ہے۔ یہ وہی سلمان نعیم ہیں،جنہوں نے عام انتخابات میں مخدوم شاہ محمود قریشی کو شکست دی تھی اور اب اُن کے عتاب کا شکار ہیں۔ سلمان نعیم نے جب انتخابات میں حصہ لیا تھا تو اپنے حلقے کے ایک ایک گھر کے بارے میں معلومات اکٹھی کی تھیں،گھر میں کتنے افراد ہیں،اُن کا سلسلہئ روزگار کیا ہے، معاشی حالت کیسی ہے اور کیا کیا مشکلات در پیش ہیں؟
اُن کے دست ِ راست رانا ممتاز رسول نے مجھے بتایا کہ کرونا وائرس کا بحران پیدا ہوا تو ہم نے الیکشن کے دوران اکٹھی کی گئی، معلومات کو کھنگالا اور اُن میں سے ایسے دس ہزار گھرانے تلاش کئے،جو محنت مزدوری سے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ اُس کے بعد ایک ماہ کے راشن پر مبنی دس ہزار بیگ تیار کروائے گئے، جنہیں ان دس ہزار گھروں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔اس طرح انتہائی مستحق گھرانوں تک یہ امداد پہنچ رہی ہے اور کسی کو اس کا علم بھی نہیں ہو رہا۔انہوں نے بتایا کہ ایک تھیلے میں دیئے گئے راشن پر تقریباً تین ہزار روپے لاگت آئی ہے۔ اب اس مثال کے بعد مَیں یہ سوچ رہا ہوں کہ یہ تو بہت اچھا، قابل ِ عمل اور آسان طریقہ ہے کہ ہر رکن اسمبلی اپنے حلقے کے مستحق گھرانوں کی فہرست بنائے اور اس مشکل وقت میں اُن کی مدد کرے۔ایک رکن قومی اسمبلی اپنے حلقے میں شامل دو صوبائی ارکانِ اسمبلی کو ساتھ ملا کر بآسانی یہ کام کر سکتا ہے۔ الیکشن کے دِنوں میں ہر امیدوار نے حلقے کے ہر گھر پر کام کر رکھا ہوتا ہے کہ اُس میں کتنے افراد ہیں اور وہ حلقے کے پوش علاقے میں رہتے ہیں یا غریب اور پسماندہ علاقے میں؟…… ملتان میں تحریک انصاف نے 11نشستیں جیتی تھیں، مگر حیرت ہے کہ صرف ایک رکن صوبائی اسمبلی اس وقت امدادی کاموں میں متحرک نظر آ رہا ہے، باقیوں کا کچھ پتہ نہیں کہاں ہیں؟ شاہ محمود قریشی جو اکثر اپنے حلقے میں موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھ کر عوامی ملاقاتیں کرتے ہیں،اب اس حوالے سے بالکل بے پروا نظر آتے ہیں۔ انہوں نے پوچھا تک نہیں کہ اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے غریبوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور بطور عوامی نمائندہ انہیں کیا کردار ادا کرنا چاہئے؟
یہ معاملہ صرف ملتان کا نہیں، پورے پاکستان کا ہے۔ یہ عوامی نمائندے کس مرض کی دوا ہیں؟اگر اس دور ابتلا میں بھی اپنے ووٹروں کے کام نہیں آتے……انہیں ہر سال کروڑوں روپے کی گرانٹس ملتی ہیں۔
وہ وزیراعظم سے خصوصی اجازت لے سکتے ہیں کہ ان فنڈز میں سے کچھ بے روز گار ہونے والے افراد کی امداد پر خرچ کر سکیں۔خود وزیراعظم کو بھی اپنے ہر رکن اسمبلی کو یہ ٹاسک سونپنا چاہئے کہ وہ اپنے حلقے میں مزدو پیشہ دہاڑی دار افراد کو لاک ڈاؤن کے دِنوں میں کھانے پینے کی اشیاء فراہم کرے۔ کسی منتخب نمائندے سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا کہ کس گھر میں چولہا جلتا ہے اور کس میں نہیں جلتا؟یہی کام دوسری جماعتوں کے ارکانِ اسمبلی کو کبھی اپنے ذمے لینا چاہئے۔ابھی تو آغاز ہے،لیکن لاک ڈاؤن کے دن جوں جوں گذریں گے، غریبوں اور روزانہ کی بنیاد پر کمانے والے گھروں میں فاقے اترنا شروع ہوں گے۔یہ نوبت آنے سے پہلے اُن کے لئے راشن کا بندوبست کیا جانا چاہئے۔اس کام کو انتظامیہ پر نہیں چھوڑا جا سکتا،کیونکہ جو تعلق رکن اسمبلی کا اپنے ووٹروں سے ہوتا ہے، وہ کسی انتظامی افسر کا نہیں ہو سکتا۔پھر یہاں معاملہ صرف حکومت کی طرف دیکھنے کا نہیں،بلکہ اپنے وسائل سے امداد فراہم کرنے کا ہے۔ارکانِ اسمبلی اپنے حلقے کے مخیر حضرات کو بھی اس کارِ خیر میں بآسانی شریک کر سکتے ہیں۔
مَیں ملتان کے علاقے قاسم بیلہ میں رہتا ہوں،جو مزدوروں اور محنت کشوں کا علاقہ ہے، جہاں سے روزانہ ہزاروں مزدور شہر کے مختلف حصوں میں جاتے اور سینکڑوں مزدور ی ملنے کے انتظار میں قاسم بیلہ نہر کی پلی پر بیٹھے ہوتے ہیں۔آج مَیں وہاں گیا تو ایک ویرانی تھی،کوئی مزدور موجود نہیں تھا، کیونکہ پولیس نے وہاں لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی لگا دی تھی۔ مَیں سوچنے لگا یہ مزدور آج روزی روٹی کے بغیر گھروں میں بیٹھ گئے ہیں تو ان کا گھر کیسے چلے گا،چولہا کیسے جلے گا؟ ایک دو دن تو شاید گذارا ہو جائے،لیکن کئی ہفتے تک انہیں گھر بیٹھنا پڑ گیا تو اُن پر کیا گزرے گی؟صرف یہ توقع رکھنا کہ حکومت کو یہ ذمہ داری پوری کرنی چاہئے ایک مجرمانہ سوچ ہے،کیونکہ سب جانتے ہیں کہ حکومتیں اکیلے یہ کام نہیں کر سکتیں،اس کے لئے پورے معاشرے کو متحرک ہونا پڑتا ہے۔ شہباز شریف اب وطن واپس آ گئے ہیں تو انہیں اپنے ارکانِ اسمبلی کی ڈیوٹی لگانا چاہئے کہ وہ اپنے اپنے حلقے میں کم از کم پانچ پانچ ہزار مستحق گھرانوں تک راشن پہنچائیں۔اسی طرح وہ متحدہ اپوزیشن کا اجلاس بُلا کر مشترکہ امدادی فنڈز بھی قائم کر سکتے ہیں، جس سے ضرورت مند گھرانوں کی امداد کی جا سکے۔ صرف حکومت پر تنقید سے بات نہیں بنے گی۔ یہ وقت اپنی اپنی جگہ پر عملی قدم اٹھانے کا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کرونا وائرس کو مٹاتے مٹاتے ہم بھوک کا عفریت بھی پیدا کر بیٹھیں، جو معاشرے میں ایک بڑی انارکی کا سبب بن جائے۔