کرونا کے اثرات پر بات کی بجائے، اختلافات پر بحث، الزام تراشی جاری
ایم کیو ایم کا ناراضی سفر ختم، کابینہ میں واپسی کا اعلان
سندھ حکومت کرونا کے حوالے سے فعال، تنقید کم تعریف زیادہ
کراچی۔ ڈائری۔ مبشر میر
کورونا وائرس کے متاثرین میں روز بروز کے اضافے نے پورے ملک میں تشویش پیدا کردی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی مخالفین اس وباء کو ایشو بنا کر ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کررہے ہیں۔ حیرت ہے کہ اس کے پھیلنے والے اثرات پر بات کرنے کی بجائے صوبائی اور وفاقی حکومت، اپوزیشن اور حکومتی ارکان کے درمیان اس بات کا مناظرہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ کورونا پھیلنے کا ذمہ دار کون ہے؟ اور سیاسی رہنما اپنی سیاسی وابستگی کے تناظر میں اس پر تبصرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ٹی وی ٹاک شوز دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ چند مخصوص سیاسی رہنما جو پہلے سیاست اور معیشت پر تبصرے کرتے دکھائی دیتے تھے، اب وہ کورونا وائرس کے ماہر کی حیثیت سے بھی گفتگو کررہے ہیں۔ ٹی وی چینلز کو بھی کچھ سوچنا چاہیے کہ ان حالات میں انہوں نے اس ایشو کو ایک مختلف رنگ کیوں دیا؟ اسی لیے سخت مناظروں کا نتیجہ ہے کہ وفاق اور سندھ کو ایک دوسرے کے مخالف بنا کر بات بہت زیادہ بڑھادی گئی اور سیاستدانوں کی دوراندیشی کا بھانڈا بھی ایک مرتبہ پھر پھوٹ گیا اور وہ بیماری سے لڑنے کے بجائے اس بات پر الجھ رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن کب، کہاں اور کیوں ہونا چاہیے؟
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا اور لوگوں کے گھروں میں راشن بانٹنے کی خوشخبری بھی سنائی جسے سنجیدہ حلقوں میں حیرت سے سنا گیا، کیونکہ یہی حکومت گذشتہ بارہ برس سے کراچی کے عوام کو صاف پانی دینے میں کامیاب نہیں ہوئی، راشن تو دور کی بات ہے۔
سندھ میں لاک ڈاؤن ہوچکا ہے، اسٹیٹ بینک نے کمرشل بینکوں کی تمام برانچیں بند کرنے کا عندیہ نہیں دیا۔ عدالتیں سندھ کے تمام اضلاع میں کام کررہی ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ میں کوئی لاک ڈاؤن نہیں۔ پاکستان ریلوے نے گاڑیوں کی تعداد کم کردی ہے۔ بسوں پر سفر بند ہے۔ کارگو ٹرانسپورٹ چل رہی ہے۔ ریستوران کی ٹیک وے سروس جاری ہے۔ کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم پر بھی کام ہورہا ہے۔ کوئی لاک ڈاون نہیں۔
سندھ پولیس ایک مرتبہ پھر تنقید کی زد میں آئی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اسے لوگوں کو لوٹنے اور پیٹنے کا لائسنس مل گیا ہے۔ لوگوں کو گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں سے اتار کر ڈنڈے مارنے کی ویڈیوز وائرل ہورہی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ان کی جیبیں خالی کرنے کا روایتی کام بغیر کسی تعطل کے جاری ہے۔ یہ ہے اس لاک ڈاؤن کے نفاذ اور مانیٹرنگ کا طریقہ کار۔
یہ بات بھی زیربحث ہے کہ ایران سے آنے والے زائرین کو تفتان بارڈر یا کوئٹہ کے نزدیک قرنطینہ میں اس وقت تک کیوں نہیں رکھا گیا جب تک وہ صحت یاب نہیں ہوجاتے، آخر صوبوں کو مشتبہ مریض لے جانے کی اجازت کیسے دی گئی؟ وفاقی حکومت کا فرض تھا کہ وہ اس مسئلے میں خود آگے بڑھتی اور افواج پاکستان کی مدد سے بلوچستان میں قرنطینہ کو جدید سہولیات سے آراستہ بنایا جاتا۔
وزیراعلیٰ سندھ نے وفاق سے مشورہ کیے بغیر اپنے جہاز میں مریضوں کو لانے کا عمل کیوں شروع کیا۔ سابق وزیراعلیٰ سندھ ڈاکٹر غلام ارباب رحیم نے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ پر الزام بھی لگایا ہے کہ ان کے رشتہ دا ر جو ایران سے زیارت کرکے آئے ان کو قرنطینہ میں نہیں رکھا گیا، ان کی وجہ سے بھی کئی لوگ مریض بن گئے۔ وزیراعلیٰ ہاؤس کے ترجمان نے اس الزام کا جواب ابھی تک نہیں دیا۔
حکومت سندھ کو عوامی حلقوں سے ان کے اقدامات پر پذیرائی بھی ملی ہے۔ اور کچھ حوالوں سے تنقید کا سامنا بھی ہوا ہے، لیکن انہیں ایک متحرک وزیراعلیٰ قرار دیا گیا ہے۔ جس پر پیپلز پارٹی بہت خوش دکھائی دیتی ہے کیونکہ سندھ میں صحت کے حوالے سے پی پی حکومت تنقید کی زد میں رہی ہے۔ خاص طور پر تھر میں بچوں کی ہلاکت، کراچی تک کتوں کے کاٹنے کے واقعات، کیماڑی میں زہریلی گیس کا اخراج، لیکن یہ سب قصہئ پارینہ ہوگیا ہے۔
حیرت ہوتی ہے کہ کراچی میں ہیٹ ویو سے کم از کم پندرہ سو افراد صرف تین دنوں میں جاں بحق ہوئے تھے، لیکن اتنی فعالیت دیکھنے میں نہیں آئی تھی، کوئی بھی وجہ ہو وزیراعلیٰ ہاؤس کا فعال ہونا خوش آئند ہے! لیکن بلدیہ کراچی کو عمل کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ بلدیہ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ مستقل بہتری کیلئے بلدیاتی نظام کی فعالیت ہی درست سمت ہے۔
اسی کورونا بحران میں ایم کیو ایم نے حکومت میں واپسی کا اعلان کردیا ہے۔ پی پی پی، ایم کیو ایم کو جو دانہ ڈال رہی تھی وہ چال بھی کارگر ثابت نہیں ہوئی اور ایم کیو ایم کی خاموشی اسے لاتعلق کرتی جارہی تھی، اب یہی نظر آرہا ہے کہ ایم کیو ایم تحریک انصاف کے ہمراہ ہی اپنا سیاسی سفر جاری رکھنے کی کوشش کرے گی، اس کے علاوہ اس کے پاس دوسرا راستہ نہیں۔