کورونا پھیلاؤ روکنے کے لئے حکومتی اقدامات کس قدر موثر؟
اجمل وزیر کی سربراہی میں وزارت اطلاعات کے خصوصی مانیٹرنگ سیل کا قیام خوش آئند
قیامت خیز گھڑی میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں
حکومت سرکاری ملازمین کو تنخواہیں اور پنشن قبل از وقت ادا کرنے کے اقدامات کرے
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے خوف اور نتیجتاً عوام کو بچانے کیلئے نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن، کاروبار اور صنعتوں کی بندش کے خیبرپختونخوا پر بھی گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، صوبے میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے شہروں سے دیہات تک کی شاہراہیں اور چھوٹی بڑی سڑکیں ویران دکھائی دے رہی ہیں، مارکیٹوں میں بھی سنسانی ہے، تعلیمی اداروں میں تعطیلات کے باعث ہر سو ہو کا عالم ہے، غرضیکہ کاروبارِ زندگی مکمل طور پر معطل ہے، سرکاری دفاتر میں بھی کام نہ ہونے کے برابر ہے، شہریوں نے خوف کے مارے جہاں اپنے آپ کو گھروں میں مقید کر رکھا ہے وہاں اشیائے صرف کی ذخیرہ اندوزی بھی کی جا رہی ہے۔ صوبائی حکومت نے اس حوالے سے خاصے سخت انتظامات کئے ہیں اور شہریوں پر منڈلاتے خوف کے بادل کم کرنے کے لئے بھی اہم فیصلے کئے جارہے ہیں، وزیر اعلیٰ کے مشیر اطلاعات اجمل وزیر نے صوبے میں کورونا وائرس میں مبتلا ایک اور مریض کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے جبکہ گلگت بلتستان میں بھی 65 سالہ بزرگ خاتون فاطمہ انتقال کر گئیں جسکے بعد صوبے میں کورونا سے ہلاکتوں کی تعداد 3 ہوگئی ہے جبکہ ملک بھر میں ہلاک شدگان 6 اور متاثرہ مریضوں کی مجموعی تعداد 800 تک جاپہنچی ہے۔ صوبائی حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ عوام قطعاً پریشان نہ ہوں، ملک بھر میں غذائی اشیاء کے وافر ذخائر موجود ہیں، لاک ڈاؤن کے دوارن شناختی کارڈ کے بغیر باہر نکلنے پر پابندی ہو گی۔ خیبر میں ٹرانسپورٹ 29 مارچ تک بند کر دی گئی ہے جبکہ میتوں کی تدفین کے لئے خصوصی انتظامات بھی کئے گئے ہیں۔ صوبے میں کورونا کے باعث حالات اس قدر تشویشناک ہوتے جا رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر تجارتی سرگرمیوں کے لیے کھلنے والی پاک افغان سرحد کو بھی 24 گھنٹے بعد ایک بار پھر بند کرنا پڑا اور اس حوالے سے دونوں اطراف کے امپورٹر ایکسپورٹرز،تاجروں میں اتفاق رائے پیدا کیا گیا، کہا جا رہا ہے کہ وائرس پھیلنے کی وجہ سے اور افغانستان میں کورونا کے کئی کیس رپورٹ ہونے پر پرباب دوستی بند کیا گیا،چمن میں پاک افغان سرحد کو تین روز قبل تجارتی سرگرمیوں کے لیے کھولا گیا تھا جسے گزشتہ روز دوبارہ 14 دن کے لیے بند کر دیا گیا۔ سرحد کی بندش سے چمن کے شہریوں کو شدید مشکلات کاسامنا کرناپڑرہاہے عوام کی بڑی تعداد بے روزگار ی سے دوچار ہوگئی ہے،فاقہ کشی سے جان کے لالے پڑ گئے۔
یہ امر خوش آئندہے کہ صوبائی حکومت نے کورونا آگاہی اور بچاؤ مہم کے حوالے سے کئی اقدامات کئے ہیں، سیکریٹریٹ میں اس حوالے سے وزارت اطلاعات و تعلقات عامہ کے تحت خصوصی مانیٹرنگ سیل بھی قائم کیا گیا ہے جہاں مشیر برائے اطلاعات وتعلقات عامہ اجمل خان وزیر، سیکرٹری اطلاعات سید امتیاز شاہ، محکمہ اطلاعات کے سربراہ بہرہ مند خان درانی اور ڈی جی پی آر امداد اللہ خان نے خود ڈیرے ڈال لئے ہیں، رات گئے تک کورونا کے حوالے سے خصوصی ٹیم صوبہ بھر سے اطلاعات اکٹھی کرتی اور اس حوالے سے میڈیا کو با خبر رکھتی ہے، یہ بھی اچھا اقدام کیا گیا ہے کہ اس خصوصی سیل میں مانیٹرنگ و نیوز روم کے ساتھ باقاعدہ سٹوڈیو بھی بنایا گیا ہے جہاں سے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو تازہ ترین صورت حال سے لمحہ بہ لمحہ با خبر رکھا جاتا ہے۔ اس سیل میں خدمات انجام دینے والوں کے لئے سینی ٹائزر اور ماسک کا استعمال بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ صوبائی مشیر اطلاعات نے اس سیل میں پاکستان سے گفتگو کے دوران کہا کہ خیبر پختونخوا میں مثبت کرونا کیسز کی تعداد 36 تک جا پہنچی ہے جبکہ صوبہ بھر میں مشتبہ کیسز کی تعداد کم و بیش 200 ہے۔ نئے مثبت کیسز میں پانچ کا تعلق مردان سے ہے جو کہ مردان کے نواحی علاقہ منگاہ میں جاں بحق ہونے والے سعادت خان کے رشتہ دار ہی ہیں، برطانوی نیوز ایجنسی را ئٹرز کے مطابق پاکستان میں کرونا وائرس سے ہونیوالی پہلی ہلاکت نے پاکستانیوں کو لاحق خطرات بے نقاب کردیئے ہیں سعادت خان بغیر کسی ڈاکٹری تعلیم کے گاؤں میں کلینک بھی چلاتا تھا اور بیماری کے بعد وہ بیٹوں کیساتھ ایک ہی کمرے میں رہا جبکہ باپ کے گھر پر ہونے کے دوران بیٹے کلینک پر مریضوں سے رابطے میں رہ کر گھر واپس آتے رہے جس کے باعث وائرس مریضوں اور ان کے ذریعے دیگر افراد میں پھیلنے کا خدشہ تقویت پکڑ گیا۔
حکومتی اقدامات کے حوالے سے اجمل خان وزیر نے بتایا کہ کرونا وائرس کے پیش نظر وزیراعلی خیبرپختونخوا محمود خان نے انقلابی اقدامات اٹھائے ہیں اور 1299 نئے ڈاکٹروں کی فوری تعیناتی کے احکامات جاری کیے ہیں، وسائل کی کمی عوام کی خدمت میں آڑے نہیں آئے گی،ہم گھنٹوں کی بنیاد پر صورتحال کا جائزہ لے رہے اور ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں، انہوں نے جید علمائے کرام کے ساتھ اپنی طویل نشست کی روداد سنائی اور کہا کہ ہمارے عالم دین بھی حکومتی اقدامات سے متفق اور مطمئن تھے جن کا یہ بھی کہنا تھا کہ کورونا وائرس سے متاثر ہو کر جاں بحق ہونے والوں کو شہید قرار دیا جانا چاہئے، یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وزیر اعلی محمود خان نے پشاور کے نواحی علاقے دوران پور میں زائرین کے لئے قائم قرنطینہ مرکز کا دورہ کیا جہاں 150 سے زائد افراد کے لئے قرنطینہ کی گنجائش موجود ہے، ضرورت پڑنے پر مزید گنجائش پیدا کی جاسکتی ہے۔ مرکز میں ہر فرد کے لیے الگ کمرہ اور دیگر تمام سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ ڈیوٹی پر مامور تمام عملے نے رضاکارانہ طور پر خود کو بھی مرکز کے اندر محدود کر رکھا ہے۔
کورونا کے جان لیوا وائرس کے حوالے سے ایک اہم ایشو یہ ہے کہ بعض افراد غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اپنی ہنسی مذاق کی خاطر سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ محراب و منبر کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے، یہ نہایت غیر مہذب اور احمقانہ حرکت ہے جس کا نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ بنوں میں پیش آیا جس پر مقامی پولیس نے مزاحیہ نظم گانے کے الزام میں دو علماء سمیت تین افراد کو گرفتار کر لیا اور ان پر عوام کو ورغلانے، ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے اور اشتعال پھیلانے کے الزامات عائد کئے گئے ہیں، اسی طرح ایک سٹوڈیو مالک بھی گرفتار کر لیا گیا۔ایک صائب مشورہ اور مثبت تجویز یہ ہے کہ صوبائی حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن ایک ہفتہ قبل ہی ادائیگی کا بندوبست کر دے تو دفاتر یا بنکوں میں رش کی صورت حال پیدا نہیں ہو گی، اس مقصد کے لئے صرف اتنی تگ و دو کرنا پڑے گی کہ فنڈز کا کچھ دن پہلے انتظام کر کے انہیں بنکوں میں بھجوا دیا جائے۔