”منجمدسرمایہ کاری“
کسی بھی ریاست کی سمت کا تعین پالیسی سازادارے طے کرتے ہیں، یہ کام انتہائی اہم بلکہ حساس نوعیت کا ہے۔ دراصل قانون سازی ایک ایسا عمل ہے جو اجتماعی بصیرت کا اظہار ہوتا ہے اس سے نہ صرف ریاست کا مستقبل،بلکہ حال بھی وابستہ ہوتا ہے۔قانون سازی کے مختلف مراحل کے بعد قوائد و ضوابط ماتحت ادارے طے کرتے ہیں،جو رولز یا پھر ریگولیشن کی صور ت میں ایکٹ آف لا کی صورت میں نافذ کئے جاتے ہیں، جن کے ذریعے تمام ایسے راستوں کی بندش کیا جا نا مقصو د ہوتا ہے جو استحسصال کا باعث بن سکتے ہوں۔ ہم اپنے ارتقا کے عمل سے اب تک تقریباً 75 سال کا سفر طے کر چکے ہیں،
جبکہ ابھی تک ہمارا تمام تر انحصار ایسے قوانین پر ہے جو غالباہمارے وجود میں آنے سے بھی پہلے کے نافذ العمل ہیں۔ ان میں کس حد تک ہم جدت لا سکے ہیں یہ ہمارے تدبر کا اظہار ہے۔ اسی طرح کسی بھی ملک کی ریگولیٹری اتھارٹیز کا کام بھی انتہائی اہم ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی مختلف ریگو لیٹریز اتھارٹیز کام کر رہی ہیں جن کا کام اپنے دائرہ اختیار کے اندر رہتے ہوتے عوامی مفاد کو ریگولیٹ کرنا اور سرکاری مفادات کا تحفظ کرنا اولین زمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ کسی بھی ملک میں ریگولیٹری اتھارٹیز کا کام نہ صر ف اہم،بلکہ انتہائی اہم ہوتا ہے۔ پاکستان میں جو ریگولیٹری اتھارٹیز کام کر رہی ہیں ان میں قابل ذکر سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان ہے،جو کمپنیز کے معاملات کو ریگولیٹ کرتی ہے۔
کمپنیز کی رجسٹریشن سے لے کر ان کے دائر اختیار تک کا تعین سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے دائر اختیار میں ہے۔ ۱سی طرح ٹیکسیشن کا نفاذ ایف بی آرکا مینڈیٹ ہے۔ زمین اور اس سے متعلقہ تمام تر اختیارات کا مرکز بورڈ آف ریونیو اور اس کے ماتحت اداروں کے دائرہ اختیار میں ہے۔ جو کہ بذریعہ ڈسٹرکٹ کلکٹر نافذ العمل ہیں۔ضلعی اور تحصیل سطح پر ڈویلپمنٹ اتھارٹیز ہیں، جن میں قابل ِ ذکر ایل ڈی اے، ایف ڈی اے یا پھر سی ڈی اے ہیں۔ ڈویلپمنٹ اتھارٹیز نہ صرف شہر کاماسٹر پلان تیار کرتی ہیں،بلکہ ہاؤسنگ کے معاملات کو بھی ریگولیٹ کرتی ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ تما م ریگولیٹریزاتھارٹیز کا آپس میں کوئی تال میل نہیں ہے،جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اتھارٹیز Isolation میں کام کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر کاروبار کے لئے کمپنی سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے پاس رجسٹریشن کے لئے جاتی ہے اور لیگل پرسن کا درجہ حاصل کرتی ہے،جو آرٹیکل آف ایسوسی ایشن اور میمورنڈم آف ایسوسی ایشن کے تحت اپنے کاروبار اور دایرہ اختیار کا تعین کرتی ہے۔ بعد از اں تکمیل رجسٹریشن لیگل پرسن کسی بھی طرح کی قد غن سے تقریبا آزاد ہے۔ مثال کے طور پر ایک کمپنی ٹیکسٹائل کے لئے رجسٹر کی جاتی ہے اور میمورنڈم آف ایسوسی ایشن میں اس بات کا تعین بھی کر دیا جاتا ہے کہ کمپنی کس مقصد کے لئے بنائی گئی ہے،جبکہ کچھ عرصہ بعد یہی کمپنی اپنے منافع سے زمین خریدنا شروع کر دیتی ہے۔
اپنا سارا منافع رئیل سٹیٹ میں لگانا شروع کر دیتی ہے۔اس کام کے لئے کمپنی پر کوی قدغن نہیں۔ کمپنی اپنا تمام تر منافع کاروبار سے نکال کر رئیل سٹیٹ میں لے جاتی ہے۔ نتیجتاً مزدور اپنی نوکری سے،سرکار اپنے حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ بالآخر انڈسٹری کا پہیہ جام ہو جاتا ہے، جس کا نتیجہ زرعی آمدن کی مد میں انڈسٹریل ٹیکس Evasion کی صورت میں نکلتا ہے۔ انڈسٹری سے کمایا گیا پیسہ زرعی آمدن میں ظاہر کر کے ایک طرف خزانہ سرکار کو نقصان پہنچایا جاتا ہے، جبکہ دوسری طرف انڈسٹری سے پیسہ نکال کر مزدور کی خون پسینہ سے کمایا گیا پیسہ اوراس کے تما م تر فوائد سے اسے محروم کر دیا جاتا ہے۔ ان سارے معاملات میں ریگولیٹر جو کہ ایس ای سی پی ہے معاملات سے بالکل لا تعلق نظر آتاہے،جو ضروری اقدامات درکار ہیں۔ ان میں سب سے اہم کردار SECP کا ہے، جس میں تمام تر کمپنیز جن میں ہاؤسنگ سے لے کر انڈسٹریل کمپنی تک شامل ہیں ان کا ریگلولیٹر ایس ای سی پی ہے۔ مثا ل کے طور آج کوئی بھی شخص کمپنی رجسٹر کرنا چاہے کسی بھی نام سے ہو اور کسی بھی کاروبار کے لئے ہو۔ وہ دوسرے ہی دن کمپنی کے نام پر ہزاروں ایکڑ اراضی خرید کرے اس کی کو ئی ممانعت نہیں ہے۔
بعد ازاں جس مقصد کے لئے چاہے وہ استعمال کرے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کے پاکستان میں انڈسٹری کا پہیہ چلے تو پھر انڈسٹری کاپیسہ رئیل سٹیٹ میں پارک ہونے سے روکنا ہو گا یہ اس دن ممکن ہو گا جب ریگو لیٹر طے شدہ مینڈیٹ کے مطابق کام کرنے کی اجازت دے ورنہ خوشحالی کا دروازہ صرف صنعت کار یا سرمایہ دار پر ہی کھلے گا۔ اور ہاؤسنگ سو سایٹی کی مشروم گرو تھ بھی نہ روکی جا سکے گی ما سٹر پلان دھرے کے دھرے رہ جا ئیں گے اور بیش بہا قیمتی زرعی اراضی اینٹوں کے بھنٹوں میں جھونک دی جا ئے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوانین میں اگر ترامیم ضروری ہیں تو وہ کی جائیں۔ اس طرح کی تمام تر صورت سے حال نمٹنے کے لئے ریگولیٹر کا کردار انتہائی اہم ہے۔ مثلا کوئی بھی کمپنی یا لیگل پرسن ایس ای سی پی میں طے کئے گئے دائرہ اختیار سے تجاوز نہ کر سکے تمام ریونیو اتھارٹیز کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ کمپنی سپیشل ریزولیشن کی بنیادپر نہیں،بلکہ بعد از حصول ایس ای سی پیNOCحاصل کیے بغیر زمین خرید نہ کی جا سکے اور اس کے واضع کردہ پلان کے مطابق درکار NOC کے بغیر زمین کی خرید و فروخت نہ کر سکے،جس کے لئے میرے خیال میں شاید قانون سازی بھی درکار نہ ہوگی، بلکہ قوائد و ضوابط میں ضروری ترامیم کے ذریعے ہی کیا جا سکے گا۔ ورنہ دن بدن ہمارا انحصاردرآمدی اشیا پر بڑھے گا اور برآمدات سے کمایا گیا پیسہ منجمد سرمایہ کاری میں دفن ہو جائے گا۔