آذر بائیجان، پاکستان...اور عمران خان
کرونا کے بعد آذربائیجان میں دو سال کے بعد سیاحت کے دروازے کھلے ہیں۔ آذربائیجان کا دارالحکومت باکو ہے جو آذربائیجان کا تو بڑا شہر ہے مگر لاہور کراچی جیسے بڑے شہروں میں نہیں گنا جا تا۔ 2020ء کی مردم شماری کے مطابق آذربائیجان کی آبادی ایک کروڑ سے تھوڑی زیادہ تھی۔ باکو چھوٹا سا صاف ستھرا قدامت و جدت کا مرقع ہے۔ طرز تعمیر ترکی اور کلچر امارات سے ملتا جلتا ہے۔ نوے فیصد سے زیادہ مسلمان آبادی ہے۔ سیاحت کا بہترین سیزن جولائی سے نومبر ہے۔ جس میں درجہ حرارت تیس ڈگری تک ہوتا ہے جو گرتے گرتے منفی3تک آجاتا ہے۔ آج کل زیرو سے تھوڑا اوپر دو3تک ہے۔ باکو سے تین گھنٹے کی مسافت پر قبالہ ہے وہاں آج بھی ٹمپریچرمنفی 4ڈگری سنٹی گریڈ تھا۔ جب سے ہم لوگ آئے ہیں سورج آنکھ مچولی کرتا ہے اور دن بھر تیز ہوا بھی چلتی ہے۔ آذربائیجان حکومت کی طرف سے سیاحت کے ویزے جیسے ہی کھلے قطع نظر موسم کی شدت کے لوگوں نے آذربائیجان خصوصی طور پر باکو کا رخ کیا۔
کراچی کی عالی شان ٹورز کمپنی نے یہ ٹرپ ارینج کیا تھا۔ اس گروپ میں پچاس لوگ تھے۔ زیادہ کا تعلق کراچی سے تھا۔کراچی ہی سے دبئی ایئر لائن میں بکنگ کی گئی۔ میں نے اور بیٹے طاہر نے لاہور سے کراچی جانے کے بجائے لاہور سے دبئی کے راستے باکو جانے کا فیصلہ اس لیے کیاکہ کراچی میں چھ گھنٹے رکنا پڑتا۔ لاہور سے ٹکٹ پونے دو لاکھ کا جبکہ فیصل آباد سے98ہزارکا تھا لہٰذا فیصل آباد سے روانگی کا پروگرام طے کیا۔ ٹورز آپریٹرز کو 65ہزار ادا کئے۔جس میں ہوٹلنگ،ناشتے، لنچ اور ڈنر سمیت شامل تھا۔ فیصل آباد سے سفرکا تجربہ ناخوشگوار رہا۔ سارے ڈاکو منٹس پورے تھے۔ سامان کی سکیننگ اور جوتا اترائی دوبار ہوئی۔ سامان کا وزن کر کے اس پر ٹیگ لگا کر آگے بھیج کر کاؤنٹر پر بیٹھے نوجوان نے ٹکٹ بنا کر ایک طرف رکھ دیئے اور رائل ایئر سے ویزے کی مہر لگوانے کو کہا۔ ہم دوڑے دوڑے وہاں گئے تو صاحب نے نو کہہ دیا۔ ایک فون کیا اور کہا کہ کاؤنٹر پر چلے جائیں مگر وہاں پھر انکار تھا۔ ساتھ والے کاؤنٹر پر تشریف فرما نوجوان نے ویزے لگوانے والوں سے ویزے پر سٹمپ لگوانے کو کہا یہ سٹمپ اوکے ٹو بورڈ کہلاتی ہے۔ وہ بھی آن لائن لگ گئی۔
تین سوا تین گھنٹے میں دبئی اور اگلی پرواز سے پونے تین گھنٹے میں باکو پہنچ گئے۔ دبئی میں بھی سکیننگ ہوئی جس میں کسی قسم کی سبکی کا پہلو نہیں تھا۔باکو ایئر پورٹ پر ویزے پر سٹمپ لگنی تھی جہاں سوال جواب ہو سکتے تھے مگرامیگریشن کاؤنٹر پر ڈیڑھ منٹ لگا اور ایک سوال بھی نہیں کیا گیا۔ دبئی ایئر پورٹ پراترے تو خنک ہوا چل رہی تھی جبکہ لاہور اور فیصل آباد میں مارچ کی20تاریخ کو بھی خاصی گرمی تھی۔
باکو ایئر پورٹ سے باہر آئے تو شدید سردی تھی۔ ہوٹل سے ٹیکسی ڈرائیور آ چکا تھا۔ ٹیکسی تک پہنچنے میں تین منٹ لگے جس دوران سردی سے میرے دانت بجنے لگے۔ یہ رات 11 بجے کا وقت تھا۔ڈرائیور کو اردو کیاآنی تھی وہ انگریزی سے بھی نابلد تھا۔ آذربائیجان میں سیاحوں کے لیے بڑا مسئلہ اس ملک کے لوگوں کا انگلش سے لاتعلق ہونا ہے۔ بہت کم لوگ جو ہوٹلوں میں ملازم ہیں یا دکاندار، انگریزی زبان سے واقف ہونگے۔ ہوٹل الٹس میں ہماری بکنگ تھی۔ اس کے دروازے پر نام کے نیچے پانچ سٹار بنے ہوئے ہیں جس سے تاثر5سٹار ہوٹل کا بنتا ہے مگر سہولیات 2سٹار جیسی ہیں۔ عملہ گو اپریٹو تھا۔ ہمارے روم میں دو سنگل بیڈ ہیں۔ کمرے میں کرسی تک نہیں ہے۔
ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں کھانا ٹور کمپنی کی طرف سے ارینج کرایا جاتا ہے۔ ناشتے، لنچ اور ڈنر کا معیار اعلیٰ ہے۔ باہر سے کھانا کھلایا توبھی کنجوسی نہیں کی گئی۔50لوگوں کو ہینڈل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ لوگ چونکہ پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے تھے لہٰذا نظم و ضبط نظر آیا۔ گروپ میں ہر عمر کے لوگ تھے۔ ساتھ آٹھ فیملیز بھی تھیں۔
رات بارہ سوا بارہ بجے میں اور طاہر ہوٹل کے ریسٹورنٹ گئے تاکہ کچھ کھا پی لیں۔ جہاز میں جو کچھ دیا گیا اسے ریفریشمنٹ کہا جا سکتا ہے۔ ہم لوگ گروپ سے ایک روز پہلے چلے آئے تھے،35سو روپے میں اسی ہوٹل میں اپنے طور پر کمرہ بک کرالیا تھا۔ یہ اورویزہ ٹکٹیں وغیرہ سب کچھ آن لائن ہوا۔
ہوٹل سے باہر بھی کھانے کو کچھ نہ ملا تو ایک ٹیکسی ڈرائیور سے بات کی۔ اس نے میکڈونلڈ کا بتایا۔ اسی کو لے کر چل پڑے۔ اس نے ٹیکسی چلاتے ہوئے ٹوٹی پھوٹی انگلش میں پوچھا کہ ہم پاکستانی ہیں۔ ہمارے ہاں کہنے پر وہ توجذباتی ہو گیا۔ ویری گڈ، پاکستان ہمارا محسن ہے، ہمارا بھائی ہے۔ نگورنوکاراباخ کی آزادی میں پاکستان نے آذربائیجان کا ساتھ دیا۔ اس کی باتوں سے ایسی مسرت ہوئی کہ ہماری تھکاوٹ کے ساتھ ساتھ بھوک بھی جاتی رہی۔ اگلے روز گروپ کے کچھ لوگ دوپہر کو آگئے ان کے ساتھ نظامی سٹریٹ چلے گئے، وہیں انڈین ہوٹل سے کھانا کھایا۔ یہ سٹریٹ آذربائیجان کے فارسی کے رومانوی شاعر نظامی گنحوی کے نام پرہے ساتھ ہی اس کا بلند قامت مجسمہ بھی نصب ہے۔
اگلے روز گروپ مکمل ہو چکا تھااور پہلے سیشن میں فلیم ٹاورزجانے کا پروگرام ترتیب دیا گیا۔ شہر کے وسط میں کھڑی ’شعلے‘ کی شکل سے مشابہت رکھتی تین عمارتیں ’فلیم ٹاورز‘ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسے قدیم شہر کی تاریخ اور اس کے مزاج کی عکاس ہیں جسے ’شعلوں کی سرزمین‘ بھی کہتے ہیں۔ ان کے ساتھ ہی ایک بوسٹر نما ٹاور ہے جو کسی موبائل کمپنی کے ٹاور سے مشابہ ہے۔ مگر یہ سو میٹر کی بلندی پر بنایا گیا منفرد ریسٹورنٹ ہے۔فلیم ٹاورز کیسامنے بیس پچیس میٹر بلندی پر ایک شعلہ بھڑک رہا ہے۔1961ء تک یہ قدرتی گیس سے جلتا رہا۔1918ء اور 1991ء میں شہید ہونے والوں کی قبریں بھی اس سے متصل ہیں جن کے اردگرد پھولوں کی پھلواڑیاں ہیں۔
اس جگہ ہم لوگ ایک ڈیڑھ گھنٹہ ٹھہرے یہ ساحلی علاقہ ہے مگر ریت نہیں ہے۔ ویسے تو آذربائیجان سطح سمندر سے28فٹ نیچے ہے۔ سمندر کے ساتھ خوبصورت عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔ لگتا ہے نصب کر دی گئی ہیں۔ ڈینس ہال شگوفے کی مانند خوبصورت ہے۔ آذربائیجان میں 21مارچ سے31تک اپنے نئے سال کا جشن منایا جاتا ہے۔ جس کی تقریبات ہو رہی تھیں اس کے لیے نظامی سٹریٹ کو دلہن کی طرح سجایا گیا ہے۔ ڈینس ہال کے ساتھ فیرس ویل جسے باکو آئی اینڈ ڈیول ویل بھی کہتے ہیں۔ سمندر کے اندر ایک حسین منظر پیش کرتا ہے۔ کئی مقامی لوگوں ں سے ملنے کا موقع ملا۔ خصوصی طور پر دکانداروں سے۔ سب کی زبان پر پاکستان کا نام احترام اور محبت سے آتاہے۔ ایک تعلیم یافتہ آذربائیجانی نے پاکستان کی حد درجہ تعریف کی۔وہ عمران خان کو گریٹ لیڈر قرار دے رہا تھا۔ عمران جس کے ساتھ کھڑا ہو جائے پھر پیچھے نہیں ہٹتا۔ علی کہہ رہا تھا کہ آرمینا کے ساتھ جنگ میں پانچ سو پاک فوج کے سپوت شہید ہوئے۔ پاکستان نے ہمارے وطن کی خاطر اپنا خون دیا ہے، پاکستان ہمارا محسن ہے۔ہمارے لیے یہ سب عمران خان نے کیا۔