28مارچ…… عمران خان خطرے میں یا جمہوریت

28مارچ…… عمران خان خطرے میں یا جمہوریت
28مارچ…… عمران خان خطرے میں یا جمہوریت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


میں صحافتی طالب علم کی حیثیت سے25سال بعد اعترافِ جرم کر رہا ہوں میں پاکستانی سیاست کو سمجھ سکا ہوں نہ صحافت کو زمانہئ طالب علمی سے سیاسی رموز کی آگاہی کی طرف بڑھتے ہوئے قانون کی تعلیم تو حاصل کر لی،مگر آئین کی تعریف سمجھ نہ سکا۔ یہی حال صحافت کی کتاب پڑھنے کے بعد ہوا ہے، رزق تو مل رہا ہے، مگر صحافت کے گُر سمجھنے سے قاصر ہوں، حالانکہ دو دہائیوں سے کھولی آنکھوں کے ساتھ سیاست کی طاقت اور صحافت کی عبادت کو بھی دیکھ چکا ہوں،زیادہ دیر کی بات نہیں، دائیں اور بائیں بازو، لفٹ اور رائٹ، سبز ہے سبز ہے سز ہے ایشیا سبز ہے، سرخ ہے ایشیا سرخ ہے۔نظریات کی جنگ، پاک فوج کے سنگ، پاکستان کا مطلب کیا؟ دِل پسند نعرے دفن ہو چکے ہیں،ان کی جگہ ایک دوسرے کو غدار، ملک دشمن، کرپٹ، انڈین ایجنٹ، یہودی ایجنٹ کی گردان نے نام کمایا ہے جن کے خلاف قلم اٹھاتے خوف آتا ہے، آخرت کی فکر ستاتی تھی ان سے ایسی کاروباری دوستی اور دشمنی بنی اب صبح، دوپہر، شام زبان اور قلم آزادی کے نام پر ان کے گُن گائے جا رہے ہیں۔ کسی کو ہیرو اور کسی کو زیرو بنانے سے گریز نہیں کیا جا رہا۔75 سال بعد بھی کسی وزیراعظم کو مدت (جو آئینی ذمہ داری ہے) پوری نہیں کرنے دی جا رہی، اس پر یکسوئی پیدا کرنے کے لئے ماضی کی تلخیوں کو یکسر نظر انداز کر کے اور نظریات کو پس ِ پشت ڈال کر دنیاوی خواہشات کی تکمیل کے لئے جہاد جاری ہے۔وزیراعظم عمران خان جن کی ایمانداری کے بڑے بڑے دانشور اور اینکر معترف ہو چکے ہیں اس کے باوجود25 سے30 مارچ فساد فی الارض برپا کرنے کے لئے ہر طرح کا ایندھن فراہم کرنے کے لئے معاونت جاری ہے۔


عمران خان جس شخص کا نام ہے ذاتی طور پر میں کبھی اس کے نظریات کا حمایتی نہیں رہا،البتہ ایک نعرہ جو شاید عمران خان کے بعد سراج الحق نے لگایا ہے پاکستان میں تبدیلی کوئی شخص یا فرد اکیلا اُس وقت تک نہیں لا سکتا جب تک نظام تبدیل نہیں کیا جاتا،اس کے لئے بے شمار مثالیں دی جاتی ہیں اور سب سے بڑی مثال عمران خان کی دی جا رہی ہے،اس کی نیک نیتی اور تبدیلی لانے کے عزم کے آگے جس موثر انداز میں بیورو کریسی اور مشیران کی فوج سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنی اور جس انداز میں ان کی22سالہ طویل جدوجہد کے بعد ملنے والی منزل کے ساتھ سیڑھیاں چھ چھ ارکان رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی لگا کر سہارا دیا گیا اور2018ء میں اڑنے والے جہاز کی سواریوں کی پانچ  سال بعد کی واپسی کی کنفرم ٹکٹ کو کینسل کر کے ساڑھے تین سال بعد نئی ٹکٹ اور نئی منزل دے کر پاکستانی سیاست اور جمہوری رویوں کا خون کیا جا رہا ہے،اس میں مجھے کہنے دیا جائے، ایمپائر نیوٹرل کبھی نہیں ہوتا،البتہ ایمپائر کی تعریف بدل جاتی ہے

جس طرح دائیں بائیں سرخ سبز کی تاریخ اور تعریف بدل چکی ہے۔ اسی طرح ایمپائر کی تاریخ اور تعریف مال و دولت کی صورت میں بدل چکی ہے۔10کروڑ اور 16 کروڑ کی شکل میں جمہوری سکے رائج ہو چکے ہیں اس وقت سب سے اہم سوال جو ہر فرد کی زبان پر ہے اب کیا ہو گا؟ سوشل میڈیا پر 40سے 70 ارکان اسمبلی کی1985ء سے2018ء تک کی تاریخ بیان کی جا رہی ہے،جن کو مرضی کی جماعت میں بھیج کر نئی پارٹی میں شامل کرا کر زر زن کا لائچ دے کر جمہوریت کی خدمت کا موقع دیا جاتا رہا ہے۔تاریخ بتاتی ہے پاکستان میں تبدیلی کے محرک لوٹے رہے ہیں، لوٹے جب بھی پوزیشن تبدیل کرتے ہیں، تبدیلی آ جاتی ہے،زیادہ غصہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے،28مارچ کی تبدیلی بھی انہی سنہری روایات کا شاخسانہ ہے۔

عمران خان کے گناہ اتنے زیادہ ہیں،ان کا جرم اتنا بڑا ہے اس کی سزا دینے کے لئے پاکستان کے جمہوری نظام کے علمبرداروں کو اتحاد کرنا پڑ گیا ہے پوری قوم کمر توڑ مہنگائی،سرحدوں پر منڈلاتے خطرات،گلی محلوں میں برپا بے حیائی اور اخلاقی قدروں کے نکلتے جنازے کو بھول چکے ہیں۔ عالم اسلام کی تاریخ کو بھولانے کے در پے ہیں، دو جہانوں کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسم کے فرمودات اور قیامت تک کے لمحات کی واضح تاریخ موجود ہونے کے باوجود ہم خطے کے خطرات کو سمجھنے اور تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ میں اسلامو فوبیا کی قرارداد کی متفقہ منظوری،ریکوڈک کیس کے خاتمے، 9ارب ڈالر کی معافی اور سرکاری خزانے کو فائدہ  بلوچستان کے لئے ریکوڈک کمپنی کے نئے معاہدے اور48ویں او آئی سی کے پاکستان میں اجلاس،چین سمیت 57ممالک کے وزرائے خارجہ کی شرکت،دو روزہ اجلاس میں 140 قراردادوں کی منظوری اور وزیراعظم پاکستان کے کشمیر اور فلسطین و دیگر اسلامی ممالک کی حالت ِ زار کا واسطہ دے کر امت مسلمہ کے اتحاد کی درخواست معمولی عمل نہیں ہے۔ عمران خان کو معافی نہ دیں پاکستان کی سالمیت کے تقاضے پورے کرنے کے لئے سرحدوں پر منڈلاتے خطرات پر تو نظر ڈالیے، انڈیا، اسرائیل ملکی معیشت کے دیوالیہ کے لئے سی پیک کے آگے سیسہ پلائی دیوار بننے کے لئے پورے وسائل بروکار لا رہا ہے اور ہم ان خطرات کوسمجھنے کے باوجود او آئی سی اجلاس کو پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کا توڑ قرار دینے پر بضد ہیں۔

ڈالر181سے اوپر جا رہا ہے،ہم او آئی سی کو طالبان کا ایجنڈا قرار دے رہے ہیں اب سوچنے کی بات یہ ہے۔وزیراعظم عمران خان کو زیادہ خطرہ ہے یا جمہوریت کو؟ آج سے اسلام آباد میں شروع ہونے والا پُرتشدد فائنل جیتنے سے کس کا نقصان اور کس کا فائدہ ہو گا،ہر فرد ضرور سوچے،اس ایکسر سائز سے عوام کو کیا ریلیف ملنے والا ہے۔آخر میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد محب وطن اور جمہوریت کی علمبردار1+11 جماعتوں کے درمیان متوقع دنگل کی گونج سوشل میڈیا پر تین مینڈوں کی لڑائی کی صورت میں دکھائی جا رہی ہے اس پر تبصرہ ضروری ہے۔ پی ڈی ایم کی جماعتیں، اپریل فول 2022ء کے دن سے پکنے والی دال کی بندر بانٹ کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔مارچ2022ء کے آخری ہفتے کی جنگ جدل کے درمیان آپ نے فیصلہ کرنا ہے عمران خان کو زیادہ خطرہ ہے یا جمہوریت کو۔ 1985ء سے نامزد لوٹے کنفرم ٹکٹ لے کر نئی منزل کی طرف روانہ کیے جا چکے ہیں منزل پر پہنچ جاتے ہیں تو عمران خان کی چھٹی اس کے بعد کون وزیراعظم بنے گا؟ اور پی پی کے اقتدار کا مزا تو قوم تین تین دفعہ لے چکے ہیں اب مقابلہ کا آغاز ہوا چاہتا ہے میری طرح آپ بھی دیکھئے اور انتظار کیجئے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد تین ماہ  یا چھ ماہ بعد الیکشن ہوتے ہیں یا جمہوریت کے انتظار کے لئے قوم کو دوبارہ دس سال انتظار کرنا پڑتا ہے؟
لگی ہے پھر صدا اک بار کہ سردار بدلے گا
فرعونی سلطنت کا بس اک کردار بدلے گا
جس قوم کو خود پر جبر سہنے کی عادت ہو
وہاں کب کچھ بدلا ہے جو اس بار بدلے گا

مزید :

رائے -کالم -