پیر ِکامل حضرت محمد عنایت احمد ؒ نقشبندی مجددی
قطب ِدوراں، منبع ِرشدو ہدایت، خلیفہ مجاز حضرت کرماں والا شریف
گیارہواں عرس 26اور27 مارچ کو منایا جا رہا ہے
محمد اسلم لودھی
جو بھی انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن یہاں سے اپنے رب کے پاس لوٹ کر جانا ہے،لیکن کچھ ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جنہوں نے صرف اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب حضرت محمد ﷺ کے ارشادات کو مخلوق تک پہنچانے اور بھٹکے ہوئے انسانوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے اپنی زندگی کو وقف کردیاہوتا ہے۔ ایسی عظیم روحانی ہستیوں کو لوگ "ولی ئ کامل " کے لقب سے پکارتے ہیں۔ ایسی ہی ایک پُر تاثیر، پُروقار اور منبع ِرشد و ہدایت ہستی کا نام گنج ِعنایت،حضرت پیر محمد عنایت احمد ؒ نقشبندی مجددی ہے۔جن کی زندگی کا ایک ایک لمحہ دین ِالٰہی کو سیکھنے، شریعت ِمحمدیﷺ پر عمل پیرا ہونے اور بھٹکے ہوئے انسانوں کو راہ ِراست پر لانے میں صرف ہوا۔ آپ ؒ 73 سال کی عمر پاکر 31 جولائی 2011 ء کی دوپہر گیارہ بجے انتقال فرماگئے …… انا للہ و انا الیہ راجعون……بے شک ہم سب اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔اللہ نے ہی موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔ بے شک وہ زبردست اور بخشنے والا ہے۔(سورۃ الملک آیت نمبر 2)
گنج ِعنایت، پیرِ کامل، قطب ِدوراں، منبع ِرشد وہدایت حضرت محمد عنایت احمدؒ نقشبندی مجددی 1938ء کو وادیئ کشمیر کے معروف گاؤں " کلسیاں " کے ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔آپ ؒ کے والد حضرت صحبت علی ؒ شرافت، دیانت اور روحانیت کے اعتبار سے پوری وادی میں اپنی الگ پہچان رکھتے تھے۔حضرت صحبت علی ؒ بٹالہ شریف والوں کے مرید تھے جن کی شہرت پورے ہندوستان میں تھی۔تبلیغ ِدین اور روحانی فیض کے ساتھ ساتھ آپ ؒ کے والد ِگرامی کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی تھا، جبکہ پھلوں کے چند باغ بھی آپ ؒ کے خاندان کی ملکیت تھے۔ آپ ؒ کی والدہ (حضرت قاسم بی بی) بہت نیک سیرت اور پابندِ صوم و صلوۃ خاتون تھیں۔ خانہ داری کے ساتھ ساتھ گاؤں کی بچیوں کو قرآنِ پاک کی تعلیم بھی دیا کرتی تھیں۔ آپؒ کی پیدائش کے کچھ ہی عرصے بعد قطب الاقطاب حضرت سید ولایت شاہ ؒ مبارک باد دینے کے لیے آپؒ کے گھر تشریف لائے اور آپ ؒ کو گود میں لے کر پیار کرتے ہوئے فرمایا: ” اللہ نے اگر چاہا تو یہ بچہ اپنے وقت کا قطب، عالم ِدین اور منبع ِرشد و ہدایت ہوگا اور لاکھوں بھٹکے ہوئے انسانوں کو صراطِ مستقیم پر گامزن کرے گا“…… اللہ نے اپنے اس عظیم بندے کی زبان سے نکلنے ہوئے الفاظ کی کچھ اس طرح لاج رکھی کہ جب اس بچے نے منصب ِولایت پر فائز ہونے کے بعد خود کو دین ِالٰہی کی تبلیغ اور نبی کریم ﷺ کی محبت کو عام کرنے میں کچھ اس طرح وقف کردیا کہ شہر لاہور کے علاوہ دور و نزدیک کے قصبات اور شہروں سے لوگ جوق در جوق آپؒ کی زیارت اور فیض حاصل کرنے کے لیے آتے رہے۔
اوکاڑہ شہر سے شمال کی طرف حضرت کرماں والا کا ایک چھوٹا سا قصبہ موجود ہے، جبکہ اسی نام سے ریلوے اسٹیشن بھی انگریزوں نے بنایا تھا۔جیسا کہ نام سے ہی پتہ چلتا ہے کہ یہ قصبہ ایک ولی ئ کامل اور عظیم درویش صفت ہستی، حضرت سید اسماعیل شاہ بخاری ؒ کا مسکن ہے۔جب تک حضرت مولانا محمد عنایت احمد ؒنقشبندی مجدوی اشرف المدارس اوکاڑہ میں زیر تعلیم رہے، پیر انِ پیر حضرت سید اسماعیل شاہ بخاری ؒ المعروف حضرت کرماں والا سے والہانہ محبت کا رشتہ بھی استوار ہوتا رہا۔کئی ایک بار آپ ؒ شیخ القرآن حضر ت مولانا غلام علی اوکاڑوی ؒ کے ہمراہ آستانہ کرماں والا گئے۔پھر آپ ؒکے دل میں روحانیت کی منزلیں طے کرنے کا ایسا جنون طاری ہوا کہ ہردوسری تیسری شام اکیلے ہی پیدل چلتے ہوئے اوکاڑہ سے پانچ کلومیٹر دُور حضرت کرماں والا تشریف لے جانے لگے۔ اس کے باوجود کہ ابھی آپ ؒ کی عمر زیادہ نہیں تھی پھر بھی آپ ؒکی روحانیت کی جانب بڑھتی ہوئی دلچسپی دیکھ کر حضرت سید اسماعیل شاہ بخاری ؒ المعروف کرماں والا نے آپ ؒ کو خصوصی محبت سے نوازا۔ایک شام بیعت ہونے کا شوق دل میں موجزن ہوا تو آپ ؒ وقت اور موسم کی نزاکت کااحساس کئے بغیر پیدل ہی حضرت کرماں ؒ والا جا پہنچے۔حسن ِاتفاق سے اس وقت مغرب کی نماز ہوچکی تھی اور نماز کے بعد حضرت سید اسماعیل شاہ بخاری ؒ گوشہ ئ خاص میں وظائف میں مشغول تھے۔وہاں کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی،لیکن آپ ؒکسی نہ کسی طرح گوشہ ئ خاص میں داخل ہوگئے۔جب حضرت سید اسماعیل شاہ بخاری ؒ کی نظرِ کرم آپ ؒ پر پڑی تو انہوں نے آنے کی وجہ پوچھی۔ آپ ؒ نے کہا مَیں آپ ؒ کا مرید ہونے آیا ہوں۔
یہ سن کر حضرت سید اسماعیل شاہ بخاری ؒ نے فرمایا کہ تم تو ازل سے ہی میرے مرید ہو...... یہ کہتے ہوئے اپنا دست ِشفقت آپ ؒ کے سینے پر پھیرا اور فرمایا جاؤ ہم تمہیں دنیا کے تمام علوم عطا کرتے ہیں۔حضرت سید اسماعیل شاہ بخاری ؒ کے یہ الفاظ سن کر آپ کے بے قرار دل کو سکون حاصل ہوا۔پھرزندگی بھر کبھی پیرخانے سے رشتہ کمزورنہ ہوا۔بعد ازاں آپ ؒ پاکپتن شریف میں شیخ الحدیث مولانا منظور احمد صاحب کے ہاں بھی چند ماہ قیام پذیر رہے،لیکن انہوں نے آپ ؒ کو قصور شہر جانے کامشورہ دیا۔قصور شہر میں آپ ؒاستاد العلماء حضرت محمد عبداللہ ؒکے مدرسے میں آٹھ سال تعلیمی مدارج طے کرتے رہے۔ یہ 1969ء کا زمانہ تھا۔آپ ؒنے اے تھری گلبرگ تھرڈ لاہور میں مسجد کی امامت سنبھالی تو یہ مسجد انتہائی خستہ حال تھی۔آپ نے اسے از سر نو تعمیر کرنے کا عزم کیا اور 1971ء میں اپنے دستِ مبارک سے اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جس کا نام آپ ؒ نے مسجد طہٰ رکھا۔ابتدا میں جب آپ ؒ نے نمازِ جمعہ کااہتمام کیا تو نمازیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی، لیکن چند ہی سالوں میں عاشقانِ رسول ﷺ کا رُخ مسجد طہٰ کی جانب ہونے لگا۔ہر نماز کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ہزاروں لوگوں نے آپ ؒ کے دست ِمبارک پر اسلام قبول کیا۔لاہور اومنی بس ورکشاپ میں آپؒ مسلسل14سال تک درسِ قرآنِ پاک دیتے رہے۔اسی دوران حضرت سید ظہیر الحسن شاہ ؒ کراچی سے لاہور تشریف لائے۔ جب آپ ؒان سے ملاقات کے لیے گئے تو انہوں نے پہلی ہی ملاقات میں آپ ؒ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے پاس آپ ؒ کی ایک امانت ہے جو مَیں خلافت کی صورت میں آپ ؒ کو دینا چاہتا ہوں۔ اس طرح ہچکچاہٹ کے باوجود آپ ؒ کو ایک بڑے دینی گھرانے سے باقاعدہ خلافت مل چکی تھی اور چاروں سلسلوں میں مرید کرنے کی اجازت بھی۔
جب یہ خبر عقیدت مندوں تک پہنچی تو لوگ جوق در جوق آپ ؒ کے دست ِمبارک پر بیعت کرنے کے لیے مسجد طہٰ کا رُخ کرنے لگے۔ اس سے پہلے دیول شریف والوں نے بھی آپ ؒ کو تحریری خلافت عطا کررکھی تھی۔جب یہ بازگشت استادِ گرامی شیخ الحدیث حضرت محمد عبداللہ قادری اشرفی ؒ تک پہنچی تو انہوں نے پہلی تمام خلافتوں کی توثیق کرتے ہوئے اپنی جانب سے بھی خلافت عطا کر دی۔ اسی طرح ایک مرتبہ شیخ القرآن حضرت غلام علی اوکاڑوی ؒ، جن کے شاگردوں میں ہزاروں مفتی ٗ عالم اور ولی شامل ہیں، مسجد طہٰ تشریف لائے تو انہوں نے اپنے خطاب کے دوران سب کے روبرو فرمایا کہ جب روزِ محشر خدا مجھ سے پوچھے گا کہ اے غلام علی تو دنیا سے میرے لیے کیا لایا تو مَیں انتہائی ادب و احترام سے عرض کروں گا کہ پروردگار مَیں تیرا ایک نیک متقی اور پرہیز گار بندہ " محمد عنایت احمد "لایا ہوں۔یہ کہتے ہوئے آ پ ؒ نے فرمایا کہ میرے پاس جو کچھ بھی ہے، وہ میں "محمد عنایت احمد" کو عطا کرتا ہوں۔شیخ المشائخ پیر طریقت حضرت سیدمحفوظ حسین شاہ ؒ (گدی نشین مکان شریف)نے بھی آپ ؒ کو سلسلہ نقشبندیہ میں خلافت عطا فرمائی۔حضرت کرماں والا کا فرمانِ عالی شان تھا کہ جو شخص حضرت کرماں والا نہ آسکے، وہ گلبرگ تھرڈ لاہور کی مسجد طہٰ میں محمد عنایت احمدکے پاس چلاجائے۔ وہاں بھی وہی فیض ملے گا جو حضرت کرماں والا آنے والوں کو ملتا ہے۔
26مارچ بروز ہفتہ 2022ء کو دربارِ عالیہ حضور گنج عنایت ؒ کبوتر پورہ اے تھری گلبرگ تھری گورومانگٹ لاہور میں صاحبزادہ محمد عمر کی صدارت میں آپؒ کا گیارہواں عرس مبارک شروع ہو گا۔عرس کی تقریبات بروز اتوار27 مارچ 2022ء کو بھی جاری رہیں گی، جس میں ملک بھر سے مشائخ، خلفائے عظام، مریداور عقیدت مند شریک ہوں گے۔
final