توکل:محنت کے بعد اللہ پر بھروسہ۔۔۔۔!!!!!!!

توکل:محنت کے بعد اللہ پر بھروسہ۔۔۔۔!!!!!!!
توکل:محنت کے بعد اللہ پر بھروسہ۔۔۔۔!!!!!!!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر: علامہ محمد اسیدالرحمن سعید 

توکل عربی زبان کاایک لفظ ہے جس کے معنی سپردکرنے کے ہیں ۔حضرت غزالی رحمہ اللہ علیہ نے توکل کی تعریف یہ بیان فرمائی ہے کہ توکل یہ ہے کہ دل کا اعتماد صرف اُس ذات پر ہو جو کارسازِ حقیقی ہے۔
اسی طرح اللسان میں ہے کہ اللہ پر توکل یہ ہے کہ متوکل کو معلوم ہو کہ اس کے رزق اور تمام معاملات کا کفیل صرف وہی ہے ۔صرف اسی کی طرف مائل ہو،غیر کے سہارے کا محتاج نہ ہو۔(اللسان 11؍734)
علامہ ابن رجب رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ توکل نام ہے دنیا وآخرت کی مصلحتوں کے حصول اور مضرتوں کے دفاع میں اللہ عزوجل پر صدقِ اعتمادکا۔۔(جامع العلوم لابن رجب409)
یعنی انسان اللہ تعالی کے بھروسہ پر اپنی محنت و کوشش کے نتائج اور واقعات کے فیصلہ کو اللہ تعالی کے سپرد کر دے۔اسباب و علل کے پردے اس کے سامنے سے اٹھ جائیں،اور براہِ راست ہر چیز اللہ تعالی کے قبضۂِ قدرت میں نظر آئے،بظاہر اسباب وعلل گو ناموافق ہوں۔مگر یہ غیر متزلزل یقین پیدا ہو کہ یہ نا موافق حالات ہمارے کام میں ذرا برابر بھی مؤثر نہیں ہو سکتے۔بلکہ اصلی قوت و قدرتِ عالم اسباب سے ماورا ہستی کے ہاتھ میں ہے۔ متوکل انسان توہم پرست نہیں ہو سکتا کیونکہ توہم پرست بے یقینی کی زندگی گزارتا ہے،در بدر کی ٹھوکریں کھاتا ہے،کئی آستانے بدلتا ہے، بالاخر مایوسی ہی اسکا مقدر ٹھہرتی ہے۔متوکل انسان کامیابی پر اپنی تدبیر پر اتراتے ہوئے غرور و تکبر کی راہ اختیار نہیں کرتا بلکہ اپنے مالکِ حقیقی کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو جاتا ہے اور اگر نتیجہ اچھا نہ بھی نکلے تو تب بھی اس میں اپنے خالقِ رب ذوالجلال کی حکمت و مصلحت اور مشیت سمجھتا ہے،مایوس نہیں ہوتا۔اللہ تعالی پر بھروسہ کرنے والا انسان اس بات کو یقینی طور پر سمجھا ہے کہ اسباب اختیار کر لینے کے بعد بھی مؤثر بالذات صرف اور صرف اللہ تعالی کی ہی ہے ۔۔۔۔
توکل مسلمان کی کامیابی کا اصل راز ہے۔سورۂ آل عمران میں اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں کو تمام امور میں مشاورت کرنے کا حکم دیتے ہوئے اپنی ہی ذات کریمہ پر بھروسہ اور توکل کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے،ترجمہ!اور کام یا لڑائی میں ان سے مشورہ لے لو۔پھر جب پکا ارادہ کر لو تو اللہ پر بھروسہ رکھو۔بیشک اللہ تعالی توکل (اختیار) کرنے والوں سے پیار کرتا ہے۔اور اگر اللہ تمہارا مددگار ہو تو کوئی تم پر غالب نہیں آ سکے گا۔ اور اگر وہ تم کو چھوڑ دے تو پھر کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کر سکے۔اور اللہ ہی پر چاہیئے کہ ایمان والے بھروسہ رکھیں۔ (سورۂ آل عمران آیت نمبر 159,160) 
آیاتِ مبارکہ میں توکل کی اہمیت و حقیقت کو بیان کیا گیا ہیکہ توکل بے دست و پائی اور ترکِ عمل کو نہیں کہتے بلکہ پورے عزم و ارادہ اور مستعدی سے کام کو انجام دینے کیساتھ اثر اور نتیجہ کو اللہ تعالی کے بھروسہ پر چھوڑ دینے کا نام ہے۔یعنی تمام اسباب و امور اختیار کرنے کے بعد بھی اگر اللہ تعالی نہ چاہیں تو فتح و ظفر تمہارا مقدر نہیں بن سکتی۔اس لئے مردِ مومن کو یہی حکم ہے کہ توکل و بھروسہ صرف اور صرف اپنے خدا پر رکھے۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے کہ اگر اہل کفار صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی صلح کیلئے تیار ہو جاؤ اور مصالحت کر لو اور یہ خیال نہ کرنا کہ کہیں بد عہد(اہل کفار ) کہیں تمہیں دھوکہ نہ دے جائیں بلکہ اللہ تعالی پر بھروسہ رکھو تو ان کے فریب کا داؤ ہرگز کامیاب نہ ہو گا۔ ترجمہ!اور اگر وہ صلح کیلئے جھکیں تو تو بھی جھک اور اللہ پر بھروسہ رکھ۔بیشک وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ تجھے دھوکہ دینا چاہیں تو کچھ پروا نہیں کہ تجھے اللہ ہی کافی ہے،اسی نے اپنی اور مسلمانوں کی نصرت سے تیری تائید فرمائی۔(سورۂ انفال 61,62)
دین اسلام کی تبلیغ واشاعت میں آنے والے مصائب و مشکلات میں بھی اللہ کے بھروسہ پر کام کرنے کی ہدایت دی گئی ہے،کہ وہ ایسی طاقت ہے جسے زوال نہیں،وہ ایسی ہستی ہے جسکو فنا نہیں۔چنانچہ ارشاد ربانی ہوتا ہے کہ ترجمہ!اور میں نے تو (اے رسول ﷺ!)تجھے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔کہہ دیجیئے !کہ میں تم سے اس کے سوا(اپنے کام کی) مزدوری نہیں مانگتا،جو چاہے اپنے پروردگار کا راستہ قبول کرے۔اور اس زندہ رہنے والے پر بھروسہ کر جس کو موت نہیں۔(سورۂ فرقان, 56,57,58)
حضور خاتم المعصومین ﷺ اور مسلم اُمّہ کو ہر قسم کے مصائب وآلام، مشکلات و تکالیف میں اللہ تعالی پر بھروسہ اختیار کرنے کی بار بار تاکید کی گئی اسی طرح پہلے انبیاء کرام علیھم السلام کو بھی توکل علی اللہ اختیار کرنے کا تعلیم دی گئی۔اور خود اولوالعزم رسل کرام علیھم السلام کی زبانوں سے عملاً اس تعلیم کا اعلان ہوتا رہا ہے۔حضرت سیدنا نوح علیہ السلام جب تن تنہا سالہا سال تک اللہ کے بھروسہ پر تبلیغِ اسلام فرماتے رہے،چنانچہ ارشاد ربانی ہوتا ہے کہ ترجمہ! اے پیغمبر ﷺ! ان کو نوح (علیہ السلام)کا حال سنائیے!جب اس نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم کے لوگو ! اے میرا (تمہارے درمیان) رہنا اور اللہ کی آیتوں کیساتھ میرا نصیحت کرنا تم پر شاق گزرتا ہے تو اللہ پر میں نے بھروسہ کر لیا ہے،تو تم اپنی تدبیر کو اور اپنے شریکوں کو خوب مضبوط کر لو۔پھر تم پر تمہاری تدبیر چھپی نہ رہے،پھر اس کو مجھ پر پورا کر لو،اور مجھے مہلت نہ دو۔ ( سورۂ یونس آیت نمبر 71) 
غور کیجیئے حضرت سیدنا نوح (علیہ السلام) دشمنوں کے ہر قسم کے مکروفریب،سازش اور لڑائی جھگڑے کے مقابلہ میں استقبال اور عزیمت کیساتھ اللہ پر توکل اور اعتماد کا اظہار کس پیغمبرانہ شان سے فرما رہے ہیں۔ اسی طرح حضرت سیدنا ہود (علیہ السلام ) کو جب انکی قوم اپنے دیوتاؤں کے قہر و غضب سے ڈراتی ہے تو وہ جواب میں فرماتے ہے کہ ترجمہ!میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں ان(دیوتاؤں) سے بیزار ہوں جن کو تم اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہو،پھر تم سب مل کر میرے ساتھ داؤ کر لو۔پھر مجھے مہلت نہ دو۔میں نے اللہ پر جو میں پروردگار اور تمہارا پروردگار ہے بھروسہ کر لیا ہے۔(سورۂ ھود آیت نمبر 54.55.56) 
جو بھی اسباب مہیا ہوں، انہیں اس یقین کے ساتھ اختیار کرنا چاہیے کہ کرنے والی ذات صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔۔۔چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام نے جب اپنی طویل بیماری کے بعد اللہ تعالیٰ سے شفایابی کے لیے دعا فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنے پیر کو زمین پر ماریں۔ اب غور کرنے کی بات ہے کہ کیا ایک شخص کا زمین پر پیر مارنا، اس کی بیسیوں سال کی بیماری کی شفایابی کا علاج ہے؟ نہیں! لیکن انہوں نے اللہ کے حکم سے یہ کمزور سبب اختیار کیا، جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ان کے زمین پر پیر مارنے سے پانی کا ایسا چشمہ جاری کردیا، جس سے غسل کرنے پر حضرت ایوب علیہ السلام کی بیسیوں سال کی بدن کی متعدد بیماریاں ختم ہوگئیں۔ حضرت ایوب علیہ السلام کے اس واقعہ کی تفصیلات کے لیے سورۃ الانبیاء، آیت نمبر 83,84. اور سورۂ ص، آیت نمبر 41 سے 44 کی تفسیر کا مطالعہ کریں۔ حضرت ایوب علیہ السلام کے اس واقعہ سے ہمیں متعدد سبق ملے، دو اہم سبق یہ ہیں: 
پہلا سبق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ارادہ سے بھی حضرت ایوب علیہ السلام کو شفا دے سکتے تھے، مگر دنیا کے دار الاسباب ہونے کی وجہ سے حضرت ایوب علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ کچھ حرکت کریں، یعنی کم از کم اپنے پیر کو زمین پر ماریں۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ جو بھی اسباب مہیا ہوں، ان کو اس یقین کے ساتھ اختیار کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکم سے کمزور اسباب کے باوجود کسی بڑی سے بڑی چیز کا بھی وجود ہوسکتا ہے۔
حضرت مریم سلام اللہ علیھا نے جب اللہ کے حکم سے بغیر باپ کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جنا تو اُن کے لیے حکم خداوندی ہوا کہ کھجور کے تنے کو ہلائیں یعنی حرکت دیں، اُس سے جب پکی ہوئی تازہ کھجوریں جھڑیں تو ان کو کھائیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے حضرت مریم سلام اللہ علیھا کو بغیر کسی سبب کے بھی کھجور کھلا سکتے تھے،لیکن دنیا کے دار الاسباب ہونے کی وجہ سے حکم ہوا کہ کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلاؤ۔ چنانچہ حضرت مریم سلام اللہ علیھا نے حکم خداوندی کی تعمیل میں کھجور کے تنے کو حرکت دی۔ کھجور کا تنا اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ چند طاقت ور مرد حضرات بھی اسے آسانی سے نہیں ہلاسکتے ہیں لیکن صنف نازک نے اس کمزور سبب کو اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے سوکھے ہوئے کھجور کے درخت سے حضرت مریم سلام اللہ علیھا کے لیے تازہ کھجوریں یعنی غذا کا انتظام کردیا۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ جو بھی اسباب مہیّا ہوں اللہ پر توکل کرکے اُنہیں اختیار کرنا چاہئے۔
اسباب تو ہمیں اختیار کرنے چاہئیں لیکن ہمارا بھروسہ اللہ کی ذات پر ہونا چاہئے کہ وہ اسباب کے بغیر بھی چیز کو وجود میں لاسکتا ہے اور اسباب کی موجودگی کے باوجود اس کے حکم کے بغیر کوئی بھی چیز وجود میں نہیں آسکتی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلتی ہوئی آگ میں ڈالا گیا، جلانے کے سارے اسباب موجود تھے مگر حکم خداوندی ہوا کہ آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے سلامتی بن جائے تو آگ نے انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچایا، بلکہ وہ آگ جو دوسروں کو جلادیتی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی کا سبب بن گئی۔ اسی طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر طاقت کے ساتھ تیز چھری چلائی گئی مگر چھری بھی کاٹنے میں اللہ کے حکم کی محتاج ہوتی ہے، اللہ نے اُس چھری کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن کو نہ کاٹنے کا حکم دے دیا تھا، لہٰذا کاٹنے کے اسباب کی موجودگی کے باوجود چھری حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن نہیں کاٹ سکی۔
اسباب وذرائع ووسائل کا استعمال کرنا منشائے شریعت اور حکم الٰہی ہے۔حضور اکرم ﷺ نے اسباب ووسائل کو اختیار بھی فرمایا اور اس کا حکم بھی دیا خواہ لڑائی ہو یا کاروبار۔ ہر کام میں حسب استطاعت اسباب کا اختیار کرنا ضروری ہے۔ لہٰذا جائز وحلال طریقہ پر اسباب ووسائل کو اختیار کرنا ، پھر اللہ کی ذات پر کامل یقین کرنا توکل علی اللہ کی روح ہے۔چنانچہ ایک بدوی اُونٹ پر سوار کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ !میں اونٹ کو یُوں ہی چھوڑ کر اللہ پر توکل کروں تو میرا اونٹ مجھ کو مل جائے گا یا اس کو باندھ کر،آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس کو باندھ کر خدا پر توکل کرو۔ (ترمذی شریف, 2517)
ہجرت کرتے وقت جب مکہ سے نکل کر آپ ﷺ نے اپنے صحابی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کیساتھ غارثور میں پناہ لی،مشرکین مکہ آپ ﷺ کے تعاقب میں نشانِ قدم کو دیکھتے ہوئے ٹھیک غار کے پاس پہنچ گئے۔چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ !دشمن اس قدر قریب ہیں کہ اگر ذرا نیچے جھک کر اپنے پاؤں کیطرف دیکھیں گے تو ہم پر نظر پڑ جائے گی،لیکن آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان دو کو کیا غم ہے جس کے ساتھ تیسرا اللہ ہو۔ (بخاری ومسلم ) اسی کو سورۂ توبہ آیت نمبر 40 میں فرمایا کہ ترجمہ ! جب آپ ﷺ اپنے دوست(حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) سے فرما رہے تھے کہ غم نہ کرو ، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!
غزوۂ نجد سے واپسی پر آپ سے ایک جگہ پر پڑاؤ کیا۔یہاں بہت سے درخت کے جھنڈ تھے۔دوپہر کا وقت تھا،صحابہ (رضی اللہ عنھم) درختوں کے سائے میں ادھر ادھر سو رہے تھے۔آپ ﷺ بھی ایک درخت کے نیچے استراحت فرما رہے تھے۔آپ ﷺ کی تلوار ایک درخت سے لٹکی ہوئی تھی تو ایک بدو چپکے سے آیا اور آپ ﷺ کی تلوار پکڑ کر نیام سے باہر نکالی۔اور آپ ﷺ کے سامنے آیا کہ دفعتًا آپ ﷺ بیدار ہوئے ۔دیکھا کہ ایک بدو تیغ بکف کھڑا ہے۔بدو نے پوچھا اے محمد ﷺ! اب مجھ سے تم کو کون بچا سکتا ہے۔؟ آپ ﷺ نے پُر اطمینان (انداز میں فرمایا ) اللہ ۔۔۔۔(بخاری شریف , کتاب الجہاد، 2910)
 اسی طرح کی روایت مسند احمد،ابن حبان میں بھی وارد ہے کہ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ ہم ایک غزوے میں حضور اکرم ﷺ کے ساتھ تھے۔ جب ہم ایک گھنے سایہ دار درخت کے پاس آئے تو اس درخت کو ہم نے رسول اللہ ﷺ کے لیے چھوڑ دیا۔ مشرکین میں سے ایک شخص آیا اور حضور اکرم ﷺ کی درخت سے لٹکی ہوئی تلوار اس نے لے لی اور سونت کر کہنے لگا: کیا تم مجھ سے ڈرتے ہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ اس نے کہا کہ تمہیں مجھ سے کون بچائے گا ؟ آپ ﷺ نے کہا: اللہ۔ اس پر تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی۔ آپ ﷺ نے وہ تلوار پکڑ کر فرمایا۔اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ بعد ازاں آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تو لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دیتا ہے؟ اس نے کہا نہیں، لیکن میں آپ سے یہ عہد کرتا ہوں کہ نہ میں آپ سے لڑوں گا اور نہ میں اُن لوگوں کا ساتھ دوں گا جو آپ سے لڑتے ہیں۔ آپ ﷺ نے اس کا راستہ چھوڑ دیا۔ وہ شخص اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور کہنے لگا میں ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں جو لوگوں میں سب سے بہتر ہے۔۔۔۔۔۔۔!!
خیبر میں جس یہودیہ نے آپ ﷺ کو زہر دیا تھا اُس نے آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ تم نے یہ حرکت کیوں کی۔؟ اس نے کہا کہ آپ ﷺ کو (نعوذباللہ) قتل کرنے کیلئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تم کو یہ طاقت نہیں دے گا۔ (بخاری شریف,5777) 
غزوۂ احد وحنین کے معرکوں میں جب میدانِ جنگ تھوڑی دیر کیلئے جاں نثاروں سے خالی ہو گیا تھا۔ آپﷺ کا استقلال توکل علی اللہ و سکینت کی معجزانہ مثال ہے۔ترمذی۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم اللہ پر توکل کرتے جیسا کہ توکل کرنے کا حق ہے تو اللہ تم کو ویسے روزی پہنچاتا جیسے پرندوں کو پہنچاتا ہے کہ صبح کو بھوکے جاتے ہیں اور شام کو سیر ہو کر واپس آتے ہیں۔(ترمذی،کتاب الزھد 268/3,,,مستدرک حاکم 318/4)
اس حدیث سے بھی مقصود ترک عمل اور ترک تدبیر نہیں۔ کیونکہ پرندوں کو انکے گھونسلوں میں بٹھا کر یہ روزی نہیں پہنچائی بلکہ ان کو بھی اُڑ کر کھیتوں اور باغوں میں جانے اور رزق تلاش کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ بلکہ مقصود یہ ہے کہ جو لوگ اللہ پر توکل اور اعتماد سے محروم ہیں ۔وہ روزی کیلئے دل تنگ اور کبیدہ خاطر ہوتے ہیں۔ اور اس کے حصول کیلئے ہر قسم کی بدی اور بُرائی کا ارتکاب کرتے ہیں حالانکہ اگر یہ ان کو یقین ہو کہ )ترجمہ! اور زمین میں کوئی رینگنے والا نہیں،لیکن اس کی روزی اللہ کے ذمہ ہے۔ سورۂ ھود آیت نمبر 6)  تو کوئی بھی اس کیلئے چوری،ڈاکہ،قتل،بے ایمانی اور خیانت کا مرتکب نہ ہوتا۔اور نہ اُن کو دلی تنگی اور مایوسی ہوا کرتی بلکہ صحیح طور سے وہ کوشش کرتے اور روزی پاتے۔
ارشادِ ربانی ہوتا ہے کہ ترجمہ ! اور جو کوئی اللہ سے ڈرے،وہ اس کیلئے مشکل سے نکلنے کا راستہ کر دے گا۔اور اس کو وہاں سے روزی دے گا جہاں سے اس کو گمان تک نہ ہو گا۔اور جو اللہ پر بھروسہ کرے گا تو وہ اس کو کافی ہے۔بیشک اللہ اپنے ارادے کو پہنچ کر رہتا ہے۔ اس نے ہر چیز کیلئے ایک اندازہ مقرر کر دیا ہے۔ (سورۂ طلاق آیت نمبر 2،3)
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا ’’میری امت کے ستر ہزار افراد بغیر حساب وعذاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘ پوچھا گیا یارسول اللہ ﷺ! وہ کون لوگ ہوں گے؟ آپﷺ نے فرمایا ’’جو آگ سے نہیں دغواتے، جھاڑ پھونک نہیں کرواتے، بدفالی نہیں لیتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ۔(مسند احمد 4/ مسلم، ص:321)
حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما کو توکل علی اللہ کی جو تعلیم دی،چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما فرماتے ہیں کہ میں ایک دن حضور نبی کریم ﷺ کے پیچھے چل رہا تھا آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تم اللہ کے حقوق کی حفاظت کرو اللہ تمہاری حفاظت فرمائے گا‘‘ (یعنی دنیا وآخرت کی تکلیف سے بچائے گا) تم اللہ کے حقوق کی حفاظت کرو گے تو تم اللہ کو سامنے پاؤ گے ۔جب سوال کرو تو صرف اللہ سے سوال کرو، جب مدد چاہو تو صرف اسی سے مدد مانگو ۔ اور سنو! اگر پوری امت تم کو فائدہ پہنچانے پر آمادہ ہوجائے تب بھی اتنا ہی فائدہ اور نفع پہنچا سکتی ہے جتنا اللہ نے تمہارے لیے مقدر کر رکھا ہے اور اگر تمام لوگ تمھیں نقصان پہنچانے پر آمادہ ہوجائیں، تب بھی اتنا ہی پہنچا سکتے ہیں، جتنا اللہ نے لکھ دیا ہے۔  قلم اٹھا لیے گئے اور صحیفے خشک ہوگئے، قضا اور قدر کا فیصلہ ہوچکا ہے، اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی ۔(مشکوۃ:453)
توکل علی اللہ کے حصول کے لیے ایک دعا: 
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص گھر سے نکلتے وقت یہ دعا پڑھے: ’’بِسْمِ اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ میں اللہ کا نام لے کر گھر سے نکلتا ہوں اور اللہ پر بھروسہ کرتا ہوں، اور نہ کسی بھی کام کی قدرت میسر آسکتی ہے نہ قوت مگر اللہ تعالیٰ کی مدد سے‘‘ تو اس کو کہہ دیا جاتا ہے تو نے ہدایت پائی ، تیری کفالت کردی گئی، تجھے ہر شر سے بچادیا گیا اور شیطان اس سے دور ہٹ جاتاہے۔ (ابوداود، ترمذی)
توکل کی تعلیم مسلمانوں کو اس لئے دی گئی کہ وہ بےجا پریشان نہ ہوں۔انہیں اضطراب لاحق نہ ہو۔کیونکہ بندے کی زندگی میں بھی ایسے بہت سے مقامات آتے ہیں جہاں وہ مجبور ہوتا ہے۔لہذا مجبوری کی حالت میں وہ بے چین نہ ہو بلکہ اللہ کی طرف وہ اپنے معاملہ کو سپرد کر دے۔ یا زندگی میں ایسے بہت سے خطرات ٹوٹ پڑتے ہیں جن کے احتیاط کرنے اور بچنے پر بھی بندہ بچ نہیں پاتا تو ایسے خطرات میں پڑ کر بےکار اپنی جان نہیں گھلانا چاہیئے بلکہ مرضئ الہی پر راضی رہ کر اللہ ہی کو اپنا وکیل و دستگیر جاننا چاہیئے۔مصیبت کے ماروں کو سکون دینا والا،غم نصیبوں کو راحت بخشنے والا،فریادیوں کی پکار سننے والا وہی ہے،وہی پروردگار ہے،اور اسی پر ہمارا توکل ہونا چاہیئے،حسبنا اللہ ونعم الوکیل نعم المولٰی ونعم النصیر۔

۔

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.   ‎