مجلس زندہ دلاں اور ڈاکٹرطارق شریف زادہ کی باتیں

مجلس زندہ دلاں اور ڈاکٹرطارق شریف زادہ کی باتیں
مجلس زندہ دلاں اور ڈاکٹرطارق شریف زادہ کی باتیں

  

مجلس زندہ دلاں جو  ادبی افق پر نمایاں چمکنے والے ستارے جنا ب اشفاق احمدکی زندگی میں  ہوا کرتی تھی جہاں علم ودانش کے متلاشی لوگ قیمتی اقوال سے اپنی پیاس بجھایاکرتے تھے،اب وہی مجلس زندہ دلاں ڈاکٹرپیرطارق شریف زادہ کی رہائشگاہ پر ماڈل ٹاؤن میں شروع ہوگئی ہے،یہ سعادت کی بات ہے کہ  مجھے بھی اس مجلس میں بیٹھنے کاموقع مل رہاہے ،مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراداس مجلس میں رات گئے تک ہونے والی گفتگو سے علمی و ادبی پیاس بجھانے کیلئے بیٹھے رہتے ہیں،ہزارمصروفیات بھی ہوں ،پھر بھی ڈیلی پاکستان کی کرائم رپورٹردعامرزامجلس زندہ دلاں کو سجانے میں پیش پیش ہوتی ہیں۔
اس مجلس کی خاص بات یہ ہے کہ دو گھنٹے دورانیہ کے باوجود گفتگو میں وہ چاشنی محسوس ہوتی ہے کہ بندہ مجلس ختم ہونے کے بعد بھی وہی بیٹھے رہنے میں سکون محسوس کرتاہے،یہ اشفاق احمد کا روحانی فیض ہے یا کچھ اور،یہ سمجھنے سے تو ابھی تک میں بھی قاصرہوں البتہ اتنا ضرورہے کہ یہ مجلس عام نہیں،خاص ہے اور یہاں آنے والے لوگ بھی یوں لگتاہے جیسے چنے ہوئے لوگ ہوتے ہیں،یہ انتخاب،یہ اعزاز اور سعادت یقینا کسی روحانی سلسلے سے جڑی ہوئی ہے تبھی تو مجلس شہرمیں ہونے والی دیگرمحافل،مجالس اور تقریبات سے منفردمحسوس ہوتی ہے، خاص طورپر جب ڈاکٹرصاحب سیرت النبی ﷺ کے مختلف گوشوں کا ذکر کرتے ہیں تو انسان عالم تصورمیں انہیں وادیوں،انہیں پہاڑیوں،اُنہیں گلیوں،بازاروں،انہیں راستوں اور مکہ و مدینہ کی مقدس سرزمین پر پہنچ جاتاہے،حضوراکرمﷺ  کے معجزات، واقعات، فرمودات اور دیگرامور کو جس طرح بیان کیاجاتاہے ، یوں لگتاہے کہ انداز بیان جو ڈاکٹرطارق شریف زادہ کو عطاکیاگیاہے یہ انہیں کا اعزازاور شرف ہے،یوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے سیرت النبیﷺ بیان کرنے کیلئے قدرت نے ان کی بطور خاص ڈیوٹی لگارکھی ہے،اگر آپ اس مجلس میں حاضر ہیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ وہ نہ تھکتے ہیں، نہ اکتاتے ہیں اور نہ ہی انہیں یہ جلدی ہوتی ہے کہ مجلس کا وقت ختم ہواور وہ شرکاء کو جانے کی اجازت دیں اور خود بھی آرام کریں، شاید انہیں یہ سب کچھ بیان کرنے میں ہی سکون ملتاہے اور یقینا ملتاہوگا کیوں کہ سیرت النبیﷺ کے ذکرسے بڑا کوئی ذکراور اس سے بڑی کوئی سعادت نہیں ہوسکتی،بس یہ ضروری ہے کہ انسان کو یہ ادراک ہوجائے کہ  یہ ذکرخاص ہے اور اس خاص کام کیلئے انتخاب بھی کسی خاص کا ہی ہوتاہے،مجلس کااہتمام کرنے والے،بیان کرنے والے اور حاضرین بھی عام میں سے خاص ہوجاتے ہیں جب وہ اس مجلس میں بطورخاص حاضر ہوتے ہیں۔
قدرت کی عطاؤں اور شکرکاذکر کرتے ہوئے جب وہ اپنے آبائی علاقے کے ایک کردار’’چاچاقادرا‘‘کا ذکرکرتے ہیں تو انسان کو صحیح معنوں میں یہ احساس ہونے لگتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر کتنی عطائیں کررکھی ہیں مگر انسان کس قدر ناشکراہے کہ وہ اس چیز کو سمجھتاہی نہیں بلکہ دستیاب نعمتوں پر شکر کی بجائے غیر دستیاب چیزوں پر شکوہ کرتا نظرآتاہے،’’چاچا قادرا‘‘ کی کہانی میں  چاچا اور ڈاکٹرصاحب کے درمیان ہونے والی گفتگو لفظ بلفظ بیان کی جاتی ہے تو انسان پر بے ساختہ کپکپی طاری ہوجاتی ہے کہ آخر وہ کیوں خدا کو فراموش کربیٹھے ہیں؟جب’’ چاچا قادرا‘‘ کہتاہے کہ یوں لگتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے سارے کام اپنے ذمہ لے رکھے ہیں اور اللہ تعالیٰ میرے گمان سے بھی پہلے کام کردیتاہے،جب اسے فکر ہوتی ہے کہ آج روزی روٹی کیسے کمائے گا تو مسجد سے نکلتے وقت ہی اتنے زیادہ آرڈرمل جاتے ہیں کہ سارا دن کمائی ہی کمائی کا بندوبست ہوجاتاہے۔مسجد سے نکلتے وقت جب’’ چاچا قادرا‘‘ یہ سوچتاہے کہ یہ سب کام بھوکے پیٹ تو نہیں ہوسکیں گے ،ناشتے کی فکر ہوتی ہے تو گھر پہنچتے ہی سب سے پہلے اس کی شریک حیات اسی کا  ناشتہ تیار کرکے بیٹھی ہوتی ہے،اسی طرح سارے کام جب جب وہ سوچتاہے،اللہ تعالیٰ  بندوبست کردیتاہے،جب چاچا یہ سوچتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اتنا کچھ عطاکردیاہے،اگر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے روز پوچھ لیا کہ قادریا میں نے تو تیرے لیے سب کچھ کیا،اب تو بتا کہ تو نے میرے لیے کیا کیاہے؟ تو میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں،بس یہ سوچ کر گھبرا جاتاہوں تب کیا کروں گا؟۔۔۔۔۔۔ایسے کتنے ہی کردارہمارے دائیں بائیں گھوم رہے ہوتے ہیں ہمیں بس ان پر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم سب بھی اپنی زندگیوں میں شکوے کی بجائے شکرکولازم بنالیں۔
ڈاکٹرپیر طارق شریف زادہ کی زیرصدارت مجلس زندہ دلاں ہرماہ ہوتی ہےجس میں شرکت یقینا اطمینان قلبی اور اپنے معاملات کو درست کرنے کیلئے رہنمائی کا سبب بن سکتی ہے،ہم جہاں  دنیاوی مشاغل پر مبنی کئی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں،ایسی محافل کو بھی اپنے معمول کاحصہ بنانا چاہیے تاکہ مقصدحیات سمجھنے اور اتباع رسولﷺ میں زندگی گزارنے کے طریقے سمجھ سکیں۔
.

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.   ‎

مزید :

بلاگ -