بہتر خبر،امن کو بحال ہی رکھنا ہو گا!

بہتر خبر،امن کو بحال ہی رکھنا ہو گا!
بہتر خبر،امن کو بحال ہی رکھنا ہو گا!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وفاقی اور صوبائی حکومت کی طرف سے الگ الگ واقعات کے حوالے سے جے آئی ٹی بنانے کا اعلان کیا گیا، صوبائی نگران حکومت نے تو زمان پارک واقع کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن بنانے کا بھی اعلان کیا ہے، خوش آئند بات یہ ہے کہ تحریک انصاف نے جے آئی ٹی کے اقدام کی تائید کر دی اور کہا ہے کہ جماعت کی طرف سے مکمل ثبوت فراہم کئے جائیں گے، چیئرمین عمران خان کی اسلام آباد پیشی کے روز ان کی عدم موجودگی میں زمان پارک پر ریڈ ہوئی اور علاقہ کلیئر کرایا گیا۔ حکام کے مطابق یہ نوگو ایریا بنا ہوا تھا،اس روز جو ہوا وہ اور  اس سے پہلے کے حالات و واقعات کی ویڈیوز بھی موجود ہیں۔ اگرچہ انتظامیہ کی طرف سے نوگو ایریا ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تاہم عمران خان کی واپسی کے بعد وہ سلسلہ پھر سے بحال ہو گیا جسے ختم کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ لاہور کے علاوہ جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں بھی ہنگامہ ہوا اس حوالے سے بھی ایک دوسرے پر الزام عائد کیے گئے،اب تو غیر ملکی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے بعد وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے غیر ملکی میڈیا کے لئے مشترکہ پریس کانفرنس اور ویڈیوز کی مدد سے حکومتی موقف کی وضاحت کی۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے تازہ ترین بیانیے یا موقف میں اپنے قتل کا الزام دہرایا تاہم اس بار کھلے طور پر لگائے الزام میں اسلام آباد اور پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس کا ذکر کیا اور کہا کہ ہر دو بڑے افسروں نے مرتضیٰ بھٹو کی طرح ان (عمران) کو قتل کرانے کے لئے گروپ تشکیل دیئے ہیں۔ انہوں نے اس سے آگے بڑھ کر مبینہ منصوبے کی مزید تفصیل بھی بیان کی اور کہا کہ زمان پارک پر حملہ کرنے کے بعد انتظامیہ اپنے بندوں سے اپنی فورس کے چار،پانچ اہلکار مروائے گی اور پھر ان(عمران) کو قتل کر کے یہ موقف اختیار کیا جائے گا کہ یہ تحریک انصاف ہی کے کارکنوں کی طرف سے ہوا ہے،اس پر بحث و مباحثہ کیا ہونا تھا، الزام اور تردید کا سلسلہ تھا کہ اسی دوران اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس اور لاہور کے سانحات کی الگ الگ جے آئی ٹی بنانے کا اعلان کرنے کے بعد الزامات والے حقائق جاننے کے لئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا بھی اعلان کر دیا گیا۔


میں نے عرض کیا ہے کہ یہ اچھی خبر ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے نہ صرف اس عمل کو قبول کر لیا گیا بلکہ تعریف کرنے کے علاوہ تعاون کا بھی اعلان کیا گیا۔ شدید تر محاذ آرائی کے دوران ایسی اطلاع یقینا بہتر نتائج دے گی، تحریک انصاف نے احتجاجی تحریک والا سلسلہ موخر کر دیا ہے، حتیٰ کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے التوا اور نئی تاریخ کے تعین پر بھی عدالت عظمےٰ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یوں حالات کشیدہ تر ہوتے ہوئے بھی کسی اور حادثے کی طرف نہیں گئے، ہمارا تو روزِ اول سے موقف ہے کہ سیاسی قیادت کو مل بیٹھنا چاہئے اور قومی مسائل کے حوالے سے مذاکرات کر کے متفقہ لائحہ عمل طے کرنا چاہئے کہ ملک معاشی گرداب میں پھنسا ہوا ہے اس کی درستگی کے لئے الزام در الزام سے کام نہیں چلے گا بلکہ درد مندی سے اہم قومی مسائل پر متفقہ موقف اپنانا ہو گا۔
اس وقت جو صورت حال ہے وہ آٹا گوندھتی کے سر ہلنے والی بات ہے کہ آئی ایم ایف مسلسل بازو مروڑ پالیسی پر عمل پیرا ہے اور سٹاف لیول معاہدے سے گریز کرتا چلا جا رہا ہے، اس سلسلے میں تعجب تو یہ ہے کہ جن برادر اور دوست ممالک نے پاکستان کی گری معیشت کو سہارا دینے کا اعلان اور پختہ عزم کا اظہار کیا تھا وہ بھی اب خاموش ہیں بلکہ آئی ایم ایف کی طرف سے تو اب ان کے وعدوں کی تکمیل کے لئے گارنٹی طلب کی جا رہی ہے یہ کیسا اتفاق اور بین الاقوامی منظر ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے معاہدہ لٹکانے کے ساتھ ہی یہ برادر ملک بھی چپ سے ہو گئے ہیں، حالانکہ سربراہان کی وزیراعظم کو بڑی بڑی یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں،

یہ ممالک آئی ایم ایف کے محتاج بھی نہیں بلکہ خود انحصاری کے حامل ہیں،اس کے باوجود صورت حال یہ ہے کہ اب آئی ایم ایف کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ ان ممالک سے واضح اور تحریری یقین دہانی حاصل کر کے دی جائے۔ اس سارے مخمصے میں صرف چین نے تعلق نبھایا اور کسی مغربی دباؤ کو قبول نہیں کیا، پاکستان کو آسان شرائط والا نیا قرض بھی دیا ہے اور اعلان بھی کیا کہ پاکستان کی ترقی کے لئے تعاون جاری رہے گا۔ چین کی تعریف کرنا پڑے گی کہ اس کی طرف سے ہمارے ملک میں کافی سرمایہ کاری بھی کی گئی ہے اور یہ اعلان بھی موجود ہے کہ چین پاکستان کو معاشی طور پرگرنے نہیں دے گا، چین کے اس بڑے تعاون اور اعلان کے باوجود آئی ایم ایف کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور یہی وہ نکتہ ہے جہاں گوٹ پھنسی ہوئی ہے۔
معاشی حالات اپنی جگہ اور بیرونی دباؤ بھی ظاہر ہے لیکن دُکھ تو صرف اور صرف یہی ہے کہ ہم پاکستانی خود کو بدلنے کے لئے تیار نہیں ہیں،یہ درست ہے کہ حکومت کی طرف سے ٹیکسوں میں ردوبدل خصوصاً سیلز ٹیکس میں اضافے، شرح سود بڑھنے اور پٹرولیم مصنوعات سمیت گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کے اثرات مارکیٹ (بازاروں)  پر بھی مرتب ہوئے ہیں لیکن معلومات کے مطابق جس شرح سے اثرات ہیں اس کی نسبت قیمتیں زیادہ بڑھتی ہیں۔ آج ہی صبح گوشت خریدا جو دو ہزار رو پے فی کلو کے حساب سے دیا گیا اور ساتھ ہی آگاہ کر دیا گیا کہ مزید قیمت بڑھنے والی ہے اور ایک سو روپے اضافے سے گوشت 2100 روپے فی کلو ہو رہا ہے اور صورت حال یہ ہے کہ ہماے تاجر بھای منافع خوری کرتے ہوئے خلوص سے کہتے ہیں جلدی کریں جی نماز کا وقت ہونے والا ہے۔ یہی حضرات حج اور عمرہ مہنگا ہو جانے کے بعد بھی بے چین اور تڑپ رہے ہیں کہ ”کب بلاوا آتا ہے“۔


ہمارے کئی دوست ایسے ہیں جن کا پروفیشن معاشیات کے قریب تر ہے، وہ لوگ تو کہتے ہیں کہ اب جو وقت آیا ہے اس کے حوالے سے تو حکومت پاکستان کو ٹھوس موقف اپنانا چاہئے۔ آئی ایم ایف سمیت ہر اُس ادارے یا ملک کو بتا دینا چاہئے کہ ان کی رقوم کی واپسی مشکل ترین مرحلہ ہے، لہٰذا ایک سال کا وقفہ دیا جائے۔ پاکستان ایک سال تک کسی قرضے کی بھی قسط ادا نہ کرے اور اس عرصہ میں اشرافیہ اپنے اثاثوں میں سے ملک کو سنبھالنے کے لئے رقوم دے اگر مفت نہیں دینا چاہتے تو ادھار ہی دے دیں اور اس ایک سال کے اندر سیندک ریکوڈک اور ہیروں کی کانوں کی تکمیل مکمل کی جائے جبکہ قدرتی وسائل کے ہر ذریعے سے مستفید ہوا جائے حتیٰ کہ سٹیل ملز اور پی آئی اے جیسے اداروں کی بہتری اور ریلوے کی بحالی کا عمل شروع کیا جائے، انشاء اللہ نیت نیک ہو تو اللہ آسانی بھی پیدا کرے گا۔

مزید :

رائے -کالم -