وہ اپنی نظمیں اور تحریریں پرچیوں کی شکل میں لکھتیں ، ان کا وجود 70 کی دہائی کے پرآشوب دور میں حوصلے کی علامت تھا

مصنف: زاہد مسعود
قسط:5
نسرین انجم بھٹی نے شاعری کے علاوہ نثر میں بھی اظہار کیا۔ مگر ان کا اصل میدان شاعری تھا اور تخلیقی نظریاتی شاعری ہی ان کی پہچان تھی۔ یوں تو نسرین انجم بھٹی نے تمام عمر لکھا ۔ فیچر، ریڈیائی نغمے، تنقیدی مضامین اور پنجابی گیت و کافیاں۔ ان کا بیشتر کام ابھی سامنے نہیں آیا جس پر کسی ادبی ادارے کی طرف سے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
نسرین انجم بھٹی کی طبیعت میں ایک عجیب صوفیانہ بے نیازی تھی۔ وہ اپنی نظمیں اور تحریریں پرچیوں کی شکل میں لکھتیں مگر بعدازاں ان کو محفوظ کرنے کے معاملے میں بھی وہ ”صوفی شاعرہ “ ہی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام جمع کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ نسرین انجم بھٹی 70کی دہائی میں جدید نثری نظم لکھنے والی شاعرہ کے طور پر نمایاں ہوئیں۔ ان کا وجود 70 کی دہائی کے پرآشوب دور میں حوصلے کی علامت تھا کیونکہ وہ دور روایتی تصورات کی کوکھ سے نئے خیالات اور اسلوب وضع کرنے کا زمانہ تھا اور نسرین انجم بھٹی کی تخلیقی طبع اس کے لیے نہایت موزوں تھی۔ نسرین انجم بھٹی کے موضوعات نئے اور لفظیات منفرد تھیں۔ انہوں نے شاعری کے رسمی انداز کے برعکس اپنی ترجیحات کو فوقیت دیتے ہوئے شاعری کے منظرنامے کو تازہ اور توانا بنانے کے لیے شعوری کوششیں کی۔پسماندہ طبقوں کے حقوق کا معاملہ ہو یا عورتوں کی اپنے استحصال کے خلاف جدوجہد نسرین نے ایسے تمام موضوعات پر کھل کر اظہار خیال کیا جس کی جدتوں اور خوبصورتیوں کے باعث اردو اور پنجابی کے پڑھے لکھے طبقے کی توجہ حاصل کی۔ بلکہ انہوں نے پنجابی شاعری میں عام آدمی تک رسائی بھی حاصل کی۔ ’اے کیہڑآ ایں ویں توں میریاں آندراں نال منجی اُنن والا‘ جیسی نظمیں اور لائنیں ہرخاص و عام کی قوت اظہار کو شرکت کی دعوت دیتی ہیں۔ نسرین انجم بھٹی اگرچہ حساس اور پُردردطبیعت کی حامل شاعرہ تھیں مگر کہیں بھی ان کے درد کی لَے شور برپا نہیں کرتی بلکہ انسانی حواس پر اثرانداز ہوتی ہے۔
نسرین انجم بھٹی کے اندر سماج کو تبدیل کرنے کی آرزو بڑی شدید تھی۔ جس کو بعض لوگ ان کا انقلابی عمل بھی قرار دیتے ہیں۔ اسی آرزو کی وجہ سے وہ بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے لوگوں سے زیادہ قریب رہیں۔ تمام عمر شعری جدوجہد میں گزار کر نسرین انجم بھٹی 26جنوری 2016ءکو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ تبدیلی کی جدوجہد کرنے والی شاعرہ نے اپنا بامقصد شعری ورثہ آنے والی نسلوں کے سپرد کیا۔
زاہد مسعود
( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )