یونانی فلاسفہ کائنات کے متعلق ایک نظریہ پر قائم نہ ہو سکے ، لوگوں میں شک پیدا ہو گیا کہ عقل و حکمت کائنات کے مسائل حل نہیں کر سکتی

یونانی فلاسفہ کائنات کے متعلق ایک نظریہ پر قائم نہ ہو سکے ، لوگوں میں شک پیدا ...
یونانی فلاسفہ کائنات کے متعلق ایک نظریہ پر قائم نہ ہو سکے ، لوگوں میں شک پیدا ہو گیا کہ عقل و حکمت کائنات کے مسائل حل نہیں کر سکتی

  

مصنف:لطیف جاوید

قسط:25

 نظریات

۰ شکوک پسندی کو تشکیکیت اور ارتیابیت کی سی مشکل اصطلاحات سے بھی بیان کیا گیا ہے۔ جبکہ اِس کا آسان سا مفہوم ہے ،شک کرنا۔

۰ اِس نظریہ کے پیدا ہونے کی اصل وجہ یہ تھی کہ یونانی فلاسفہ کائنات کے متعلق ایک نظریہ پر قائم نہ ہو سکے تھے۔مثلاًکوئی کائنات کی بنیادی اکائی کو مادی کہتا اور کوئی غیر مادی۔کسی نے کہا وہ مفرد ہے کسی نے کہا کثیر ہے۔کسی نے کہا بنیادی اکائی ہوا ہے کسی نے کہا پانی ہے۔کسی نے کہا بنیادی شے مادہ ہے کسی نے کہا نہیں ذہن ہے۔اِس سے لوگوں میں شک پیدا ہو گیا کہ عقل و حکمت کائنات کے مسائل حل نہیں کر سکتی ہے۔ سوفسطائیوں نے اِسے خوب اچھالا۔اپیکوریت اور رواقیت کے باہمی اختلافات نے بھی اِس نظرئیے کو خوب ہوا دی۔اِن وجوہات کی بنیاد پر شکوک پسندی نے جنم لیا۔

۰ پرہو کا خیال تھا کہ کسی شے کا حتمی علم حاصل نہیں ہو سکتا۔کیونکہ اس کے نزدیک علم کا ذریعہ اِنسانی حواس ہیں اویہ اکثر نتیجہ بدلتے رہتے ہیں۔مختلف لوگوں کو مختلف نتیجہ فراہم کر تے ہیں۔

۰ پرہو کے نزدیک حقیقی علم کا کوئی وجود نہیں ہے۔اِنسانی حواس صرف ظاہری علم حاصل کر سکتے ہیں اوران میں بھی شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ہر نظرئیے کے لئے اس کی مخالفت میں بھی دلائل موجود ہو تے ہیں۔

۰ پرہو اپنے نظریات کو محض علمی نہیں عملی بھی خیال کرتا تھا۔اگر راستہ میں چلتے ہوئے کوئی گاڑی اس کی طرف آ رہی ہو تو وہ پیچھے ہٹنے کی بجائے سوچ میں پڑ جاتا کہ گاڑی اس کی طرف آرہی ہے یا یہ صرف اس کے حواس کا وہم ہے۔اگر اسکے ساتھی اسے کھنچ کر نہ ہٹائیں تو وہ گاڑی سے ٹکرا جاتا۔

 ۰ پرہو کے نزدیک غم و الم اور مصائب سے دوری اور مسرّت کا حصول ہی اِنسان کی اصل منزل ہے۔ یوںیہ نظریہ اپیکوریت کے قریب ہو جاتا ہے۔

۰ میرے نزدیک پرہو نے یہ کہہ کر تحقیقی عوامل کونقصان پہنچایا کہ کسی نظریہ کا رد ممکن نہیں، اِس لئے اِنسان کو تحقیق کرنے اور کچھ کہنے سے بہتر ہے ،خاموشی اختیار کرلے۔ 

 افلاطون اکیڈمی اور شکوک پسندی

 ۰ شکوک پسندی عوامی مقبولیت تو حاصل نہ کر سکی لیکن افلاطون اکیڈمی میں سرائیت کر گئی۔ یہ اکیڈمی افلاطون کے نظرئیے پر قائم تھی کہ عقلی استدلال سے حقیقی علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔یہ پرہو کے اِس نظرئیے پر قائم ہو گئی کہ حقیقی علم حاصل نہیں کیا سکتا کیونکہ کسی نظریہ کے اگر سچے ہونے کے دلائل موجود ہیں، تو اس کے غلط ہونے کے بھی اتنے ہی دلائل موجود ہیں۔اِس کا پہلا مبلغ آرسیسیلاس ( Arcesilaus) تھا۔ 

۰ شکوک پسندوں نے افلاطون اکیڈمی کا نام تبدیل کر کے جدید اکیڈمی رکھ دیا۔اِس کا بڑا مبلغ کارنیا ڈیز تھا۔جس کے نزدیک نہ حقیقی علم حاصل کیا جا سکتا ہے اور نہ کسی بات کو سچ ثابت کیا جا سکتا ہے۔

۰ اِنسان کی عملی زندگی کے متعلق اِس اکیڈمی نے پرہو کے خلاف احتمالیت کا نظریہ اپنایا۔جو یہ تھا کہ کیونکہ حقیقی علم تو حاصل ہو نہیں سکتا لیکن فکر و عمل کو مفلوج ہو نے سے بچایاجائے اور وہ راستہ اختیار کرلیا جائے جو بہتر معلوم ہوتا ہو۔

۰ آخر205ءمیں یہ جدید اکیڈمی بھی دم توڑ گئی اور ہمیشہ کے لئے دنیا سے نابود ہو گئی۔

نوٹ: اِس باب کی تیاری میں پروفیسر نعیم احمد کی کتاب” تاریخ فلسفہ یونان “سے استفادہ کیا گیا جو ڈی جے اوکاز کی کتاب ” مغربی فلسفے کی تنقیدی تاریخ “ سے استفادہ کے دعویدارہیں۔ ( جاری ہے )

نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

ادب وثقافت -