اکٹھے بیٹھ کر ریڈیو سننا اس زمانے کا دستور تھا،ایم سلیم کو ریڈیو کا دلیپ کمار کہا جاتا تھا

اکٹھے بیٹھ کر ریڈیو سننا اس زمانے کا دستور تھا،ایم سلیم کو ریڈیو کا دلیپ کمار ...
اکٹھے بیٹھ کر ریڈیو سننا اس زمانے کا دستور تھا،ایم سلیم کو ریڈیو کا دلیپ کمار کہا جاتا تھا

  

 مصنف: محمد سعید جاوید

قسط:56

 اور اس وقت تو مزہ ہی آ جاتا جب ہرسہ ماہی میں ایک ہفتہ”جشن ِتمثیل“ کے تحت7 بہترین ڈرامے روزانہ کی بنیاد پر نشر کیے جاتے اور پھر سامعین سے ان کی ا ٓراءطلب کی جاتی تھیں جس کی روشنی میں پسندیدگی کا اعلیٰ مقام پانے والے ڈراموں کو قند مکرر کے طور پر نشر کیا جاتا تھا ۔ 

ان ڈراموں کے سب سے مقبول فنکارایس ایم سلیم ہوا کرتے تھے جن کو ریڈیو کا دلیپ کمار بھی کہا جاتا تھا۔ ان کی دھیمی دھیمی اور مدھر آواز میں ادا کیے گئے مکالمے دل میں اترتے جاتے تھے ۔ بہت صا ف ستھری زبان تھی ان کی ، ایک ایک مکالمہ سمجھ آتا تھا ۔ 

جن دنوں”سٹوڈیو نمبر نو“ نشر نہیں ہوتا تھا تو اسی قسم کے دوسرے خوبصورت پروگرام پیش ہوتے تھے۔ اسی وقت ایک اور بڑا ہی دلچسپ پروگرام” گیتوں بھری کہانی“ تھا ، جس میں کسی بھی ایک کہانی کو لے کر اس میں کئی نشیب و فراز اور دلچسپ موڑلائے جاتے تھے ، پھر موقع محل کی مناسبت سے کوئی نہ کوئی خوبصورت طربیہ یا المیہ فلمی گیت گردن سے پکڑ کر شامل کر دیا جاتا ، جس سے کہانی کا لطف دوبالا ہو جاتا تھا ۔ یہ سب کچھ اتنے دلکش اور ماہرانہ اندا ز میں ہوتا تھا کہ گیت بھی کہانی کا حصہ ہی لگتے تھے۔ اس وقت پاکستانی یا ہندوستانی گیتوں میں کوئی تفریق نہیں ہوتی تھی ، بس جو موزوں لگتا تونگینے کی طرح اسے وہاں جڑ دیا جاتا تھا ۔بعض دفعہ غلطی سے کچھ الٹ پلٹ بھی ہو جاتا تھا ، مگر مجموعی طور پر یہ ایک بہت ہی شاندار اور پسند کیا جانے والا پروگرام تھا ۔ایسے ہی دو اور پروگرام”دیکھتا چلا گیا“ اور”حا مد میاں کے ہاں“ بھی تمام گھروں میں بڑی دلچسپی سے سنے جاتے تھے۔

غرض یہ کہ ریڈیو کے تمام اچھے پروگرام9سے 10بجے کے بیچ ہی چلتے تھے ۔ البتہ ان کو سننے کے لیے میرا ایک اور ذاتی مسئلہ بھی تھا کہ فوجی ماحول میں رہنے کی وجہ سے ہمیں اپنے ابا جان کی طرف سے یہ حکم تھا کہ ٹھیک9 بجے گھر کی روشنیاں گل ہو جانی چاہئیں اور پھر فوراً ہی سب سو جائیں ۔ ان کا حکم سر آنکھوں پر، لیکن ہم بھلا9 سے10 بجے کے بیچ چلنے والے یہ شاندارپروگرام کیسے چھوڑ سکتے تھے ! اس کے لیے میں نے اپنا بستراس کمرے میں لگایا ہوا تھا جہاں ریڈیو میری پہنچ میں ہوتا تھا۔آواز کو تو کم زیادہ کیا جا سکتا تھا لیکن ریڈیو کے اندر سے پھوٹتی ہوئی پورے سو واٹ کے بلب کی روشنی کا کیا کرتے جس کے نور سے سارا کمراجگمگا اٹھتا تھا اور پھر یہ نا مراد روشنی ریڈیو کے ساتھ ہی بند ہوتی تھی ۔ اس کا علاج یہ نکالا گیا کہ کوئی موٹا سا کپڑا ریڈیو پر ڈال دیا جاتا تھا اور یوں کسی نہ کسی طرح ان اچھے پروگراموںسے میں بھی مسلسل فیض یاب ہوتا رہا۔

دس ساڑھے دس بجے تک یہ ہلا گلا لگا رہتا تھا۔ اس کے بعد ایک بار پھر کوئی کلاسیکی راگ چھیڑ دیا جاتا تھا ۔ جمعرات اور جمعہ کو کچھ قوالوں کو بٹھا دیا جاتا تھا ، جنہیں عام لوگ تو کم ہی سنتے تھے تاہم بے خوابی کے مرض میں مبتلا بزرگ پاس بیٹھے سردھنتے رہتے اور پھراسے قومی ترانے کے حوالے کرکے اٹھ جاتے تھے ۔ تب ہی ریڈیو بھی سب کو شب بخیر کہہ کر اگلی صبح6 بجے تک کے لیے خاموش ہو جایا کرتا تھا۔ 

دن کو البتہ ہم سب اکٹھے بیٹھ کر ریڈیو سنا کرتے تھے جو اس زمانے کا دستور تھا۔ اس وقت تک ریڈیو صرف سرکاری ہی ہوتا تھا اوراس پر کسی قسم کا کوئی اشتہار چلاناانتہائی غیرشریفانہ فعل سمجھا جاتا تھا۔ پھر 1960ءکے ایک دن سب نے بڑی خوش گوار حیرت سے ریڈیو سے یہ اعلان بار بار ہوتا ہوا سنا کہ اگلے دن سے ریڈیو پاکستان سے بھی کمرشل سروس شروع ہو رہی ہے ۔ اس سے پہلے یہ کام صرف ریڈیو سیلون پر ہی ہوتا تھا ۔ بس پھر کیاتھا، لوگ کان لگا کر بیٹھ گئے ۔ اگلے دن دوپہر کو 12بجے ” آپ کی فرمائش “کا آغاز ہوا تو ہر نغمے کے بعد وہ ایک اشتہار چلاتے اوراس کے فوراً بعد ایک خاص قسم کی مختصر سی ٹیون نشر ہوتی تھی جو وہ اشتہار ختم ہونے کا اعلان ہوتی تھی۔سارے پروگراموں کو نئے سرے سے ترتیب دیا گیا۔ بہت جلد اشتہاری گانے بھی بننے شروع ہو گئے جو اتنے مقبول ہوئے کہ بچے اپنی اپنی پسند کے گانے بآواز بلند گلیوں اورمحلوں میں گاتے پھرتے اور یوں مفت میں کمپنی کی تشہیر ہوتی رہتی تھی ۔ پھر تو ریڈیو خوب کھل کر کھیلا کیونکہ یہ نشریاتی دنیا کے اکھاڑے کا اکلوتا پہلوان تھا ۔ ایف ایم کس چڑیا کا نام تھا، تب کسی کو معلوم نہیں تھا۔ ( جاری ہے ) 

نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -