کالے اچکوں اور کالے سپاہیوں کے درمیان آپس میں نہ لڑنے کا کوئی نادیدہ معاہدہ تھا۔ دونوں کو یقین تھا کہ لڑنے کی صورت میں کسی نہ کسی کی موت یقینی ہے

مصنف : میلکم ایکس( آپ بیتی)
ترجمہ :عمران الحق چوہان
قسط :33
سادہ کپڑوں والے سرکاری مخبروں کو میں بہت جلد پہچاننے لگا کیونکہ علاقے میں اچکوں اور لفنگوں کی بہتات کی وجہ سے سرکاری آدمیوں کی موجودگی بہت ضروری تھی۔1942ءکے آس پاس افواج کے شعبوں کے غیر سرکاری ملازم بھی معلومات اور اطلاعات کے لیے پائے جاتے تھے۔ ساحلی مزدور اکثر وہاں بندوقیں، کیمرے، خوشبوجات، گھڑیاں اور اس طرح کی چرائی ہوئی چیزیں بیچنے آتے۔ ان گورے ساحلی مزدوروں سے جو کچھ بچتا وہ کالے مزدوروں کے ہاتھ لگتا۔ مرچنٹ بحریہ کے ملاح اکثر بیچنے کے لیے گنجا(Gunja) اور کسکا(Kisca) کے بنے ہوئے سگریٹ لاتے جو نشے کے اعتبار سے کمال ہوتے انہیں افریقہ اور ایران سے سمگل کیا جاتا تھا۔
دن کے وقت آنے والے گوروں کو بہت تکلفاتی اور کاروباری انداز سے بھگتایا جاتا جبکہ رات کے مستقل گاہکوں کو بہت تفریح اور دوستانہ ماحول مہیا ہوتا۔ سرکاری مخبروں کو جوکہ سرکاری ملازمین پر نگاہ رکھنے کے لیے وہاں آتے تھے ہر طرح سے مطمئن رکھنے کی کوشش کی جاتی۔ کسی بھی مشکوک شخص سے اس وقت تک زیادہ گفتگو نہ کی جاتی جب تک کوئی جاننے والا اس کے متعلق بے ضرر ہونے کی تصدیق نہ کر دے۔ اس ماحول کا پہلا اصول یہی تھا کہ اپنے حلقے سے باہر کسی پر اعتماد نہ کرو اور کسی کو دوست بنانے سے پہلے احتیاط کو مدنظر رکھو۔
بارٹینڈرز مستقل گاہکوں کے متعلق مجھے بتاتے رہتے کہ کون انڈر ورلڈ سے تعلق رکھتا ہے کون پولیس اور سیاستدانوں سے تعلقات رکھتا ہے کون باقاعدہ جواری ہے اور کون یونہی تکے باز۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کالے اچکوں اور کالے سپاہیوں کے درمیان آپس میں نہ لڑنے کا کوئی نادیدہ معاہدہ تھا۔ میرا خیال ہے کہ دونوں کو یقین تھا کہ لڑنے کی صورت میں کسی نہ کسی کی موت یقینی ہے۔ ان کالے سپاہیوں میں کچھ انتہائی بدتمیز اور خود سر سپاہی بھی ہوتے تھے۔ ان میں سب سے برابر سبن نامی ویسٹ انڈین کالا تھا۔ ہارلم کے باسی اس کا راستہ کاٹنے سے احتیاط برتتے تھے۔ جب میں جیل میں تھا تو مجھے پتہ چلا کہ ایک نوجوان لڑکے نے جو برسبن کے نام اور کام سے واقف نہیں تھا ایک روز اس سے خوفزدہ ہو کر اسے گولی مار دی۔
دنیا کے سب سے انوکھے دلال کا نام کیڈیلک ڈریک تھا۔ اس کا سر بالکل گنجا اور فٹ بال کی طرح گول تھا۔ اس کے پاس درجن بھر طوائفیں تھیں شام کے وقت کئی پرانے گاہک اس کا مذاق اڑاتے کہ اتنی بھدی طوائفیں اس کا پیٹ تو کجا اپنا پیٹ بھی نہیں بھر پاتی ہونگی۔ وہ جواباً قہقہہ لگاتا اور کہتا ”بھدی عورتیں زیادہ محنتی ہوتی ہیں۔“
کیڈیلک کے بالکل برعکس نوجوان مہذب اور خود مختار دلال”سیمی“ دلال تھا۔ وہ کاروبار کے لیے ڈانس ہال میں ناچنے والی لڑکیوں کے تاثرات دیکھ کر ان کا انتخاب کرتا۔ بعد میں سیمی اور میں بہت گہرے دوست بنے وہ بہت سمجھ دار اور ٹھنڈے مزاج کا مالک تھا اور کیڈیلک کی طرح وہ گوری اور کالی دونوں طرح کی عورتوں سے کاروبار کرتا تھا۔ لیکن سیمی کی عورتیں جو کبھی کبھی ”سمالز“ میں آتی تھیں وہ اتنی خوبصورت ہوتیں جتنا تصور کیا جا سکتا ہے۔ اس کی سب سے مشہور طوائف ”ایلاءباماپیچ“ نامی گوری عورت تھی وہ گوروں اور کالوں میں یکساں مقبول تھی۔ 2گلاس شراب کے بدلے وہ کسی کو بھی اپنی زندگی کی کہانی سنا دیتی کہ کس طرح شروع ہی سے اسے کالوں سے نفرت کی تربیت دی گئی تھی لیکن بعد میں سکول میں بڑی عمر کی لڑکیوں نے اسے کالوں کی جنسی صلاحیتوں کے بارے میں ایسی دلچسپ کہانیاں سنائیں کہ اس کی نفرت تجسس میں بدل گئی۔ بالآخر اپنے ہی گھر میں جب دوسرے لوگ کہیں گئے ہوئے تھے تو اس نے ایک کالے کو راغب کرنے کی کوشش کی اور بصورت دیگر اس پر عزت لوٹنے کا الزام لگانے کی دھمکی دی۔ وہ کالا اس کے والد کا ملازم تھا جو ڈر کر نوکری چھوڑ کر چلا گیا۔ سکول کی مدت ختم ہونے تک وہ بہت سے کالوں سے تعلقات قائم کر چکی تھی پھر کسی طرح وہ نیویارک آئی اور سیدھی ہارلم پہنچ گئی۔ ایک روز وہ سوائے میں کھڑی صرف رقص دیکھ رہی تھی کہ سیمی کی تیز نگاہ نے اسے شناخت کرلیا اور سیمی کے ہاتھ لگنے کے بعد اس کے سارے مسائل حل ہوگئے۔ وہ ہمیشہ کالے گاہکوں کو پسند کرتی تھی اس کا مقولہ تھا”جتنے زیادہ اتنے اچھے۔“
اسی طرح ڈالر بل نامی دلال تھا ایک ”فیوکلاتھس“ نامی جیب کترا تھا جو رات کو گوروں کی جیب صاف کرتا تھا۔ بعد میں اسے گٹھیا کا مرض ہوگیا اور وہ شام کے وقت بار میں آ کر گاہکوں کو اپنے اچھے دنوں کے قصے سناتا جس سے خوش ہو کر گاہک اس کے کھانے پینے کا انتظام کر دیتے لیکن اس نے کبھی کسی سے بھیک نہیں مانگی تھی۔( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔