نیا پاکستان

پاکستانی عوام نے 11مئی کو عیدِ جمہوریت منائی۔ پاکستان کے ہر شہر میں اُس روز لوگوں کے دِل میں اُمید اور خوشی کے دئیے جگمگا رہے تھے۔ نوجوانوں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ کیا مرد اور کیا خواتین اور بزرگ‘ بچے سب لوگ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر رہے تھے۔ پاکستان کی سیاست پہلی بار ایک نئی کروٹ لے رہی تھی۔ پانچ سالہ جمہوری دور کے اختتام پر انتخابات ہو رہے تھے۔ کارکردگی اور نظریہ‘ ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد بن چکی تھی۔ علاقائیت‘ فرقہ بندی‘ برادری پسِ پشت جاچکی تھی۔ پاکستان کے اکثریتی علاقوں میں اور خاص طور پر شہری علاقوں میں عوام کے جمِ غفیر نے اپنی پسندیدہ پارٹی کو ووٹ دئیے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنی کارکردگی‘ نظریہ اور تجربہ کی بنیاد پر پاکستان کے اکثریتی عوام کی محبوب جماعت قرار پائی۔ جناب میاں محمد نواز شریف ایک بار پھر سرخرو ہوئے۔ اُن کا سیاسی قد اور شخصیت کا سحر بامِ عروج پر پہنچ چکا ہے۔ ان کی روایتی وضع داری اور شرافت عوام کی محبوب ٹھہری اور ان کے چھوٹے بھائی کی کارکردگی اور انتھک محنت ایک خوبصورت امتزاج پیدا کرتی ہے۔ پارٹی کے تمام قائدین حکومت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور آنے والے دِن پاکستان کی بہترین حکومت بنانے کے مکمل اہل ہیں۔ یہاں میں اپنے محبوب قائدین سے کچھ گزارشات کرنا چاہتا ہوں تاکہ قائدین اپنے جانثاران کے دِل کی بات کو جان سکیں۔
میری نظر میں پاکستان کی انتظامیہ کا اہم ترین جزو سول سروس ہے۔ مزید یہ کہ اس سول سروس میں پاکستان پولیس سروس اور پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ یہاں اس بات کا دُہرانا بہت ضروری ہے کہ عوام کی پسندیدہ جمہوری حکومت بھی ملک کا انتظام چلانے کے لئے اس انتظامیہ کی مرہونِ منت ہوتی ہیں۔ اور یہ انتظامیہ پچھلے بیس برسوں سے مسلسل انحطاط پذیر ہے۔ اس کی انتظامی صلاحیتوں کو زنگ لگ چکا ہے۔ سفارش‘ سیاسی مزاج‘ کام چوری اور حرام خوری اس انتظامیہ کا طرہِ امتیاز بن چکا ہے۔
انتظامیہ اگر Deliver کرنا بھی چاہے تو پرانے زمانے کے اصول و ضوابط اور افسران کی کام چوری کی عادت اس کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ میں اس بات کا چشم دید گواہ ہوں کہ کس طرح پولیس افسران‘ جو کہ بنیادی عقل و فہم‘ عوام سے محبت اور جرم سے نفرت جیسے بنیادی خوائص سے محروم ہونے کے باوجود‘ اعلیٰ عہدوں پر Appoint کر دئیے جاتے ہیں کیونکہ وہ فنِ سفارش اور فنِ تعریف میں کمال حاصل کرچکے ہوتے ہیں۔
میری گزارش ہے کہ پولیس گروپ کے موجودہ افسران کے لئے تقرری کا پیمانہ اتنا سخت ہو کہ کوئی سفارش یا تعریفی حربہ کام نہ آسکے۔ اس کے لئے نفسیاتی ٹیسٹ‘ ماضی کی کاکردگی‘ عمومی رائے اور انٹرویو جیسے اصول مرتب کئے جائیں۔ اسی طرح ضلعی انتظامیہ کی تقرری کا معیار بھی بنیادی اصلاحات کا متقاضی ہے۔ ایک تو یہ بات تقریباً طے ہے کہ پاکستان سول سروس اب ملک و قوم کے بہترین دماغوں پر مشتمل نہیں رہی۔ International Crisis Group)ICG ) کی Study اور ڈاکٹر عشرت حسین کی Study میں اس بات کو تیقن سے بیان کیاگیا ہے۔ پاکستان میں صوبائی خود مختاری ہونے کے بعد (اٹھارہویں ترمیم) اب یہ سوچنا بھی ضروری ہے کہ وفاقی سطح پر کون سے سول سروس گروپ ہیں جو رہنے چاہئیں اور کون سے صوبوں کو منتقل کرنے میں کوئی عار نہیں ہے۔ میری رائے میں پاکستان پولیس سروس اور DMGمیں بہترین دماغوں کو لانے کے لئے کچھ اصلاحات ضروری ہوگئی ہیں اور شاید ان کا صوبوں کو منتقل ہونا بھی ایک اصلاحی قدم ثابت ہو۔
آخر میں چند جملے پاکستان تحریکِ انصاف کے جوشیلے کارکنوں کے لئے۔ آپ کا جنون اور جذبہ بے شک لائقِ تحسین ہے لیکن اس میں شدت اور تلخی آپ کی جماعت کو اب نقصان دے گی۔ کہیں کہیں یہ بھی لگتا ہے کہ ایک پاکستان کی Upper Class/ Elite اور Professional, Educated Middle Classشہری علاقوں میں سرگرم رہی اور وہاں میاں محمد نواز شریف اور ان کی جماعت کے بارے میں نہایت ہلکی اور عامیانہ بیان بازی کی گئی جو کہ ان کی Arrogance کی مظہر تھی۔ یہ غرور پاکستان کے اکثریتی عوام جس میں غریب اور امیر‘ پڑھا لکھا اور ان پڑھ سب شامل ہیں۔ ان سے نفرت کا اظہار تھا۔ یہ غرور اور نفرت پارٹی کی شکست کا سبب بنا۔ اب بہتر ہے کہ اس تلخی اور نفرت کی سیاست کو کم کیا جائے اور ملک و قوم کے بہترین مفاد میں اکثریتی جماعت کو دل سے تسلیم کیا جائے۔ بالکل اسی طرح جیسے مسلم لیگ (ن) نے صوبہ خیبر پختونخوا اور سندھ میں دوسری جماعتوں کے Mandateکو تسلیم کیا ہے۔
ملک کو درپیش بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہمیں مل جل کر کرنا ہے۔ مسلم لیگ (ن)کو خلوصِ نیت اور جذبے پر مجھے کوئی شُبہ نہیں ہے۔ لیکن میں فکر مند ہوں کہ ایک بار پھر انتظامیہ اور خاص طور پر پولیس گروپ کے مخصوص افسران اپنی مرضی سے حکومت کو رسوا کرسکتے ہیں۔ عوام سے سچا پیار‘ جرم سے نفرت اور معاشرتی علوم سے مکمل آگاہی انتظامیہ کا طرہِ امتیاز ہونی چاہیے۔ ورنہ عوام انہیں معاف نہیں کریں گے۔ ٭