پاکستان کے الیکشن:ایک بھرپور تجزیہ (2)

پاکستان کے الیکشن:ایک بھرپور تجزیہ (2)
پاکستان کے الیکشن:ایک بھرپور تجزیہ (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اب ہم الیکشن کے نتائج کی طرف آتے ہیں، جو قائداعظم ؒ کے طے کردہ معیار کے لحاظ سے قطعاً حوصلہ افزا دکھائی نہیں دیتے اور نہ ہی کوئی ایسی صورت دکھائی دیتی ہے کہ آئندہ پانچ سال کے دوران کوئی آئیڈیل صورت پیدا ہو جائے گی۔ مثال ہمارے سامنے ہے۔ بنگلہ دیش میں ایک سیاسی حکومت سے دوسری کو انتقالِ اقتدار کا تجربہ ہم سے بہت پہلے ہو چکا ہے، لیکن وہاں کی دونوں سیاسی پارٹیاں بھی، جو کرپشن کے لئے مشہور ہیں ایک دوسرے کی جان کے در پے رہتی ہیں۔ آئے روز ہنگاموں اور ہڑتالوں سے زندگی مفلوج ہو جاتی ہے، بجلی کی قلت کا بھی وہی رونا ہے، لیکن اس کے باوجود بنگلہ دیش ترقی کر رہا ہے، آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کرکٹ میں باوجود مسلسل جدوجہد کے اس مقام تک نہیں پہنچ پایا، جس پر پاکستان بہت عرصے سے کھڑا ہے۔ شاید اس لئے کہ اُن کے پاس عمران خان نہیں ہے، جس کے نہ ہونے کا انہیں ایک نقصان یہ بھی ہے کہ اُن کے ہاں کوئی ایسی پارٹی نہیں،جو کرپشن سے پاک سیاست کا عزم لے کر اُٹھے اور اسے خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل ہوئی ہو۔
پاکستان میں تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے ایم کیو ایم کو بھی چونکا کر رکھ دیا ہے، جسے کراچی میں ایک عرصے سے جمہوری اجارہ داری حاصل ہے۔ تحریک انصاف کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ پیپلزپارٹی کے وجود میں آنے کے بہت عرصے بعد یہ ایک اور وفاقی پارٹی کے طور پر اُبھر رہی ہے، جس کے لئے پیپلزپارٹی کے برعکس اسٹیبلشمنٹ بھی نرم گوشہ رکھتی ہے۔ یہ اس لحاظ سے بھی خوش آئند بات ہے کہ اس سے قبل ضیاءالحق کی قیادت میں اسٹیبلشمنٹ نے اپنی تمام تر توانائیاں پیپلزپارٹی کو سندھ تک محدود کرنے اور اس کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ علاقائی اور لسانی قوتوں کو فروغ دینے پر صرف کر رکھی تھیں، جس کے اثرات موجودہ انتخابات میں بھی کھل کر نظر آئے ہیں، جنہیں دیکھ کر بہت سے مایوس لیڈر اور دانشور سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ ان حالات میں پاکستان کی قومی وحدت کا کیا حشر ہو گا؟.... بظاہر ان کی تشویش بجا دکھائی دیتی ہے، کیونکہ سوائے اے این پی کے، جو خود کو برملا پٹھانوں کی نمائندہ جماعت کہتی ہے، باقی سب بڑی بڑی سیاسی جماعتوں نے لسانی بنیادوں پر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اپنی جگہ بظاہر یہ بات درست سہی، لیکن غور سے دیکھا جائے تو مسلم لیگ(ن) نے پنجاب کے علاوہ خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان میں اپنی موجودگی ظاہر کی ہے، پیپلزپارٹی کو پنجاب سے ایک نشست ملی ہے اور ایم کیو ایم بھی اپنا دائرہ کار ملک کے دوسرے صوبوں تک بڑھانے کی سعی کر رہی ہے۔
اخلاقی طور پر حالیہ انتخابات کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اس میں ایک ایسی پارٹی کو پنجاب اور وفاق میں واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے، جس کے سربراہ پر ماضی میں بعض الزامات لگائے جاتے رہے،لیکن اس کے باوجود میاں نواز شریف کی پارٹی کو صوبائی اور وفاقی سطح پر اکثریت حاصل ہوئی اور عمران خان کی کرپشن کے خلاف تحریک بھی اُن کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کے خلاف تو کرپشن کا ڈھنڈورا نہ جانے کب سے پیٹا جا رہا ہے، بلکہ گزشتہ پانچ سال کے دوران اُن کے مخالفین نے صدر کوکرپٹ ثابت کرنے کی کوششوں کے سوا کوئی دوسراکام ہی نہیںکیا، لیکن اس کے باوجود اُن کی جماعت وفاق میں دوسری بڑی سیاسی پارٹی اور سندھ میں اکثریتی پارٹی کے طور پر اُبھری۔ اس پس منظر میں حالیہ انتخابات کو اگر کرپشن کے مسئلے پر ریفرنڈم کی حیثیت سے دیکھا جائے تو کیا یہ کہنا درست ہو گا کہ عوام کی اکثریت نے کرپشن کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے؟
اس سوال کا جواب دینے سے قبل اگر یہ پوچھ لیا جائے کہ ملک کے شہری طبقے کی بڑی تعداد نے پی ٹی آئی کو ووٹ دے کر کرپشن کے خلاف زوردار آواز بلند کی ہے تو کیا یہ درست ہو گا.... اس سوال کا جواب اگر بلا جھجھک ہاں میں ہے، تو پہلے سوال کے جواب میں بھی ہاں کہنے سے ہی معاملات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہ اکثریت کا فیصلہ ہے، جس پر اس ملک کا پڑھا لکھا طبقہ انتہائی لبریز دکھائی دیتے ہیں اور ان میں سے بہت سے تو آداب جمہوریت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اکثریت کے لئے دشنام طرازی پر اتر آئے ہیں۔ یہ نام نہاد پڑھے لکھے لوگ جو خود اس قدر مادیت پسند ہیں کہ انہیںانسان کی سوچ اور برتاﺅ سے متعلق مضامین مثلاً عمرانیات، سماجیات، فلسفہ،ادب اور تاریخ سے محض اس لئے کوئی واسطہ ہوتا کہ ان کو پڑھنے سے پیسے بہت کم ملتے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو پڑھا لکھا صرف اس بنا پر کہتے ہیں کہ انہیں انسانی جسم کی بیماریوں اور اُن کے علاج کے لئے دواﺅں کا علم ہے یا وہ جانتے ہیں کہ انجن کیسے کام کرتے ہیں یا یہ کہ وہ بین الاقوامی سطح کے دکانداروں کا سودا کیسے بیچا جاتا ہے اور اُن کی آمدنی اور خرچ کا حساب کتاب کیسے رکھا جاتا ہے یا یہ کہ بندوق یا توپ کیسے چلائی جاتی ہے یا کون سے جرم پر قانون کی کون سی دفعہ نافذ ہوتی ہے۔ ان محض سند یافتہ پیشہ وروں کو جو اپنے آپ کو پڑھے لکھوں کا چودھری سمجھتے ہیں، اَن پڑھ اکثریت کی بات کیسے سمجھ میں آئے گی؟ ٭

مزید :

کالم -