بھارت کا متعصب میڈیا، ذکا ءاشرف کا غلط ردعمل

بھارت کا متعصب میڈیا، ذکا ءاشرف کا غلط ردعمل
بھارت کا متعصب میڈیا، ذکا ءاشرف کا غلط ردعمل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ چودھری ذکاءاشرف نے ملک بھر میں کرکٹ کے شیدائیوں کو ششدر کر دیا وہ غم سے ڈوبے ہوئے ہیں کہ یہ واقعی پاکستان کے اہم کھیل کی تنظیم کے سربراہ اور ترجمان ہیں یا پھر آئی سی سی کے ملازم اور بھارتی کرکٹ بورڈ کے ساجھے دار، جو پاکستان کے کھلاڑیوں اور اہم شخصیات کو بدنام کر کے پاکستان کی اہمیت کم کرنے کی سازش کرتا رہتا ہے۔ ہمیں تو پہلے بھی چودھری ذکاءاشرف سے شکایت تھی کہ وہ دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن پاکستان کا کیس پیش کرنے سے قاصر رہتے ہیں، ان کو ہر موقع پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا حتیٰ کہ بنگلہ دیش بورڈ نے بھی ان کو ٹکا سا جواب دیا اور ویسٹ انڈیز کرکٹ والوں نے بھی اُن کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔
یہاں اگر پاکستان کے ان تین کھلاڑیوں کا ذکر نہ بھی کریں جو میچ فکسنگ کے الزام میں اپنا کیریر داﺅ پر لگا چکے تو بھی کرکٹ بورڈ کے رویے پر تعجب ضرور ہو گا کہ کھلاڑیوں کے خلاف الزام آتے ہی ہمارے بورڈ نے ان الزامات کو فوری طور پر حقیقت مان لیا اور ردعمل میں ان کھلاڑیوں کو خود ہی سزا دینے کا مطالبہ کر دیا بلکہ اُن کے خلاف ابھی کسی عدالت کا فیصلہ بھی نہیں آیا تھا کہ بورڈ نے اُن کے ساتھ اپنا تعلق ختم کر دیا تھا حالانکہ ضرورت تو یہ تھی کہ کرکٹ بورڈ اس سارے معاملے میں پہلے خود تحقیق کر کے اپنی تسلی کرتا اور پھر کوئی فیصلہ کرتا۔ ویسے یہ بھی متعلقہ عدالتوں کے بعد ہی ہونا چاہئے تھا۔
اور اب تو چودھری ذکاءاشرف صاحب نے آئی سی سی کی ایلیٹ پینل کے امپائر اسد رﺅف کا بورڈ اور ملک کی کرکٹ کے ساتھ کوئی تعلق ماننے ہی سے انکار کر دیا اور اسد رﺅف کو بھارتی بھیڑیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جو یقینا اب آئی سی سی کے ایلیٹ پینل سے ایک پاکستانی امپائر کم کرانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ چودھری ذکاءاشرف کا یہ موقف فہم سے بالا تر ہے کہ اسد رﺅف کا پاکستان کرکٹ بورڈ سے کوئی تعلق نہیں، انہوں نے بھارتی کرکٹ لیگ کے لئے پاکستان کرکٹ بورڈ سے این او سی نہیں لیا، پھر وہ کہتے ہیں کہ اسد رﺅف آئی سی سی کے پینل پر ہیں۔ دوسرے معنوں میں بھارت میں آئی پی ایل کے میچوں کی نگرانی کے لئے آئی سی سی نے ان کی خدمات دی تھیں۔ ان کے ساتھ تو علیم ڈار بھی آئی پی ایل کے متعدد میچوں کی نگرانی کر چکے ہیں اب وہ برطانیہ میں انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے ٹیسٹ میچز سپروائز کر رہے ہیں۔ اب کوئی چودھری ذکاءاشرف صاحب سے پوچھے کہ اسد رﺅف اور علیم ڈار آئی سی سی کے ایلیٹ پینل پر کس ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں، کیا وہ ٹانگا نیکا کے شہری اور ٹانگا نیکا کرکٹ بورڈ کی نمائندگی کرتے ہوئے آئی سی سی کے ایلیٹ پینل پر ہیں؟ حضور غور فرمائیں یہ دونوں امپائر پاکستانی ہیں اور پاکستان ہی کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔ یہ کیا علیم ڈار جب مسلسل سال کے بہترین امپائر قرار پائیں تو ہم پاکستان کرکٹ بورڈ کی حیثیت سے فخر کریں اور ان کو مبارکباد دیں اور اب اگر کوئی سازش ہو رہی ہو تو ان کے دوسرے ساتھی کو پاکستانی تسلیم کرنے سے انکار کر دیں یہ تو علیم ڈار کی برائت کا بھی مسئلہ بن گیا ہے؟
جہاں تک بھارتی رویے کا تعلق ہے تو بھارتی میڈیا کے علاوہ بھارتی بورڈ نے کبھی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جب ان کو پاکستان کرکٹ یا کسی کھلاڑی کے خلاف کوئی مواد ملا ہو، آئی پی ایل کے بارے میں خود بھارتی میڈیا شکوک کا اظہار کرتا رہا ہے اور اب اگر کوئی الزام آیا بھی ہے تو بھارتی کرکٹر پر ہی آیا اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ بھارتی تعصب کے باعث پاکستان کے کھلاڑی اس لیگ میں شامل نہیں ہیں ورنہ بھارتی کھلاڑیوں کی جگہ ان کو پکڑ لیا جاتا، اب یہ بھارتی میڈیا ہے جس نے پولیس تفتیش کو ذریعہ بنا کر اسد رﺅف کو ملوث کرنا چاہا اور دلیل کیا خوبصورت ہے کہ جن میچوں میں بھارتی کھلاڑیوں نے سپاٹ فکسنگ کی ان میں ایک امپائر اسد رﺅف بھی تھے اور ان سے بھی پوچھ گچھ کی جائے گی۔

 ابھی یہ خبر ہے کوئی الزام نہیں اور پھر کوئی عقل کا اندھا یہ تو بتائے کہ دو امپائر ہوتے ہیں، تیسرا ٹی وی امپائر اور پھر ریفری بھی ہوتا ہے۔ ایسے میں ایک امپائر کیسے فکسنگ میں ملوث ہو سکتا ہے؟ بھارتی میڈیا کی خبروں پر آئی سی سی نے تعصب کا مظاہرہ کیا اور اسد رﺅف کو چیمپئن ٹرافی کے پینل سے نکال دیا (کسی جرم کے ثابت ہوئے بغیر) تو پاکستان بورڈ کے سربراہ نے ان کا دفاع کرنے کی بجائے لاتعلقی کا اعلان کر کے اپنی جان چھڑانا ہی بہتر جانا اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا ”ہم تو ٹیم باہر بھیجتے ہیں تو اُن کی نگرانی کا بھی سخت انتظام کرتے ہیں“ جی حضور! یہ تو سب چور اور باقی گورے کالے کھلاڑی سب سادھ، محترم ذکا اشرف صاحب! پاکستان ایک خود مختار ملک ہے۔ آپ ایک بڑے کھیل کے منتظم اعلیٰ ہیں، آپ کو ملک کی عزت اور وقار کا خیال ہونا چاہئے، آپ کو تو بہادر بن کر دلیل سے مضبوط موقف اختیار کرنا چاہئے آپ تو آئی سی سی کے انتخاب سے لے کر کرکٹ سیریز کے ٹائم ٹیبل اور وینیو کی تبدیلی تک کے لئے سٹینڈ نہیں لے سکتے اور ہمیشہ دوسروں کی برتری مان لیتے ہیں اب بھی آپ نے بھارتی میڈیا کی پاکستان مخالف مہم اور آئی سی سی کے متعصبانہ فیصلے پر سر تسلیم خم ہی نہیں کیا، اپنے وطن کے امپائر سے لاتعلقی کا اعلان کر کے اسے میدان میں کھلاڑی چھوڑ دیا کہ.... اسے بھنبھوڑ لیں۔
قارئین سے معذرت کہ تھوڑا سا جذباتی رنگ آ گیا کہ معاملہ بھارتی میڈیا کے رویے اور ہمارے ردعمل کا تھا، ہمیں آج ذکر تو اپنے محترم اقبال ظفر جھگڑا کا کرنا تھا کہ جن کے نام ہی کا فیصلہ نہیں ہو پاتا کہ وہ اقبال ظفر جھگڑا ہیں یا ظفر اقبال جھگڑا، ویسے وہ بُرا نہیں مانتے چاہے ظفر پہلے ہو یا بعد میں بہرحال جھگڑا تو آخر میں آتا ہے اور یہ جھگڑا وہ فساد والا نہیں۔ یہ تو ان کے گاﺅں کا نام ہے جو ان کے ساتھ منسلک ہو گیا۔ ویسے وہ جھگڑنے والے نہیں حالانکہ اپنی جماعت اور قائد کے بہت وفادار ہیں اور کبھی بھی اُن کے عمل میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ یہ اُن کے نصیب کہ وہ انتخاب میں کامیاب نہیں ہو سکے اور اس سے پہلے بھی ہار جاتے رہے ہیں۔ بہرحال اب جو انہوں نے بات کی تو وہ ان کی خواہش ہی لگتی ہے، لیکن اس خواہش کے پردے میں کچھ دال میں کالا بھی ہے کہ2008ءکے انتخابات کے بعد مسلم لیگ(ن) نے پنجاب میں فارورڈ بلاک ہی بنا کر گزارہ کیا تھا۔
 اب میاں محمد نواز شریف کے طرز عمل سے یہی اندازہ ہوتا تھا کہ شاید اب کوئی معاملہ نہ ہو کہ اگلے پانچ سال محاذ آرائی میں گزر جائیں وہ جانتے ہیں کہ ایسا ہوا تو نقصان برسر اقتدار طبقے ہی کا ہوتا ہے لیکن کچھ بعید نہیں کہ محترم اقبال ظفر جھگڑا صاحب جیسے اور لوگ بھی ہوں جو یہ چاہتے ہوں کہ سینیٹ میں بھی پنجاب والا تجربہ دہرا لیا جائے حالانکہ مسلم لیگ(ن) کو اب اس کی ضرورت بھی نہیں۔ اول تو سینیٹ میں پیپلزپارٹی کی ایسی ٹھوس اکثریت نہیں کہ تنگ کر سکے اور اگر ہو بھی تو کوئی بھی بل سینیٹ کو مقررہ وقت میں منظور کرنا یا واپس بھجوانا ہوتا ہے اور دوسری مرتبہ قومی اسمبلی سے منظوری مل جانے کے بعد سینیٹ کی محتاجی ختم ہو جاتی ہے۔ یوں بھی میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری کی ملاقات مثبت رہی ہے۔ا یسے میں فارورڈ بلاک جیسے شوشے نہ ہی چھوڑے جائیں تو بہتر ہو گا۔محترم جھگڑا صاحب بھی معاملات کو زیادہ نہ پھیلائیں کہ ان کے لئے کچھ ضرور سوچا جا رہا ہے اورکوئی تو اہم ذمہ داری مل ہی جائے گی۔ ٭

مزید :

کالم -