نگران حکومت کا منی بجٹ!
صدر پاکستان آصف علی زرداری نے اس آرڈی ننس پر دستخط نہیں کئے جو ایف بی آر نے تجویز کیا اور نگران وزیراعظم نے بھیجا ہے، اس کے مطابق فوری طور پر 152 ارب روپے کے نئے ٹیکس تجویز کئے گئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے میاں رضا ربانی، خورشید شاہ اور اب قمر زمان کائرہ نے اس کی مخالفت کی اور تنقید کرتے ہوئے اسے خلاف آئین وقانون قرار دیا اور کہا ہے کہ نگران حکومت کو ٹیکس لگانے کا کوئی اختیار نہیں ہے جو عوام کو دی گئی سہولتیں واپس لے کر ان پر مزید پوجھ ڈالنا چاہتی ہے۔ نگران حکومت نے جانے سے چند روز قبل عوام کے خلاف ٹیکس بم چلانے کا اور صدارتی آرڈیننس کے ذریعے بعض نئے ٹیکس لگانے اور بعض میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس کے نفاذ سے عوام پر بوجھ بڑھے گا اور مہنگائی کے ساتھ ساتھ افراط زر میں بھی اضافہ ہوگا۔ نگران حکومت یہ قدم اس وقت اٹھارہی ہے جب نئی قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہونے میں صرف چار روز رہ گئے ہیں اور اس کے بعد انتقال اقتدار کا مرحلہ طے ہوگا۔
نئی حکومت آئندہ مالی سال 2013-14ءکا سالانہ بجٹ 15جون تک پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔ اس سے پہلے ہی 2012-13ءکے بجٹ میں صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے ٹیکسوں کا بوجھ بڑھایا جارہا ہے۔خبر کے مطابق 152ارب روپے کے یہ نئے ٹیکس 60ارب کے ان ٹیکسوں کے علاوہ ہوں گے جو سابقہ حکومت نے مارچ میں ایس آر اوز کے ذریعے بڑھائے تھے۔اس آرڈی ننس کے ذریعے تجویز کیا گیا کہ جو صارف بجلی کے ایک ہزار یونٹ (ماہانہ) سے زیادہ استعمال کرے اس پر 10فی صد ود ہولڈنگ ٹیکس نافذ کیا جائے۔ اسی طرح بینکوں سے چیک کیش کرنے پر ٹیکس کی شرح 0.2 سے بڑھا کر 0.3 کردی جائے گی۔ جن جائیدادوں کی آمدنی (کرایہ) پندرہ لاکھ روپے سالانہ سے زیادہ ہے ان کے لئے پراپرٹی ٹیکس کی ایک نئی شرح 12.5 عائد کی جارہی ہے، جو اشیاءڈیوٹی فری (درآمد) آرہی ہیں ان سب پر ایک فی صد ٹیکس عائد ہوگا، برآمدی اشیاءپر انکم ٹیکس ایک فی صد سے بڑھا کر 1.5فی صد کیا جارہا ہے ، جبکہ نئی کار کے بکنگ آرڈر پر کار کی قیمت کے پانچ فی صد کے برابر ٹیکس لیا جائے گا۔ اس کے علاوہ جنرل سیلز ٹیکس کو کم کرنے کی بجائے اسے 16 فی صد سے بڑھا کر واپس 17 فی صد (ہر شے پر) کیا جارہا ہے چینی پر سیلز ٹیکس میں کی گئی ساڑھے چار فی صد مزید کمی بھی ختم کی جائے گی، چینی کے نرخ تین سے چار روپے فی کلو بڑھ جائیں گے۔ اس کے علاوہ بھی کئی تجاویز ہیں ان کے مطابق سابقہ حکمران جماعت نے سال رواں 2012-13ءمیں جو رعائتیں دی تھیں وہ سب ختم کردی گئی ہیں۔
نئی حکومت یکم جون تک معرض وجود میں آجائے گی وزیراعظم اور وفاقی کابینہ حلف اٹھالے گی اور یہی حکومت 2013-14ءکے لئے بجٹ کا اختیار رکھتی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ نگران حکومت یہ اقدام نہ کرے اور اگرایسا ہوچکا تو میاں محمد نواز شریف کو فوری طور پر اسے ختم کرانے کے لئے مداخلت کرنی چاہیے، دنیا بھر میں نئی منتخب قیادت آنے کے بعد حکومت سنبھالنے تک پہلی حکومت کوئی بڑا اور بنیادی فیصلہ نہیں کرتی، پاکستان کی نگران حکومت کو بھی نہیں کرنا چاہیے۔ ٭