رمضان المبارک کی آمد اور سستے بازار

رمضان المبارک کی آمد اور سستے بازار
 رمضان المبارک کی آمد اور سستے بازار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اللہ کے مبارک مہینہ رمضان کی آمد آمد ہے۔ یہ مہینہ اپنی برکتوں، رحمتوں کے ساتھ جلوہ گر ہونے کو ہے۔ جس میں نیکی کی طرف دل راغب ہو جاتے ہیں۔ مساجد ماشا اللہ نمازیوں سے بھر جائیں گی۔ اس مہینہ میں اگر کوئی اجنبی بستی میں آ جائے تو اسے سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ وہ ایک مسلمان معاشرے میں آ چکا ہے۔ قرآن مجید جو ایک انسانوں کے لئے تحفہ الٰہی ہے وہ بھی اسی ماہ میں نازل ہوا۔ یہ وہ معجزہ ہے کہ جو اللہ نے ہر مسلمان کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔ اب اس سے استفادہ کرنا تو اس کا کام ہے۔ اس کی جس قدر تلاوت اس ماہ میں ہوتی ہے۔ شائد کسی اور ماہ کو یہ فضیلت نصیب ہو۔ اس ماہ میں وہ رات بھی اپنی فضیلتوں، رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ آنے کو ہے جو ہزار راتوں سے افضل ہے۔


اس ماہ کی بڑی سرگرمی روزہ کا رکھا جانا ہے۔ یہ روزہ ہر مسلمان، مرد عورت، بالغ پر شرائط کے ساتھ فرض کئے گئے ہیں، جس میں اذان فجر سے اذان مغرب تک اللہ کی رضا کے لئے بغیر کھائے پئے روزہ میں گناہ کے کاموں سے بچنا بھی ضروری ہے جو اس کا اصل مطلوب ہے، یہ وہ مشق ہے کہ جس کے اثرات پورے سال رہتے ہیں۔ انسان جب رمضان المبارک سے جدا ہوتا ہے تو عید جیسا تحفہ اس کو میسر آتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ مومن کا ہر وہ دن روز عید ہے جس دن اس نے اللہ کی نافرمانی نہ کی ہو۔ اسی مناسبت سے رمضان مبارک کا ہر دن عید کے دن کے برابر ہو سکتا ہے اگر انسان تھوڑی سی توجہ کر لے۔ اس ماہ میں نیکی کے بہت سے مواقع میسر ہوتے ہیں۔ ماہ رمضان المبارک گویا نیکیوں کی بہار ہے۔


ماہِ رمضان المبارک میں اللہ کی رضا کے لئے سارا دن بھوکا رہنا پڑتا ہے تو لازماً اس کے مثبت اثرات معاشرتی زندگی پر پڑنے چاہئیں کہ اشیاء ضروریہ کی بچت ہونی چاہیے مگر اس کے الٹ ہوتا ہے کہ اس ماہ میں اشیاء ضروریہ زیادہ استعمال ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی کمی اور مہنگائی ہو جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ امیر طبقہ اپنے وسائل سے اس کے اثرات سے محفوظ رہ جائے مگر غریب، نادار اور متوسط طبقے کے افراد بُری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ ایک مسلمان معاشرے میں تاجروں کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو اشیاء ضروریہ انتہائی کم منافع پر فروخت کریں،مگر وہ تو پور اسال اسی مہینے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں کہ جتنا سمیٹنا ہے سمیٹ لو۔ یوں اشیاء ضروریہ کی قیمتیں آسمانوں پر چلی جاتی ہیں اور تجوریاں چھلک پڑتی ہیں۔


لیکن ان حالات میں ایک فلاحی حکومت اپنی عوام کو تنہا نہیں چھوڑ سکتی۔ اس لئے وہ اپنی پوری توانائی کے ساتھ عوام کی سہولت کے لئے سامنے آتی ہے، تاکہ عوام کو اشیاء ضروریہ ارزاں نرخوں پر دستیاب ہو۔ ظاہر ہے کہ عوام تک ان اشیاء ضروریہ کو پہنچانے کے لئے کم قیمت پر مہیا کرنا اور تاجروں کو زیادہ منافع سے روکنا حکومت کے فلاحی نظام کے ساتھ ہی ممکن ہو سکتا ہے۔


الحمدللہ، حکومت پنجاب اس ضمن میں اپنی ذمہ داریوں سے نہ صرف آگاہ بلکہ عوام تک ’’رمضان پیکیج‘‘ کے اثرات پہنچانے میں دن رات کوشاں ہے۔ گو یہ سہولت عوام کے ہر طبقے تک نہیں پہنچ پاتی مگر کافی حد تک متوسط اور غریب عوام اس سے استفادہ کرتے ہیں۔


گو کہ حکومت کے تمام اہم محکمے جن میں محکمہ زراعت، محکمہ خوراک، محکمہ لائیو سٹاک، ضلعی حکومتیں بالخصوص محکمہ صنعت ، تجارت وسرمایہ کاری سرفہرست ہیں۔ محکمہ صنعت پنجاب کیونکہ اس سلسلے میں مرکزی و بنیادی کردار ادا کرتا ہے تو وہ رمضان پیکیج کے حوالے سے دو تین ماہ قبل ہی اپنی خصوصی مہم کا آغاز کر دیتا ہے جس میں اضلاع کے محکمہ جات کو رہنمائی کے لئے خطوط اور ہدایات جاری کر دی جاتی ہیں جن میں رمضان بازاروں کی تفصیل، اشیاء ضروریہ کے سٹاک کی پوزیشن اور ذمہ داران کا تعین بھی شامل ہوتا ہے۔ نیز وزیراعلیٰ اور اعلیٰ افسران سے گاہے بگاہے تفصیلی پرزنٹیشن کے ذریعے آگاہی اور ہدایات حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس کے علاوہ محکمہ کے افسران کے علاوہ خصوصی پرائس مجسٹریٹس اور انتظامیہ اپنے لگاتار چھاپوں سے مہنگی اشیاء فروخت کرنے والوں پر جرمانے اور سزائیں دیتے ہیں۔ یہ سب اطلاعات ایک جدید ترین خود کار نظام کے ساتھ صوبائی دفتر میں جمع ہوتی رہتی ہیں جنہیں انتہائی احتیاط کے ساتھ مرتب کرکے وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹری صاحب کے دفاتر میں ارسال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک صوبائی کیبنٹ کمیٹی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کو دیکھتی ہے جس میں وزراء کرام، اعلیٰ افسران کے علاوہ متعلقہ تنظیموں کے عہدیداران بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ ماہ رمضان میں تو روزانہ کی بنیاد پر اشیاء ضروریہ کے سٹاک، نرخوں اور رمضان بازاروں کے انتظامات کا جائزہ لیتی ہے۔ اگر اسے مبالغہ نہ سمجھا جائے تو ان دنوں میں محکمہ صنعت کے اراکین ہفتہ کے سات دن اور چوبیس گھنٹے عوام کی خدمت کے لئے مصروف عمل رہتے ہیں۔ نہ صلے کی پرواہ نہ ستائش کی تمنا۔


سستے رمضان بازار میں حکومت کی طرف سے پانچ اشیاء، کھجوریں، دال چنا، بیسن، دال ماش اور دال مسور، مارکیٹ سے دس روپے کم قیمت پر فروخت ہوں گی۔ بیس کلو آٹا مارکیٹ سے 170روپے بازار سے کم ریٹ پر ملے گا۔ جبکہ گھی، چینی، چکن میٹ 10رپے کم اور انڈے پانچ روپے کم ریٹ پر، متعلقہ تنظیموں کے تعاون سے میسر آئیں گے۔


اس ضمن میں اگر عوام تعاون کریں تو یہ پیکیج واقعی کارآمد اور فائدے مند ہو سکتا ہے۔ عوام سستی اشیاء کو ضرورت سے زیادہ زخیرہ نہ کریں۔ جتنی ضرورت ہے اتنا ضرور لیں، تاکہ کسی دوسرے کا حق مارا نہ جائے اور وہ بھی ماہ رمضان المبارک میں روزے بغیر کسی پریشانی کے رکھ سکے۔ کیونکہ یہ پیکیج انتہائی محنت سے اور عوام کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر بنایا جاتا ہے اس سے زائد از ضرورت استفادہ کرنا اگر گناہ نہیں تو ناجائز تو ضرور ہے۔


حکومتی مشینری کے افراد بھی اسے منصبی ذمہ داری کے بجائے ایک مشینری جذبے اور کارخیر میں تعاون کے ولولے کے ساتھ کام کریں۔اس سے خود ان کے وقار میں بھی اضافہ ہو گا اور کارِ خیر کا اجر بھی ملے گا۔ بہرحال اسے ایک فلاح و بہبود کے عوامی منصوبے کے طورپر جانا جائے گا۔

مزید :

کالم -