قومی زبان میں مقابلے کے امتحان

قومی زبان میں مقابلے کے امتحان

  

کچھ عرصہ قبل جب لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عاطر محمود نے سی ایس ایس کے امتحانات 2018ء سے اردو میں لینے کا فیصلہ سنایا اور اس کے خلاف درخواست کے نتیجے میں ڈویژن بینچ نے اگلی سماعت تک یہ حکم معطل کر دیا تو ایک نئی بحث چل نکلی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ فیصلہ اس طاقتور اقلیت، جس کا مقام ومرتبہ اورحیثیت غلامی کی یاد گار انگریزی سے وابستہ ہے، کے لئے نہایت پریشان کن ثابت ہوا ہے۔ اسے دکھائی دے رہا ہے کہ اب ان کے انگلش میڈیم صاحبزادوں کے مقابلے میں عوام الناس کے ذہین و فطین نوجوان سامنے آئینگے،جنہیں انگریزی کے غیر آئینی ہی نہیں غیر انسانی جبر نے ستر سال تک ترقی کی دوڑ میں پیچھے دھکیل رکھا تھا۔یہ طبقہ انگریزی کو ترقی کا زینہ اور علوم وفنون کا خزینہ قرار دے کر پاکستانی قوم کو بے دام غلام بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔ پرانا اور گھسا پٹا یہ اعتراض کیا جا رہا ہے کہ اردو انگریزی کا متبادل نہیں بن سکتی،حالانکہ ہماری قومی زبان کی وسعت اور جدید علوم وفنون کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت کا متعدد بین الاقوامی ماہرین لسانیات اعتراف کر چکے ہیں۔

اب ہم خالصتا فنی طور پر اس امر کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا اردو میں مقابلے کے امتحانات لینا قابل عمل ہے یا نہیں؟ اس حوالے سے حکومت پاکستان کے خود قائم کردہ اداروں:انجمن ترقی اردو،ادارہ فروغ قومی زبان،سابق مقتدرہ قومی زبان(ادارہ برائے فروغ قومی زبان) اور اردو سائنس بورڈ کے کام کا جائزہ لیا جائے تو بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مندرجہ بالا اعتراض کم علمی یا غلط فہمی سے کیا جاتا ہے۔ اول الذکر کی بیس جلدوں پر مشتمل اردو لغت، بیشترجدید علوم کی اڑھائی لاکھ اصطلاحات کے اردو متبادلات کا احاطہ کرتی ہے۔بہت کم حضرات کو یہ معلوم ہے کہ 2001ء میں جمیل الدین عالی مرحوم ودیگر کی انتھک کو ششوں سے قائم وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی میں علم طبیعات(فزکس) علم کیمیا(کیمسڑی) علم نباتیات (باٹنی) وحیوانیات(زوالوجی)تو کجاخردبینی حیاتیات (مائیکرو بیالوجی) ،حیاتیاتی کیمیا (بائیو کمسٹری )جیسے مضامین پوسٹ گریجویٹ کی سطح تک اردو میں پڑھائے جا رہے ہیں۔ہائیکورٹ میں رواں سماعت کے دوران حکومتی نمائندوں نے اردو میں مواد کی عدم فراہمی کا تذکرہ کیا۔مقام حیرت ہے کہ وہ خود اس قدر بے خبر ہیں کہ عدالت عالیہ میں پیش ہوتے وقت تیاری نہیں کی۔ اگر کسی کو اس امر میں شک ہو تو وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی کی ویب گاہ(ویب سائٹ)کھول کر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔یہی نہیں، بلکہ گزشتہ صدی کی ساٹھ کی دہائی سے بابائے اردوسائنس کالج کراچی میں متذکرہ تمام سائنسی مضامین اردو میں پڑھائے جاتے رہے ہیں۔اللہ بھلا کرے ملک کے واحد سائنسی تعلیم یافتہ سابق وزیر سائنس وٹیکنالوجی ڈاکٹر عطاء الرحمن کا جنہوں نے جمیل الدین عالی مرحوم ودیگرمحبان اردوکے ایماء پر اس کالج کو ترقی دے کر وفاقی اردو یونیورسٹی بنا دیا۔ البتہ اس دلخراش حقیت کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ نا کافی فنڈ کے سبب اپنے طور پرمالی وسائل پیدا کرنے کی خاطر اس یونیورسٹی میں اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی ذریعہ تعلیم بھی جاری وساری ہے۔

باشعور حضرات اوراہل علم پر بخوبی واضح ہے کہ لاہور کے ڈوگربرادرز،ڈوگر سنز،خالد بک ڈپوِعلمی کتب خانہ اور بعض دوسرے طباعتی ادارے مقابلے کے امتحانات کے لئے بہترین مواد تیارکراکے فراہم کرتے ہیں۔ انکے پاس ہمارے علم کے مطابق ہر مضمون کے ماہر پروفیسر حضرات کی ٹیمیں موجود ہیں جن میں سے اکثر سالہا سال کے تدریسی تجربے کے حامل ہیں جو بوقت ضرورت ہر طرح کا مطلوب مواد برائے تیاری متعلقہ امتحانات تصنیف وتالیف اور ترجمہ کرا کر امیدواروں کو مہیا کر سکتے ہیں۔اس بات کا اظہار ان اداروں کے سربراہوں میں سے ایک نے اس انداز سے کیا کہ اگر حکومت یکسوئی کے ساتھ فیصلہ کر کے ہمیں یہ کام دے تو ہم چھ ماہ کے اندر اندر متبادل کتب فراہم کر سکتے ہیں۔

امتحانی نقطہ نگاہ سے اگرقدرے وسیع تناظر میں سوچیں تو اسقدر بے پناہ سائنسی و معلوماتی مواد کا بازار میں لے آنااور ہر سال ہزاروں امیدواروں کابغرض تیاری امتحانات مطالعہ ملک کی سائنسی ترقی میں ایک نئے دور کا اضافہ کریگا ۔ یہ درست ہے کہ وفاقی اورصوبائی سطح پراعلی ملازمتوں کے لئے منتخب کردہ افسروں کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی ہے لیکن یہ ہر سال ان امتحانات میں شرکت کرنے والے ہزاروں امیدواروں کی علمی بصیرت میں گرانقدر اضافے کا سبب بنے گا۔ اگر انگریزی زدہ طبقے کے سامنے ان ہی کے فکری اساتذہ اور رہنماؤں جن کی ذہنی غلامی کے وہ اب تک اسیر ہیں ،کا نمونہ پیش کیا جائے تو شائد وہ اپنی رائے کا جائزہ لیتے ہوئے، اس میں تبدیلی کا سوچیں۔ جب انگریز بہادر نے ہندوستان میں اپنے پاؤں جمانا شروع کئے تو اس نے دیکھا کہ کون سی ایسی زبان ہے جو کم و بیش پورے برصغیر میں بولی یا سمجھی جا سکتی ہے۔ چونکہ انہیں اپنی بیوروکریسی کو پورے ملک میں تعینات کرناتھا، جسے بہر حال کسی نہ کسی طرح مقامی باشندوں سے رابطہ ر کھنا ضروری تھا۔ لہٰذا اپنی ضرورت کے تحت اردو کا انتخاب کیا گیا۔اس مقصد کے پیش نظر 1801ء میں کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج قائم کیا گیا، جس میں انگریز افسروں کو اردو سکھائی جاتی اور بولنے کی تربیت دی جاتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ دفتری امور کی انجام دہی کے لئے اردو میں تصانیف کا اہتمام بھی کیا گیا۔ متذکرہ لابی اگر انصاف سے کام لے تو اسے یہ مان لینا چاہیے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں تعینات افسران بالا کو لازماً قومی زبان میں بھر پور تیاری کرکے اپنے ملازمتوں کے مقابلے کے امتحانات میں شرکت کرنا چاہیے، کیونکہ ان کا واسطہ انگریز قوم سے نہیں پاکستانی عوام سے پڑنا ہے۔

ایک اور بات انگریزی کی بین الاقوامیت کی بھی کی جاتی ہے۔ جب ہمارے وفد نے تقریباتین ماہ پیشتر پنجاب پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کے ساتھ ملاقات میں مطالبہ کیاکہ تمام امتحانات اردو میں لئے جائیں تو جھٹ گویا ہوئے :یوں تو ہم دنیا بھر سے کٹ جائیں گے۔وہ ریٹائیرڈ لیفٹیننٹ جنرل ہیں اور ہمارے سی ایس پی اور فوجی افسران کو اپنی معلومات عامہ پر انتہائی فخر ہوتا ہے۔لیکن نہ جانے انہیں کیوں معلوم نہیں تھا کہ پاکستان کے بعد آزاد ہونے والے ترقی یافتہ ممالک،کوریا،ملائشیااور چین میں بقدر ضرورت متعلقہ افراد کو انگریزی سکھانے کے علاوہ تمام تعلیم و تدریس،جملہ امتحانات، کارِ سرکار ودیگر سرگرمیاں اپنی ہی قومی زبان میں ہوتی ہیں ۔کیا وہ دنیا سے کٹ گئے ہیں؟

آخر میں سی ایس ایس بذریعہ انگریزی کے غبارے سے ہوا نکالنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ان امتحانات میں دو سے تین فی صد تک کامیاب ہونے والوں میں سے صرف پچیس تیس افسروں کی تعیناتی وزارت خارجہ میں ہوتی ہے، جنہیں دنیا بھر میں پاکستانی سفارت خانوں میں کام کرنا ہوتا ہے۔ آپ کے لئے یہ امر باعث حیرت ہوگا کہ ان افسروں کے سامنے چھ اور بعض اوقات آٹھ زبانوں کا پینل رکھا جاتا ہے، جن میں سے ہر کسی کوایک سیکھنا ہوتی ہے۔اگرانگریزی کوئی اتنا بڑا عالمی امرت دھارا ہوتی تو پھر اسے تو وہ خوب رٹ رٹا کر مطلوبہ امتحان پاس کر چکے ہوتے ہیں لہٰذا اسی بنا پر وہ تمام دنیا میں سفارت کاری کرنے کے قابل ہوتے۔

مزید :

کالم -