تھرپارکر کے مسائل اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن
تھرپارکر کا نام سنتے ہی بھوک،پیاس اور قحط کی باتیں ذہنوں میں گردش کرنے لگتی ہیں۔ چند دن نہیں گزرتے کہ الیکٹرنک و پرنٹ میڈیا غذائی قلت سے بچوں کی اموات کی خبریں نشر کرنا شروع کر دیتا ہے۔گذشتہ برس سال غذائی قلت سے جاں بحق ہونیو الوں کی تعدا د ساڑھے چار سوسے تجاوز کر گئی تھی۔ 24 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے تھر کے 15 لاکھ باسی قحط سالی و غذائی قلت اور پانی کی نایابی کے باعث گوناں گوں مشکلات کا شکار ہیں۔بچوں کا غذائی کمی کا شکار ہو کر نمونیا، بخار، دست و قے، خون اور وزن کی کمی اور ہیپاٹائٹس جیسے موذی امراض میں مبتلا ہو نا عام ہے۔ تھرپارکرکے عوام کیلئے طبی سہولتوں کی فراہمی کی بات کی جائے تو اس حوالے سے بھی صورت حال بہت زیادہ سنگین نظرا تی ہے۔تھر میں80 فیصد سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نچلی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ریتلے ٹیلوں پر پانی کا حصول دشوار ہے اور اگر ابر رحمت نہ برسے تو خشک سالی سے زندگی اور زیادہ مشکل ہو جاتی ہے۔ تھرپارکر میں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن جیسے ادارے مستقل بنیادوں پر ریلیف سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں تاہم بھوک، پیاس اور علاج معالجہ کی سہولتوں سے محروم تھر کے عوام کی مشکلات کم نہیں ہو سکی ہیں۔ماضی میں آنے والے زلزلوں، سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات کی طرح تھر میں متاثرین کے لئے ریلیف سرگرمیوں کا جائزہ لیں تویہاں بھی امدادی سرگرمیوں میں جماعت الدعوۃ اور اس کا ادارہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن سب سے نمایاں نظرآتا ہے۔بین الاقوامی قوتوں کی طرف سے ان کے خلاف شدت پسندی کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔جماعۃالدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید سمیت پانچ رہنما اس وقت بھی محض بیرونی دباؤ پر نظربند ہیں لیکن متاثرہ علاقوں میں جا کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایف آئی ایف کے رضاکار مسلمانوں کی طرح کس طرح بلا امتیاز ہندوؤں کی بھی بھرپور مدد کر رہے ہیں۔ ان علاقوں میں چونکہ ہندو بہت بڑی تعداد میں آباد ہیں، اس لئے فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے امدادی اور میڈیکل کیمپوں پر بھی ہندوؤں کی کثیر تعداد امداد وصول کرتے نظر آتی ہے۔آپ کسی بھی علاقہ میں چلے جائیں آپ کو ایف آئی ایف کی جیکٹیں پہنے نوجوان ہی امداد میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایف آئی ایف کے رضا کار قحط سالی کی خبریں سننے کے بعد وہاں نہیں پہنچتے بلکہ پہلے سے ہی وہ ان علاقوں میں کروڑوں روپے مالیت کے واٹر پروجیکٹس پر کام کر رہے ہیں۔ ان کے پاس مقامی دیہاتوں و علاقوں کی باقاعدہ سروے لسٹیں موجود ہیں، جس کی مدد سے ان کے رضاکار اونٹوں کے ذریعے اور اپنے کندھوں پر سامان لاد کر دور دراز کے ان دیہاتوں میں پہنچ جاتے ہیں جہاں تک جانے کا سوچنا بھی محال ہوتا ہے۔تھر پارکر میں کھانے پینے کی اشیاء نہیں اور اگر ہیں تو لوگوں میں خریدنے کی سکت نہیں ہے۔تھرمیں آج بھی عورت کے ساتھ بہت زیادہ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، وہ مرد کو پہلے کھانا کھلاتی ہے اگر کچھ بچ جائے بعد میں خود کھاتی ہے۔شادی کے بعد جب عورت ماں بنتی ہے لازمی بات ہے اسے اچھی خوراک، ادویات ،چیک اپ اورآرام وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اسے کوئی سہولت بھی دستیاب نہیں ہوتی اس کی بجائے بدستور اسے اپنے روزمرہ کے کاموں میں مشغول و مصروف رہنا پڑتا ہے،بکریاں چراتی ہے، لکڑیاں اکٹھی کرتی ہے اور دور دور سے پانی لاتی ہے۔کم وزن صرف اورصرف مناسب خوراک اور آرام نہ ملنے کی وجہ سے ہے جس کا نتیجہ ہے کہ پیداہونے والے بچوں کا وزن ایک کلو یادو تین کلو ہوتا ہے۔بچو ں کی پیدائشی کمزور دراصل ماں کی کمزوری کی وجہ سے ہے جب ماں کو خوراک نہیں ملے گی تو بچہ لازماََ کمزور ہو گا،اس لئے کہ ایک صحتمند ماں ہی صحتمند بچے کو جنم دیتی ہے۔تھرمیں سب سے بڑا اور سنگین مسئلہ پانی کی عدم دستیابی ہے۔یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر وہاں پانی کا مسئلہ حل ہو جائے، کسی نہر کے ذریعے پانی پہنچادیا جائے، یامقامی سطح پر کسی طریقے سے میٹھا صحتمند پانی مہیا کردیا جائے تو تھر پارکر کے لوگوں کے80فیصد مسائل حل ہو جائیں گے۔ اسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے فلاح انسانیت فاؤنڈیشن پچھلے سولہ برس سے ریلیف سرگرمیاں انجام دے رہی ہے۔ ایف آئی ایف نے 16سو سے زائد پانی کے منصوبے مکمل کئے ہیں۔ان منصوبوں میں کنویں، ہینڈ پمپ اور سولر پمپ شامل ہیں۔جو عورت کئی مٹکے سر پر اٹھا کر پانچ پانچ میل دور سے ننگے پاؤں پانی لانے پر مجبور تھی آج الحمد للہ اس کے گھر کے سامنے ہینڈ پمپ ہے یا پانی کا کنواں ہے۔جو لوگ پہلے گندا کھارا پانی پیتے تھے اب انہیں میٹھا اور صحت بخش پانی اپنے گھر کے دروازے کے سامنے پینے کے لئے مل رہا ہے۔فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی طرف سے بہت بڑا کام جو مٹھی، اسلام کوٹ اور ڈیپلو کی مختلف تحصیلوں میں دور دراز کی گوٹھوں کے اندر کیا گیا ہے۔ ایف آئی ایف نے 16مختلف علاقوں میں ایگریکلچر فارمنگ کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ سات لاکھ روپے مالیت سے سولر ٹیکنالوجی کے ذریعہ ٹیوب ویل کا ایک پروجیکٹ چلتا ہے جس کے تحت جو کوئی دس ایکڑزمین رکھتا ہے اور وہ اپنی زمین آباد کرنا چاہتا ہے‘ اس کے ذریعہ کر سکتا ہے۔ دنیا حیران ہے کہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے ان منصوبہ جات سے صحرا میں ہریالی ہو رہی ہے اور یہاں کے لوگ مختلف علاقوں میں گندم، جوار، باجرہ اور سبزیاں کاشت کر رہے ہیں۔ لوگوں کو روزگار مل رہا ہے اور پینے کے صاف پانی کی سہولیات مل رہی ہیں۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن نے غربت کے خاتمے اور لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑاکرنے کے لئے مختلف پروگرام ترتیب دیے ہیں تاکہ انہیں گھر بیٹھے باعزت اور مستقل روز گار مل سکے۔پانی کی طرح وہاں گھریلو جانور جیسے بکری وغیرہ کی بھی بہت اہمیت ہے اور اسے بہت بڑی نعمت سمجھا جاتا ہے۔چنانچہ ایف آئی ایف بیوہ خواتین اور انتہائی غریب لوگوں میں دو دو تین تین بکریاں تقسیم کرتی ہے تاکہ وہ خود دودھ پئیں ،بچوں کو پلائیں اور اپنا روز گار چلائیں تاکہ غربت ختم ہو۔تھرپارکر میں تعلیم کی فراہمی بھی ایف آئی ایف کا بہت بڑا فوکس ہے۔اس وقت تھرپارکرمٹھی میں ایک سکول ہے اسی طرح ایک اسلام پور میں زیر تعمیر ہے۔ فروغ تعلیم کے لئے فلاح انسانیت فاؤنڈیشن نے ہرگوٹھ میں ’’ایک جھونپڑا ایک ٹیچرکا ’’عظیم الشان پراجیکٹ شروع کیا ہے اس پراجیکٹ کے تحت ٹیچر جہاں بچوں کو سکول کی تعلیم دے گا وہاں وہ بچوں کوقرآن مجید پڑھائے گا ،نماز سکھائے گا اور دین کی تعلیم بھی دے گا۔اس وقت ایف آئی ایف کے اس طرح کے بیسیوں سکول بچوں کو دین ودنیا کے علم سے آراستہ کر کے ملک کا مفید شہری اور باعمل مسلمان بنانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔اسی طرح سکولوں اور پانی کے پراجیکٹس کی تعمیر کے ساتھ مساجد کی تعمیر کا کام بھی جاری ہے۔فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالرؤف بتاتے ہیں کہ ہم تھرپارکر میں بلا تفریق رنگ، نسل اور مذہب دکھی انسانیت کی خدمت کر رہی ہے۔ ایف آئی ایف کے آدھے سے زیادہ کنویں ان آبادیوں میں ہیں جہاں صرف ہندو ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہندو بھی پاکستان کے باعزت شہری ہیں ،اگر یہ کسی مشکل یا پریشانی میں ہوں تو ان کی خدمت کرنا ہمارافرض ہے او ر جب تک جان میں جان ہے ان شاء اللہ ہم اپنا یہ فرض ادا کرتے رہیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ تھر میں ہماری ریلیف سرگرمیوں کا میدان بہت وسیع ہے۔ہم وہاں مستحقین ومتاثرین میں راشن تقسیم کرتے ہیں۔اس وقت جبکہ رمضان المبارک شروع ہورہا ہے تو فلاح انسانیت فاؤنڈیشن نے تھرپارکر اور بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں بسنے والے بھائیوں کو رمضان المبارک میں سحروافطار اورعید کی خوشیوں میں شریک کرنے کیلئے لاہور کے چوبرجی چوک سے 60لاکھ روپے مالیت کا امدادی سامان روانہ کیا ہے۔ رمضان پیکج کے تحت سات ٹرکوں پر مشتمل روانہ کیا گیا سامان 2ہزار سے زائد خاندانوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ امدادی سامان میں آٹا،چاول ، گھی، چینی، دالیں اور دیگر اشیاء ضروریہ شامل ہیں۔اس موقع پر ایک تقریب کا بھی انعقاد کیا گیاجس میں دفاع پاکستان کونسل و جماعۃالدعوۃ کے مرکزی رہنما پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی، فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالرؤف ، مولانا سیف اللہ خالد، تھرپارکر سے آنے والے ہندو ایڈووکیٹ حما بھیل، ابوالہاشم ربانی، علی عمران شاہین و دیگر نے بھی خطاب کیا۔ جماعۃالدعوۃ کے مرکزی رہنما حافظ عبدالرحمن مکی کا کہنا تھا کہ تھرپارکر اور بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں غریب و نادار لوگوں کیلئے یہ سامان بھجوایا جارہا ہے تاکہ وہاں کے رہنے والے ہمارے بھائی بھی سحروافطار میں شریک ہو سکیں۔ ہم ان علاقوں میں امدادی سامان بھجوارہے ہیں جو دور دراز ہونے کی وجہ سے ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں اور بھارتی خفیہ ایجنسیاں وہاں لوگوں کی غربت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علیحدگی پسندی کی تحریکیں پروان چڑھا رہی ہیں، افغانستان میں قائم بھارتی قونصل خانوں میں دہشت گردوں کو تربیت دیکر پاکستان داخل کیا جارہا ہے اور وطن عزیز کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے کروڑوں ڈالر خرچ کئے جارہے ہیں۔ ہم نے بلوچستان، سندھ و دیگر علاقوں میں علیحدگی کی تحریکیں پروان چڑھانے کی سازشیں ناکام بنا کر اس ملک کو متحد و مضبوط رکھنا ہے۔ ہم تھرپارکر سندھ اور بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں پینے کا صاف پانی مہیا کر رہے ہیں ۔ اس سے وہاں کے مجبور و لاچار بھائیوں کے دل پاکستان کے ساتھ جڑتے ہیں۔ ہم اللہ کے فضل وکرم سے یہ دعوت لیکرماشکیل، خضدار، تربت، پنجگور اور دیگر علاقوں میں جاتے اور امدادی سامان بھجواتے ہیں۔ عبدالرحمن مکی نے کہاکہ ہمیں کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کئے گئے پاکستان کو صوبائیت اور لسانیت پرستی سے محفوظ رکھنا ہے۔ بلوچستان اور سندھ کے بڑے بڑے سردار فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی امدادی سرگرمیوں سے بہت خوش ہیں اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ اور دیگر شہروں کے بھائی ہماری ضروریات اور دکھ درد کو سمجھتے ہیں۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی طرف سے 60لاکھ روپے مالیت کا امدادی سامان بھجوایا جارہا ہے جس میں آٹا، چاول، گھی، چینی، دالیں، کھجوریں، مصالحہ جات اور دیگر اشیاء ضروریہ شامل ہیں۔ یہ امدادی سامان 2ہزار سے زائد خاندانوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ امدادی سامان کی یہ پہلی قسط ہے۔ آنے والے دنوں میں ان شاء اللہ مزید امدادی سامان روانہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ افطار الصائم پروگرام کے تحت امدادی سامان پہنچائے جانے سے سندھ و بلوچستان کے غریب و نادار لوگوں کو عید الفطر کی خوشیوں میں بھی شریک کیا جائے گا۔ ہم نے دشمن کو یہ پیغام بھی دینا ہے کہ پوری پاکستانی قوم متحد اور کلمہ طیبہ کے بنیاد پر حاصل کئے گئے ملک کے عوام ایک ہیں۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیش کے چیئرمین حافظ عبدالرؤف نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تھرپارکر ،بلوچستان کے علاقوں میں افطار الصائم کے لئے سامان کی پہلی کھیپ لاہور سے روانہ کر رہے ہیں جو رمضان سے قبل ہی دور دراز علاقوں میں سروے کی بنیاد پر تقسیم کر دی جائے گی۔ ہم جن علاقوں میں افطار الصائم کے لئے سامان روانہ کر رہے ہیں وہاں پینے کا میٹھا پانی اور پھل دستیاب نہیں ۔تھر پارکر میں ٹھنڈے پانی کو لوگ میٹھا پانی کہتے ہیں۔ان علاقوں میں برف کی بھی پہچان نہیں۔تھر پار کر ،سبی میں لاہور سے زیادہ گرمی ہوتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے تحت ملک بھر میں ہر سال ایک لاکھ لوگوں کے لئے دسترخوان لگایا جاتا ہے۔ امسال لاہور شہر میں مختلف مقامات پر ایک سو دسترخوان جبکہ ملک بھر میں ایک ہزار دسترخوان لگائے جائیں گے اور گلگت سے گوادر،چمن سے چترال تک افطار الصائم کا انتظام کیا جائے گا۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے افطار دسترخوانوں پر لاکھوں افراد سحری و افطاری کریں گے۔تھر پار کر سے آنے والے ہندو ایڈووکیل حما بھیل نے کہاکہ حکومتی جماعتوں نے تھر پار کر میں اتنا کام نہیں کیا جتنا فلاح انسانیت فاؤنڈیشن نے کیا ہے۔گھر گھر تک پانی پہنچانے کے لئے کنویں،ہینڈ پمپ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن نے لگوائے۔تھر پارکر کے لوگ انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور ان کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔جماعۃ الدعوۃ کے مرکزی رہنما مولانا سیف اللہ خالد، ابوالہاشم ربانی، علی عمران شاہین و دیگر نے کہا کہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے تحت ملک بھر میں خدمت خلق کا کام جاری ہے۔رمضان سے پہلے رمضان پیکج بھجوانا اس بات کی دعوت ہے کہ ہمیں رمضان المبارک میں افطار الصائم کا اہتمام کرنا چاہئے اور دوسروں کا خیال رکھنا چاہئے۔مقررین کا کہنا تھا کہ حافظ محمد سعید و دیگر رہنماؤں کو تھرپارکر سندھ، بلوچستان و دیگر علاقوں میں دکھی انسانیت کی انہی خدمات کی بنا پر نظربند کیا گیا ہے۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی جانب سے ہر سال میڈیکل کیمپ لگائے جاتے ہیں جن میں نہایت ہی تجربہ کارڈاکٹرز جو اپنے کلینکس اور ہسپتالوں میں ہزاروں روپے فیس وصول کرتے ہیں تھرپارکر میں ان مریضوں کا فری چیک اپ کرتے ،ادویات دیتے اور فری آپریشن کرتے ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی میں کبھی ایک ہزار روپیہ بھی نہیں دیکھا۔اب تک دو لاکھ سے زائد مریضوں کا علاج ہوچکا ہے،جو زیادہ سیریس مریض ہوتے ہیں انہیں کراچی ریفر کیاجاتا ہے تھرپارکر میں ایمبولینس سروس بھی شروع کر دی گئی ہے۔ایف آئی ایف کی ریلیف سرگرمیوں کا دائرہ بہت وسیع ہے تاہم اس کے باوجود میں سمجھتاہوں کہ تھرپارکر کے متاثرین کی محض کسی ایک جماعت کا مسئلہ نہیں ہے۔ تمام تر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ، خاص طور پر وہ علاقے جہاں اللہ نے لوگوں کو گندم و چاول جیسی فصلیں اور دیگر وسائل سے نواز رکھا ہے، انہیں متاثرین کی مدد سے کسی صورت پیچھے نہیں رہنا چاہئے اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن جیسی تنظیموں سے کھل کر تعاون کرنا چاہیے تاکہ تھرپارکر کے متاثرہ بھائیوں کی مشکلات کم کی جا سکیں۔