’میرا 16 سالہ بیٹا اس بیماری کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور اب میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک۔۔۔‘ دکھی سعودی باپ نے ایسا اعلان کردیا کہ آپ بھی جذبے کی تعریف کئے بغیر نہ رہ پائیں گے
ریاض(مانیٹرنگ ڈیسک) جوان بیٹا باپ کے ہاتھوں میں دم توڑ جائے تو ایسے بدنصیب باپ کے لئے گریہ و زاری کے سوا چارہ ہی کیا رہ جاتا ہے مگر اس باہمت سعودی باپ کو دیکھئے جس نے بیٹے کی کینسر سے موت کے بعد خود کو اس موذی بیماری کے خاتمے کے لئے وقف کر دیا ہے۔
سعودی نوجوان یوسف یاسر خوجہ کینسر کی ایک کمیاب قسم میں مبتلا ہوا اور علاج کی ہر ممکن کوشش کے باوجود قسمت نے یاوری نہ کی اور وہ باپ کے ہاتھوں میں تڑپتا ہوا دنیا سے رخصت ہو گیا۔ یوسف کے والد نے بیٹے کے غم کو ہی اپنی طاقت بنا لیا ہے اور اب وہ اس کینسر کے علاج کی دریافت کے لئے دل و جان سے متحرک ہوچکے ہیں۔
انہوں نے اپنے اس قابل تعریف مشن کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ”میں دنیا بھر میں کینسر کی تحقیق کے لئے کام کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر کام کررہا ہوں تاکہ اس خطرناک بیماری کا علاج ڈھونڈا جاسکے۔ اس بیماری سے صحت یاب ہونے والا ہر بچہ میرے لئے یوسف ہوگا۔“
اپنے بیٹے کی بیماری اور المناک حالات میں دنیا سے رخصتی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا ”میرا بیٹا یوسف مذہبی ذہن رکھنے والا اور دوستوں عزیزوں کے ساتھ خوش رہنے والا نوجوان تھا۔ اسے کوئی بیماری لاحق نہیں تھی مگر پہلی بار گزشتہ سال جولائی میں اس نے مجھے کمر کی تکلیف کے متعلق بتایا۔ جب میں اسے ہسپتال لے کر گیا تو اس کا چیک اپ کیا گیا اور ایکسرے ٹیسٹ بھی کیا گیا۔ ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کو کینسر لاحق تھا۔ یہ عید کے دن تھے لیکن یہ ہمارے لئے ایک المناک وقت تھا۔ مزید ٹیسٹ کئے گئے تو پتہ چلا کہ اسے لاحق ہونے والا کینسر انتہائی کمیاب قسم کا ہے۔
ہم نے دارالحکومت ریاض کے ایک ہسپتال میں اس کا علاج کروایا اور پھر اسے فرانس لے گئے۔ ہر ممکن کوشش کے باوجود یہ کینسر اس کی ریڑھ کی ہڈیوں سے پسلیوں اور سینے میں بھی پھیل گیا۔ میں نے دنیا کے کئی کینسر ریسرچ سنٹروں سے رابطہ کیا لیکن ہر جگہ سے جواب آیا کہ اس کینسر کا علاج ممکن نہیں۔ بالآخر یہ کینسر اس کے دماغ تک بھی پہنچ گیا او رمارچ میں وہ ہمیں غمزدہ چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگیا۔
میرا بیٹا دنیا سے رخصت ہوگیا لیکن میں عمر بھر اس بیماری سے لڑتا رہوں گا۔ میں اس بیماری کو اپنا دشمن سمجھتا ہوں اور بچوں کو اس سے بچانے کیلئے ہر ممکن کوشش کروں گا۔ میں نے اس بیماری پر تحقیق کرنے والے تمام ریسرچ سنٹروں سے رابطہ کرلیا ہے اور انہیں تحقیق میں ہر ممکن مدد فراہم کرنے کی کوشش کروں گا۔ میں اپنی کوشش کبھی ترک نہیں کروں گا، جب تک زندہ ہوں اس بیماری سے لڑوں گا۔“