مضر صحت دودھ کی فروخت بدستور جاری
پنجاب فوڈ اتھارٹی نے رات کے وقت چھاپہ مارا اور دس ہزار لیٹر سے زیادہ دودھ سے بھڑا کنٹینر پکڑ لیا یہ کیمیکل سے بنایا گیا جعلی اور مضر صحت دودھ تھا جو قصور کے گاؤں واں کھاراں میں تیار کیا گیا۔ خبر کے مطابق اتھارٹی اہل کاروں نے گاؤں میں اس فیکٹری پر بھی چھاپہ مارا جہاں یہ جعلی دودھ تیار کیا جاتا تھا، اور تمام مضر صحت اجزا بھی قبضہ میں لے لئے گئے مالک موقع سے فرار ہو گیا۔یہ پہلی بار نہیں کہ اتنی مقدار میں بناوٹی اور مضر صحت دودھ پکڑا گیا ہو، یہ وبا چاروں صوبوں میں ہے اور کراچی، پشاور وغیرہ سے بھی ایسی خبریں آتی رہتی ہیں، فوڈ اتھارٹی کی مسلسل کارروائیوں کے باوجود یہ دھندا بند نہیں ہو پا رہا۔ یہ ماہ مقدس رمضان المبارک ہے جسے تزکیہ نفس کا مہینہ کہا جاتا ہے یہ کیسے مسلمان ہیں کہ نہ تو انسانی صحت کے نقصان اور نہ ہی دینی احکام کی پروا کرتے ہیں۔ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ اب فوڈ اتھارٹی نے محکمہ لائیو سٹاک کے تعاون سے کھلے دودھ کی فروخت بند کرنے اور پیسچرائزڈ دودھ فروخت کرنے کی سکیم بنائی ہے جو تجرباتی طورپر لاہور سے شروع کی جائے گی۔ ابھی تک اس پروگرام کے تمام پہلو واضح نہیں کئے گئے کیونکہ پیسچرائزڈ ایک فارمولا ہے جس کے مطابق پیک لفافے میں ہی دودھ ہوتا ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ اس کے خالص ہونے اور خالص رہنے کے لئے کیا اقدامات کئے گئے؟ اگر یہ سب بھی انہی عناصر نے کرنا ہے جو پہلے ملاوٹی یا بناوٹی دودھ فروخت کرتے رہے ہیں اس لئے اگر یہ طریق کار اپنانا ہے تو یہ بھی یقینی بنانا ہو گا کہ اس میں کسی نوعیت کی ملاوٹ نہ ہو کہ شہری آمادہ ہوئے تو پھر آنکھ بند کرکے اعتبار کریں گے اس لئے ان کو پھر خالص دودھ ہی ملنا چاہیے۔یہ سب اپنی جگہ لیکن اشیائے خوردنی میں ملاوٹ تو بڑھتی نظر آ رہی ہے اور ایسا کرنے والوں کو اللہ کا خوف نہیں، اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملاوٹ کرنے والے قانون اور قواعد کا مذاق اڑاتے اور اس سے کھیلتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ملاوٹ کے حوالے سے ایک یکساں سخت قانون بنے اور ملاوٹ کرنے والوں کے لئے سخت ترین سزائیں ہوں یہ حضرات بھی تو انسانی صحت ہی سے کھیلتے ہیں۔