اسلام آباد، اب دھرنا پارٹ ٹو کا منتظر

اسلام آباد، اب دھرنا پارٹ ٹو کا منتظر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وفاقی دارالحکومت آج پھر لانگ مارچ اور دھرنا پارٹ ٹو کا منتظر ہے، جس کے نتیجہ میں سیاسی عدم استحکام اور انتشار میں مزید اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے، جبکہ اسلام آباد کی سیاسی فضا پہلے ہی سے کنفیوژن سے آلودہ نظر آتی ہے۔ اسلام آباد کے باسی متجسس ہیں کہ کیا حکومت سابق وزیراعظم عمران خان کے اس سیاسی ریلے کا مقابلہ کرپائے گی؟کیونکہ اس دھرنے کے عوامل اور معروضی حقائق کا ماضی کے دھرنے سے موازنہ کیا جا سکتا ہے نہ ہی کوئی مماثلث نظر آتی ہے کیونکہ تب کپتان نے دھیرے دھیرے ایک سیاسی موومینٹم بنایا تھا اس وقت انہیں مقتدر اداروں کی جانب سے بھرپور حمایت کا تاثر تھا یعنی اس وقت پاکستان تحریک انصاف کا پودا گملے میں تھا جسے مصنوعی کھاد اور پانی فراہم کر کے پروان چڑھایا جا رہا تھا اور سیاست کے موسمی اثرات سے محفوظ رکھا گیا تھا۔ مزید ازاں ان کے اس وقت کے دھرنے کو مولانا ڈاکٹر طاہر القادری کا حفاظتی حصار فراہم کیا گیا تھا لیکن اس بار ویسے سازگار حالات نظر نہیں آتے دلچسپ امر یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ لندن یاترا میں مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف کے ساتھ طویل مشاورت کے بعد وطن واپسی پر بھی سیاسی تذبذب کا شکار نظر آ رہی تھی۔گزشتہ چند دنوں سے تو یہ تاثر مل رہا تھا کہ حکومت اب گئی کہ اب گئی، کپتان جو کامیابی سے حکومت پر دباؤ بڑھاتے نظر آرہے تھے کہ وزیراعظم شہباز شریف اسمبلیاں تحلیل کر کے عام انتخابات کا اعلان کر دیں،یوں لگتا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ اور دھرنے کی کال نے حکمران اتحادکو بالعموم اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کو بالخصوص یکجا ہو کر حکومتی مدت  پوری کرنے کے فیصلے پر پہنچنے میں بھرپور مدد فراہم کی۔ اگرچہ مسلم لیگ(ن) کی صفوں میں بعض لوگوں کا خیال تھا کہ کمزور حکومت کے ساتھ ان کی مقبولیت میں مزید کمی واقع ہو گی  اس لئے عام انتخابات میں جانا ہی بہتر ہے اور وہ پُراعتماد تھے کہ مسلم لیگ(ن) کی پنجاب میں اتنی مقبولیت ہے کہ دو دو ہاتھ کرنے میں کوئی امر مانع نہیں عین ممکن تھا کہ یہ سوچ غالب آ جاتی تاہم وزیراعظم شہباز شریف نے ایک سیاسی حکمت عملی کے تحت اس کنفیوژن کو ختم کرنے کے لئے کوئی ٹھوس سبیل نہیں کی تاکہ انتقالِ اقتدار کے حالیہ عمل میں تمام سٹیک ہولڈرز جو لوگ دانستہ ان کے ساتھ تھے یا پھر جو نیوٹرل رہ کر ایک خاموش مفاہمت کا مظاہرہ کر رہے تھے۔موجودہ سیاسی و آئینی بحران سے نکلنے میں بھی اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ہو سکتا تھا کہ دانستہ یا نادانستہ طور پر پھیلنے والے کنفیوژن کے نتیجہ حالات اس نہج پر پہنچ جاتے کہ حکومت کو عام انتخابات میں جائے بغیر بن نہ پڑتی، لیکن عمران خان کی جانب سے اپنا آخری طاقتور کارڈ کھیلنے کے بعد مسلم لیگ(ن) کے پاس کوئی آپشن ہی نہیں بچا کہ وہ نہ صرف حکومت موثر انداز میں نہ صرف چلائیں،بلکہ اپنی مدت بھی پوری کریں،کیونکہ کپتان نے جو پتہ کھیلا اس کے بعد تو الیکشن میں جانے کا مطلب میدان سے فرار تھا۔وزیراعظم شہباز شریف نے تو اپنے وزیر خزانہ کو بھی آئی ایم ایف سے مذاکرات میں بھیجنے کو دانستہ التوا میں رکھا ہوا تھا، یعنی وہ پہلے تمام آپشنز پر غور و فکر کے لئے تیار تھے لیکن اب وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لئے روانہ ہو گئے ہیں بلکہ وہ جاتے ہوئے اتنے پُراعتماد تھے کہ شاید پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کی بھی نوبت نہ آ پائے۔
اتوار کے روز لاہور میں ہونے والے فیصلوں کے بعد حکومت اپنے اقدامات میں پُراعتماد نظر آ رہی ہے۔ لگتا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے دھرنے کا مقابلہ کرنے، بجٹ پیش کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔اگرچہ پچھلی حکومت نے سٹیٹ بنک کو خود مختاری دے کر حکومت کے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے تھے جس کی وجہ سے سٹیٹ بنک نے نئی مانیٹر پالیسی میں دو ماہ کے لئے شرح سود میں اضافہ کر دیا ہے جس کے نتیجہ میں نہ صرف معیشت سست روی کا شکار ہو گی اور مہنگائی میں بھی اضافہ ہو گا،جبکہ حکومت نے خسارے پر قابو پانے کی غرض سے غیر ضروری اور پُرتعیش درآمد کی جانے والی اشیاء پر امپورٹ ڈیوٹی میں بے تحاشا اضافہ کر دیا ہے یا ان پر پابندی لگا دی ہے تاکہ ڈالر کی اونچی اڑان کو روکا جا سکے۔ درحقیقت لانگ مارچ اور دھرنے کے تناظر میں بھی ڈالر کی قیمت بے قابو نظر آ رہی ہے۔ دھرنے اور لانگ مارچ کے پیش نظر اسلام آباد کے باسیوں میں خوف اور اضطراب کی فضا پائی جا رہی ہے، راستوں کی ممکنہ بندش کے حوالے سے سکول جانے والے بچوں کے والدین اور دفاتر جانے والے ملازمین میں تشویش پائی جاتی ہے، وزیراعظم محمد شہباز شریف کی سربراہی میں ایک اہم ترین اجلاس میں طے کیا گیا کہ لانگ مارچ کو ہر قیمت پر روکا جائے گا۔اس حوالے سے نہ صرف ایک کریک ڈاؤن نظر آیا بلکہ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ حکومت  پشاور اور خیبرپختونخوا سے آنے والے راستوں پر لانگ مارچ کو روکنے کے انتظامات کرے گی۔لگتا ہے حکومت دھرنا پارٹ ون سے اس وقت کے وزیر داخلہ چودھری نثار نے نپٹنے کے لئے جو ناقص حکمت اپنائی تھی اس کی تاریخ نہیں دہرانا چاہتی۔حکومت اس حوالے سے غیر ضروری طور پر محتاط نظر آ رہی ہے،جبکہ وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ اور پولیس کو اس ضمن میں چوکس کر دیا گیا ہے۔پولیس کے ساتھ ساتھ  رینجرز اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے جوان بھی تعینات کئے گئے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف سرینگر ہائی وے پر دھرنے کی خواہاں جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر رٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریڈ زون میں آنے اور انہیں جلوس و دھرنے کی کھلی چھٹی دینے کی اجازت نہیں دی تاہم ضلعی انتظامیہ کو بے جا پکڑ دھکڑ سے منع کر دیا گیا۔ دھرنے، لانگ مارچ سے نپٹنے کا معاملہ وفاقی کابینہ کے بھی زیر غور آیا اور کابینہ نے اس حوالے سے ایک جامع حکمت عملی کی منظوری دی اب دیکھنا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کابینہ کے اس منصوبے کو کس حکمت عملی سے عملی جامہ پہناتے ہیں یا پھر سابق وزیر داخلہ چودھری نثار کی طرح صرف گیدڑ بھبکیوں سے ہی کام چلاتے ہیں۔کپتان عمران خان کی لانگ مارچ اور دھرنے کی کال نہ صرف وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور بلکہ پوری اتحادی حکومت کے لئے ایک کڑی آزمائش ہے اگر وہ اس آزمائش سے سرخرو ہو گئے تو اس بات کے قومی امکانات پیدا ہو جائیں گے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے یا پھر اپنی مرضی کے مطابق کسی موزوں وقت پر عام انتخابات کا اعلان کرے۔ پاکستان تحریک انصاف کا لانگ مارچ اور دھرنا درحقیقت ان کی بغیر کسی سپورٹ کے پہلی آزدانہ سیاسی فلائٹ ہے دیکھنا ہے کہ وہ کیسی پرواز کرتی ہے۔وفاقی دارالحکومت میں آئندہ24سے72 گھنٹے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہوں گے اس کے کچھ بھی نتائج نکل سکتے ہیں، نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی دنیا کی نظریں بھی اسلام آباد پر مرکوز ہیں۔

، شہریوں میں اضطراب اور پریشانی ہے
وفاقی حکومت نے اتحادیوں کی مشاورت کے بعد مدت پوری کرنے اور لانگ مارچ سے عہدہ برآ ہونے کا فیصلہ کر لیا
عمران خان کا لانگ مارچ، تحریک انصاف اور حکومت کی کڑی آزمائش ہے

مزید :

ایڈیشن 1 -