معاشی جکڑبندی اور سیاسی قیادتیں 

 معاشی جکڑبندی اور سیاسی قیادتیں 
 معاشی جکڑبندی اور سیاسی قیادتیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 اس وقت وطن عزیز کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ معاشی بدحالی کا ہے۔ہماری اکانومی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے لیکن اس سے بھی بڑی پریشانی کی بات یہ ہے کہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے ہماری سابقہ اور موجودہ سیاسی قیادت کے  پاس کوئی ٹھوس لائحہ عمل سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ آ جا کے سارے کا سارا زور آئی ایم ایف سے قرض کی قسط جاری کروانے پر صرف ہو رہا ہے جس کے بغیر  حالات کے سنبھلنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔عالمی مالیاتی ادارے  یہ قرض کسی رحمدلی  یا انسانی ہمدردی کی بنیادپرہر گز فراہم نہیں کرتے بلکہ اس کے پیچھے ان کے بہت خطرناک بین الاقوامی معاشی عزائم ہوتے ہیں جن کو پوراکرنے کے لئے  وہ آہستہ آہستہ قوموں کو اپنے خونی شکنجے  میں کستے چلے  جاتے ہیں۔آئی ایم ایف کی شرائط کا بغور جائزہ لیں تو ان کا سارا زور عوام کی کمر دہری کرنے پر ہی  صرف ہوتا ہے۔قرض کے عوض ان کا روزمرہ استعمال کی ان چیزوں پر ٹیکس بڑھانے پر ہوتا ہے۔کبھی بجلی مہنگی کرنے کا کہا جاتا ہے، کبھی پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کی شرط رکھی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں ہر چیز کے نرخ بڑھتے چلے جاتے ہیں۔حیرت ہے کہ ان مالیاتی اداروں نے کبھی یہ شرط نہیں رکھی کہ آپ  مراعات یافتہ طبقے کے شاہانہ اخراجات میں کمی کریں، اپنی قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کو دی جانے والی پُرتعیش رعایتوں اور مراعات کو کم کریں،سول بیورو کریسی اور عسکری اداروں کے غیر ضروری اخراجات کو اپنی معاشی صورت حال کے ساتھ ہم آہنگ کریں۔ اگر معیشت مضبوط ہو تو ان کی مراعات بھی ضرور بڑھائیں اور اگر یہ تنزلی کا شکار ہیں تو انہیں بھی بتدریج کم کریں،لیکن ایسی شرط  آئی ایم ایف سے ملنے والی کسی قرض کی قسط کے ساتھ نہیں رکھی جاتی، بلکہ ان کا ٹارگٹ ہی قوموں کو معاشی بدحالی میں  دھکیل کر ان کی ترقی کی راہیں مسدود کرنے تک محدود ہوتا ہے۔ہمیں عرصہ دراز سے ایسی قیادت میسر نہیں آ سکی جو ہمارے معاشی استحکام  کی درست سمت کا تعین کر سکے۔

ماضی قریب  کے تین ادوارکو ہی دیکھیں تو پیپلز پارٹی کے دور میں ہماری بہت ساری انڈسٹری یہاں سے بنگلہ دیش منتقل ہوئی، مگر مجال ہے کہ کسی نے اس صورت حال کی سنگینی کا ادراک کیا ہو۔مسلم لیگ کے دور میں بھی معاشی کامیابی اسی قرض کے حصول کے ساتھ مشروط رہی۔قرض اتارو ملک سنوارو کا نعرہ تو لگایا گیا، مگر اس کے لئے کوئی معاشی منصوبہ بندی  نہیں کی گئی اور عوام سے ہی اپیل کی گئی کہ اس میں رقم جمع کروائیں اور پھر اس کا کیا ہوا کسی کو کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ تحریک انصاف کے دور حکومت کی بات کریں تو حقیقت یہی ہے کہ قرض نہ لینے کا نعرہ لے کر اقتدار میں آنے کے باوجود پچھلے تمام ادوار سے زیادہ قرض لیا گیا اور حیرت اس بات پر ہے کہ   ان کے دور میں جتنی تیزی سے معاشی تنزلی ہوئی اس کی مثال بھی پیش نہیں کی جا سکتی۔اس سب کے باوجود ارکان اسمبلی کی مراعات اور تنخواہوں میں اضافے  کا بل شاید وہ  واحد ایجنڈا تھا جسے تمام جماعتوں نے بغیر کسی  حیل و حجت اور اعتراض کے پا س کر لیا،یعنی ہم ذاتی مفادات کے حصول کے لئے تو اکٹھے ہو سکتے ہیں لیکن قومی مفادات کے لئے نہیں۔چیزوں کے نرخ جس تیزی سے رو ز کے روز بڑھے  اس کا سلسلہ اب تک تھمنے میں ہی نہیں آ رہاوہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔

یہی صورت حال اب موجودہ حکومت کو بھی درپیش ہے کہ کوئی چیز کسی کے کنٹرول میں ہی نہیں رہی اور عام آدمی ہے کہ اس چکی میں پس کر رہ گیا ہے،جس طرح سمند ر میں بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو نگل جاتی ہیں اس وقت بڑے تاجر وہی کام کرنے میں لگے ہیں۔اپنے بھرے ہوئے گوداموں میں ڈالر کے ریٹ کی تبدیلی کا بہانہ بنا کر روز نیا ریٹ نکالتے ہیں اور  چھوٹے کاروباری طبقے کے لئے کام کرنا ناممکن ہو کر رہ گیا ہے۔ موجودہ حکومت نے سارا زور عدم اعتماد کی کامیابی پر تو ضرور صرف کیا،لیکن ایک طویل تجربہ رکھنے کے باوجود  اس بات پر نظر نہیں رکھ سکی کہ اس نازک ترین صورت حال میں معیشت کو کس طرح سنبھالا دینا ہے۔اب  اس بدحالی میں اپنی سیاسی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لالے پڑے ہیں اور حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ایک درد مند پاکستانی کی حیثیت سے ملکی سیاسی گہما گہمی اور جلسوں کو دیکھیں تو آپ کو وہاں اس خطرناک معاشی بدحالی پر مجال ہے کوئی بات کرتا دکھائی دے۔سب ایک دوسرے پرالزامات کی بوچھاڑکرنے میں لگے ہیں۔سابق وزیر داخلہ علی الاعلان کہہ رہے ہیں کہ ہم حکومت گرانے کی پلاننگ کرنے والے کے شکر گزار ہیں کہ اس کی وجہ سے ہمیں نئی زندگی ملی،یعنی وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ  ہمارے پاس کارکردگی کی بنیاد پر آئندہ عوام کے پاس جانے کا کوئی جواز نہیں رہا تھا، لیکن اب سیاسی شہادت نے ہمیں پھر سے زندہ کر دیا ہے۔خدا کرے کہ ہماری سیاسی قیادتیں جس طرح حکومتیں گرانے کے لئے ماضی میں ایک دوسرے کے  دشمن ہوتے ہوئے بھی مفادات کے لئے مل بیٹھتی ہیں آج اس نازک صورتحال پر اس وطن اور ملک کے لئے اکٹھی ہو کر بیٹھ جائیں۔اس دلدل سے نکلنا کسی بھی اکیلی جماعت کے بس کی بات نہیں ہے۔ پوری قوم کو بحیثیت مجموعی ایک ہونا ہو گا ورنہ خدانخواستہ سری لنکا کے حالات ہماری  سیاسی قیادتوں کی عبرت کے لئے بہت کافی ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -