ٹیکنیکل ڈیفالٹ سے حقیقی ڈیفالٹ کی طرف
حکومتی اتحاد اور پی ٹی آئی و اتحادی ایک ایسی لڑائی میں مشغول ہیں جس کا اختتام ممکن نظر نہیں آ رہا، عمران خان شہباز شریف کی سربراہی میں قائم گیارہ جماعتی اتحاد پر مشتمل حکومت کو امپورٹڈ کہتے ہیں۔ امریکی سازش کی بنیاد پر پی ٹی آئی کی حکومت کو گرا کر امپورٹ کی جانے والی حکومت کو مانتے ہی نہیں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ امریکہ نے ان کی حکومت کے خلاف ایک سازش تیار کی جسے روبہ عمل لانے کے لئے یہاں اندرون ملک ”میر جعفروں اور میر صادقوں“ کو ساتھ ملایا اور انہیں حکومت سے باہر نکال کر موجودہ حکومت کو انسٹال کر دیاگیا۔ان کے بقول یہ حکومت امپورٹڈ ہے اور میری حکومت کو سازش کر کے ختم کیا گیا تھا۔اب معاملات سدھارنے کی ایک ہی ترکیب ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کر کے نگران حکومتیں قائم کی جائیں جو انتخابات کروا کر نمائندہ حکومتیں قائم کریں ایسا کرنا آئین کے مطابق ہے۔
عمران خان اپنے آئینی مطالبات کو منوانے کے لئے اپنے تئیں آئینی طریقہ کار اختیار کئے ہوئے ہیں، فیصلہ سازوں اور حکومت پر دباؤ کو بڑھا کر اپنا مطالبہ منوانے کے لئے لانگ مارچ کی کال دے چکے ہیں۔ویسے بادی النظر میں ان کا مطالبہ اور اسے منوانے کے لئے احتجاج، آئینی و جمہوری روایات کے عین مطابق نظر آ رہا ہے،لیکن فی الاصل ایسا کہنا اور سمجھنا درست نہیں ہے۔ مشہور دانشور اور عربی ادیب خلیل جبران کے بقول ”اگر آپ وہی کچھ دیکھتے ہیں جو نظر آتا ہے اور وہ وہی کچھ سنتے ہیں جو کانوں سے سنائی دیتا ہے تو پھر آپ اندھے اور بہرے ہیں“ یہ ایک ابدی حقیقت ہے کہ ہمارے حواس کی اپروچ محدود ہے،عمومی ہے اگر ہم صرف اپنے حواس کے سہارے،انہی کی رہنمائی میں چلیں اور فیصلے کرتے رہیں تو ہم گمراہ بھی ہو سکے ہیں اور تصادم کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔جاری صورت حال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔
اتحادی حکومت کا قیام، پارلیمانی آئینی اور جمہوری روایات کے عین مطابق ممکن ہوا ہے۔مرکز میں شہباز شریف کی سربراہی میں قائم ہونے والی اتحادی حکومت ہو یا پنجاب میں حمزہ شہباز کی قیادت میں اتحادی حکومت کا قیام، یہ سب کچھ آئین اور قانون کے مطابق وقوع پذیر ہوا ہے۔ان معاملات پر جو کچھ”غیر آئینی“ ہوا عدلیہ نے اس کی بھی تشریح کر دی۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کے25اراکین اسمبلی نے آئین و قانون کی پامالی کرتے ہوئے حمزہ شہباز شریف کو ووٹ دیا جس کی پاداش میں انہیں ڈی سیٹ کر دیا گیا۔حمزہ شہباز کا انتخاب اور حلف آئین و قانون کے مطابق اور عدلیہ کے احکامات کی روشنی میں ہوا۔گویا معاملات آئین اور قانون کے مطابق ہی چلتے اور آگے بڑھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
دوسری طرف ہمارے حالات، سیاسی اور معاشی معاملات بگاڑ،بلکہ شدید بگاڑ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔عمران خان نے گزرے 22سالہ تک اپنی سیاسی جدوجہد میں ڈی فالٹس کا ایک بیانیہ تشکیل دیا، انکار اور عدم تعاون کی تبلیغ کی۔ نظام سے ٹکرانے، حکمرانوں سے لڑنے اور حکمران طبقے کو ڈس کریڈٹ کرنے کی شعوری کاوشیں کیں۔ اپنی 22 سالہ جدوجہد کے نتیجے میں وہ ایک نسل کو قائل کرنے میں کامیاب رہے کہ ہمارے مسائل کی وجہ حکمران طبقے کی بددیانتی،کرپشن، اقرباء پروری اور دیگر عوامل ہیں پاکستان اسی حکمران طبقے کی عیاشیوں اور عوام دشمن پالیسیوں کے باعث ترقی نہیں کر سکا ہے اگر اسے،یعنی پاکستان کو اہل اور دیانتدار قیادت مل جائے تو یہاں دودھ شہد کی لہریں بہائی جا سکتی ہیں۔
2018ء میں بالادست اور فیصلہ ساز قوقوں کی ضروریات کے مطابق شریف خاندان کو بالعموم اور نواز شریف کو بالخصوص منظر سے ہٹانے کے لئے عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا۔اس وقت عمران خان کا بیانیہ خاصا مستحکم ہو چکا تھا۔ عمران خان اپنی آتش فشانی تقریروں کے ذریعے اپنے فالوئرز کی ایک خاص تعداد پیدا کر چکے تھے اورانہیں یقین بھی دِلا چکے تھے کہ وہ اقتدار میں آ کر پاکستان کو ریاست مدینہ بنا ڈالیں گے یہاں تعمیر و توقی اور استحکام کا ایک نیا دور شروع ہو جائے گا، قرضے ختم ہو جائیں گے، ایک کروڑ نوکریاں اور50لاکھ گھر دیئے جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ ایک عظیم الشان بیانیے اور امید افزاء ماحول میں عمران خان کو 2018ء میں اقتدار میں لایا گیا۔ مقدر طبقے اپنی اس کامیابی پر، یعنی نواز شریف کی ناہلیت اور عمران خان کو اقتدار میں لا کر، فرحاں و شاداں نظر آئے۔عمران خان بڑے طمطراق کے ساتھ ایوانِ اقتدار میں داخل ہوئے،بدقسمتی سے اپنے 44ماہی دورِ حکمرانی میں انہوں نے خوشنما بدزبانی و بدکلامی کے ساتھ ساتھ نااہلی اور ناروائی کی لازوال مثالیں قائم کیں اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے مسلم لیگ(ن)،پیپلزپارٹی اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو دیوار سے لگانے اور لگائے رکھنے کی ”شاندار کارکردگی“ دکھائی۔ فیصلہ سازوں نے اس عرصے کے دوران ان کی ”دامے، درمے و سخنے“ سپورٹ کی۔ عدلیہ ہو یا انتظامیہ، قومی پریس سمیت ہر ادارہ ان کی حمایت میں دست بدستہ کھڑا کر دیا گیا لیکن بدقسمتی سے انہوں نے اپنے22سالہ بیانیے کی44ماہ میں ”ایسی تیسی“ پھیر کر رکھ دی،اب عمران خان شہباز شریف کی قیادت میں قائم حکومت کو گرانے کے لئے چل نکلے ہیں۔اب ملک کسی ایجی ٹیشن اور مزاحمتی سیاست کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ سردست معاملات حکومت کے قابو میں نہیں آ رہے ہیں۔آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے نہیں ہو رہے ہیں۔ڈالر کی اڑان جاری ہے، مہنگائی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے،بجلی کا جن یعنی لوڈشیڈنگ بھی بے قابو ہے،عوام پریشان ہیں ناامیدی کے سائے گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ عمران خان الیکشن کی تاریخ لینے کے لئے یکسو ہیں۔حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے پر بضد ہے۔ معاملات لاک ڈاؤن،یعنی بند گلی میں جا چکے ہیں۔ ہماری سیاست اور معیشت ہی نہیں معاشرت بھی بند گلی میں جا چکی ہے۔ ٹیکنیکل ڈیفالٹ کے بعد اگر ہم حقیقی ڈیفالٹ کی طرف چلے گئے تو کیا ہو گا؟ ایسا صرف سوچا ہی جا سکتا ہے عملاً…… اللہ خیر کرے۔