بولر نے گیند ایسی کھینچ کے ماری کہ مرزا کے سر سے ایک آواز (اور منہ سے کئی!) نکلی اور ٹوپی اڑ کر وکٹ کیپر کے قدموں پر جا پڑی (مشتاق احمد یوسفی کی مزاح سے بھرپور تحریر)
آخری قسط
چند اوور کے بعد کھیل کا رنگ بدلتا نظرآیا اور یوں محسوس ہونے لگا گویا وکٹ گیند کو اپنی جانب اس طرح کھینچ رہا ہے جیسے مقناطیسی لوہےکو۔ ہم نے دیکھا کہ ساتویں اوور کی تیسری گیند پر مرزا نے اپنی مسلح و مسلم ران درمیان میں حائل کر دی۔ سب یک زبان ہوکر چیخ اٹھے، ”ہاؤز دیٹ۔“
”مرزا نے دانستہ اپنی ٹانگ اس جگہ رکھی جہاں میں ہمیشہ گیند پھینکتا ہوں۔“ بولر نے الزام لگایا۔
”بکواس ہے۔ بات یوں ہے کہ اس نے جان بوجھ کر اس جگہ گیند پھینکی جہاں میں ہمیشہ اپنی ٹانگ رکھتا ہوں۔“ مرزا نے جواب دیا۔
”اگر میرا نشانہ ایساہی ہوتا تو مرزا جی کبھی کے پویلین میں براجمان ہوتے۔“بولر بولا۔
”تو یوں کہو کہ تمہاری گیند وکٹ سے الرجک ہے۔“ مرزا نے کہا۔
”میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ مرزا نے عمداً ٹانگ آگے کی۔“ یک چشم بولر نے حلفیہ کہا۔
امپائر نے دونوں کو سمجھایا کہ بحثا بحثی کرکٹ کی اسپرٹ کے خلاف ہے۔ پھریہ فیصلہ صادر فرمایا کہ بیٹس مین کے کھیل کے محتاط اسٹائل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگر اسے ذرا بھی احتمال ہوتا کہ گیند اس کی ٹانگ کی طرف آ رہی ہے تو وہ کھٹاک سے وکٹ کو اپنی ٹانگ کے آگے کر دیتا۔
اس فیصلہ پر مرزا نے اپنی ٹوپی اچھالی اور جب وہ اپنے مرکز کی طرف واپس آگئی تو پھر کھیل شروع ہوا۔ لیکن دوسرے ہی اوور میں بولر نے گیند ایسی کھینچ کے ماری کہ مرزا کے سر سے ایک آواز (اور منہ سے کئی!) نکلی اور ٹوپی اڑ کر وکٹ کیپر کے قدموں پر جا پڑی۔
جب امپائر نے مرزا کو ٹوپی پہنانے کی کوشش کی تو وہ ایک انچ تنگ ہو چکی تھی! اس کے باوجود مرزا خوب جم کر کھیلے اور ایسا جم کے کھیلے کہ ان کی اپنی ٹیم کے پاؤں اکھڑ گئے۔ اس اجمال پرملال کی تفصیل یہ ہے کہ جیسے ہی ان کا ساتھی گیند پر ہٹ لگاتا ویسے ہی مرزا اسے رن بنانے کی پر زور دعوت دیتے اور جب وہ کشاں کشاں تین چوتھا ئی پچ طے کرلیتا تو اسے ڈانٹ ڈپٹ کر، بلکہ دھکیل کر، اپنے وکٹ کی جانب واپس بھیج دیتے۔ مگر اکثر یہی ہوا کہ گیند اس غریب سے پہلے وہاں پہنچ گئی اور وہ مفت میں رن آؤٹ ہو گیا۔ جب مرزا نے یکے بعددیگرے اپنی ٹیم کے پانچ کھلاڑیوں کا بشمول کپتان ذی شان، اس طرح جلوس نکال دیا تو کپتان نے پس ماندگان کو سختی سے تنبیہ کردی کہ خبردار! مرزا کے علاوہ کوئی رن نہ بنائے۔
لیکن مرزا آخری وکٹ تک اپنی وضع احتیاط پر ثابت قدمی سے قائم رہے اور ایک رن بنا کے نہیں دیا۔ اس کے باوجود ان کا اسکور اپنی ٹیم میں سب سے اچھا رہا۔ اس لئے کہ رن تو کسی اور نے بھی نہیں بنائے مگر وہ سب آؤٹ ہو گئے۔ اس کے بر عکس مرزا خود کو بڑے فخر کے ساتھ” زیرو ناٹ آؤٹ“ بتاتے تھے۔ ناٹ آؤٹ! اور یہ بڑی بات ہے۔
کھیل کے مختصر وقفے کے بعد طویل لنچ شروع ہوا۔ جس میں بعض شادی شدہ افسروں نے چھک کے بیئر پی اور اونگھنے لگے۔جنہوں نے نہیں پی وہ ان کی بیویوں سے بدتمیزیاں کرنے لگے۔ جب چائے کے وقت میں کل دس منٹ باقی رہ گئے اور بیرے جھپاک جھپاک پیالیاں لگانے لگے تو مجبوراً کھیل شروع کرنا پڑا۔ دو کھلاڑی امپائر کو سہارا دے کر پچ تک لے گئے اور مرزا نے بولنگ سنبھالی۔ پتہ چلا کہ وہ بولنگ کی اس نایاب صنف میں ید طولیٰ رکھتے ہیں جسے ان کے بد خواہ ”وائڈبال“ کہنے پر مصر تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہٹ لگے بغیر بھی دھڑا دھڑ رن بننے لگے۔ تین اوور کے بعد یہ حال ہو گیا کہ مرزا ہر گیند پرگالی دینے لگے۔ (شکار میں بھی ان کا سدا سے یہی دستور رہاکہ فائر کرنے سے پہلے دانت پیش کر تیتر کو کوستے ہیں اور فائر کرنے کے بعد بندوق بنانے والے کارخانے کو گالیاں دیتے ہیں۔)
ہم بولنگ کی مختلف قسموں اورباریکیوں سے واقف نہیں۔ تاہم اتنا ضرور دیکھا کہ جس رفتار سے مرزا وکٹ کی طرف گیند پھینکتے، اس سے چوگنی رفتار سے واپس کردی جاتی۔ وہ تھوڑی دیرکج رفتار گیند کو حیرت اور حسرت سے دیکھتے۔ بار بار اس پر اپنا دایاں کف افسوس ملتے۔ پھر بھدر بھدر دوڑتے اور جب اور جہاں سانس بھر جاتی وہیں اسی لمحے لنجے ہاتھ سے گیند پھینک دیتے۔
منہ پھیر کر ادھر کو، ادھر کو بڑھا کے ہاتھ
ابتدا ءمیں تو مخالف ٹیم ان کی بولنگ کے معیار سے نہایت مطمئن و محظوظ ہوئی۔ لیکن جب اسکے پہلے ہی کھلاڑی نے پندرہ منٹ میں تیس رن بنا ڈالے تو کپتان نے اصرار کیا کہ ہمارے دوسرے بیٹس مین رہے جاتے ہیں۔ ان کو بھی موقع ملنا چاہئے۔ اسلیے آپ اپنا بولر بدلیے۔
مرزا بولنگ چھوڑ کر پویلین آگئے۔ مارے خوشی کے کانوں تک باچھیں کھل پڑ رہی تھیں۔ جب وہ اپنی جگہ پر واپس آ گئیں تو منہ ہمارے کان سے بھڑا کر بولے، ”کہو، پسند آئی؟“
”کون؟ کدھر؟“ ہم نے پوچھا۔
ہمارا ہاتھ جھٹک کر بولے، ”نرے گاؤدی ہو تم بھی! میں کرکٹ کی اسپرٹ کی بات کر رہا ہوں۔“
کتاب " چراغ تلے " سے اقتباس