قدیم دور میں بلتستان بھی لداخ ضلع کا حصہ تھا،ہندوستان نے تمام حدیں ہی پار کر دیں ”ڈل جھیل“کو ویران کر دیا اور  انسانیت کی دھجیاں بکھیر دیں 

 قدیم دور میں بلتستان بھی لداخ ضلع کا حصہ تھا،ہندوستان نے تمام حدیں ہی پار کر ...
 قدیم دور میں بلتستان بھی لداخ ضلع کا حصہ تھا،ہندوستان نے تمام حدیں ہی پار کر دیں ”ڈل جھیل“کو ویران کر دیا اور  انسانیت کی دھجیاں بکھیر دیں 

  

 مصنف:شہزاد احمد حمید

 قسط:26

 ”قدیم دور میں تمھارا  بلتستان بھی لداخ ضلع کا حصہ تھا۔”لیہہ اور کارگل“ اس کے اہم قصبے ہیں۔“ سندھو پھر کہانی آگے بڑھانے لگا۔”کارگل تو تمھیں یاد ہی ہو گااور  1999ء کا کارگل محاذ بھی۔کارگل کا واقعہ بھی تمھاری سیاسی اور عسکری تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس ایڈونچر نے کسی کو پابند سلاسل کر دیا اور کسی کو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا دیا تھا“۔۔ بقول ہٹلر؛

 ”جو لیڈر اپنے مقصد کے حصول کے لئے جان نہیں دے سکتا وہ لیڈر نہیں۔“

 بقول عظیم فلسفی شاعرعلامہ اقبال؛ ؒ

آتش جان گدا جوع گدا است     جوع سلطان ملک و ملت را فنا است

 ”گدا (فقیر) کی بھوک اس کی جان لیتی ہے جبکہ سلطان(حکمران) کی بھوک ملک و ملت کو کھا جاتی ہے۔“

سب کیوں بھول جاتے ہیں کہ بادشاہی صرف اللہ کی ہی ہے۔ حکمران کو صرف رعایا کی خدمت ہی کرنی چاہیے اور صلہ رب پر چھوڑ دینا چاہیے۔ بادشاہت کی سوچ ہی خرابی کی اصل جڑ ہے۔ کاش یہاں کے حکمران سمجھ پائیں۔ فرمان الہٰی ہے؛

”اللہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے، جسے چاہتا ہے ذلت کہ وہ ہر شے پر قادر ہے۔“

میرا دوست بولتا چلا جا رہا ہے۔ اس کی باتیں میرے دل و دماغ میں اترتی جارہی ہیں۔ ”پاک بھارت آخری فوجی معرکہ یہیں کارگل میں لڑا گیا تھا۔ امن قائم کرنے اور ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوشش، اس بے مقصد لڑائی نے ضائع کر دی  یا تم نے کشمیر آزاد کرانے کا ایک اور موقع گنوا دیا؟ یہ زیربحث نقطہ ہے۔ اکثریت کا خیال ہے کہ میدان میں جیتا کارگل کا معرکہ تم نے امریکی دباؤ میں آ کر میز پر ہار دیا۔ یار! تمھارے حکمران قومی مفادات کو بھی اپنی پسند اور مفاد کے لئے قربان کر دیتے ہیں؟ کیسے حکمران ہیں یہ۔شاید تم دنیا کا پہلا ملک ہو جو ہر بات کی اجازت امریکہ سے لیتا ہے۔بس ایک حکمران نے اس سپر طاقت سے پنگا لیا اور اپنی جان کی قربانی دینا پڑی تھی اور دوسرے کی حکومت کا دھڑن تختہ کر دیا اس نے۔ دونوں ممالک کی افواج شاید اس جنت نظیر خطے اور یہاں کے ٹھنڈے برفیلے موسم کو بارود کی بو اور گولیوں کی آواز سے گرم رکھنا چاہتی ہیں۔ ہندوستان نے تو تمام حدیں ہی پار کر دی ہیں کشمیر کو لہو لہو کردیا۔ معصوم بچوں، جوان بچیوں، نوجوانوں اور بوڑھوں پر ظلم کی انتہا کر دی ہے۔”ڈل جھیل“کو ویران کر دیا اور اس جنت نظیر پر کرفیو لگا کر پرامن اور نہتے کشمیروں کو جینے کے حق سے محروم ہی نہیں کیا بلکہ کشمیر کو قید خانے میں بدل دیا ہے۔ سامراجی ظلم کی انتہا کر دی ہے۔ انسانیت کی دھجیاں بکھیر دی ہیں مگر آفرین ہے دنیا پر اور خاص طور پر ان ممالک کو جو خود کوانسانی حقوق کا علمبردار کہتے ہیں کہ معاشی مفادات کے لئے اس مسئلہ پر انہوں نے مجرمانہ خاموشی اور ایسی چپ سادھ رکھی ہے کہ نہ کچھ بولتے ہیں نہ کچھ کہتے ہیں۔ان ممالک کی نظر میں مسلمان کا خون خون نہیں۔ برا نہ منانا مسلمان ملکوں کا بھی کوئی پرسان حال نہیں۔ پیسے، شراب، شباب اور معاشی مفادات نے اُن کو اندھا کر رکھا ہے۔  مجھے شورش کاشمیری مرحوم کی ایک تحریر یاد آگئی  ہے۔ لکھی تو انہوں نے غالباً1970؁ء میں تھی لیکن آج کے حالات پر پوری اترتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں؛

”جدہ میں اب دو چیزیں عرب کی ہیں۔ ایک زبان اور دوسری اذان۔ باقی ہر چیز پر مغرب کی چھاپ لگی ہوئی ہے۔ عربوں کا لباس بھی یہاں مخلوط ہو گیا ہے۔ قطع ہے تو وضح نہیں، وضع ہے توقطع نہیں۔ وضع کا بھرم بھاؤ ہے تو قطع میں رکھ رکھاؤ نہیں۔غرض عرب تو ہیں ہر قسم کے عرب،عربہ بھی اور عرب مستعربہ بھی لیکن ارض قرآن کے عرب اب آب و گل کے ایک نئے سانچے  میں ڈھل گئے ہیں۔وہ طوفانوں سے کھیلنے والے عرب تھے اور خود ایک طوفان تھے کے تما شائی یہ ساحل عرب ہیں جو کنارے پر کھڑے خود ایک کنارہ ہو گئے ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہو گا کہ ان کاماضی سے کوئی رشتہ نہیں رہا لیکن یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ان کا ماضی ان سے محروم ہو چکا اور اس چراغ کی طرح ہو گیاہے جو یادوں کے مزار پر بھولی بسری لو دیتا ہے۔“ 

 (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -